ہماری سینیٹ اجلاس کی ریکوزیشن کے بارے سینیٹ سیکرٹریٹ کا جوابی خط توہین پر مبنی ہے،سینیٹر تاج حیدر
اجلاس سے میں متعلق ایوان بالا میں نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا
تاج حیدرکا سخت ردعمل، سینیٹ سیکرٹریٹ کے رویے کی مذمت کردی
پیپلز پارٹی کو ریکوزیشن کے لیے کوئی مسئلہ تھا تو ہم سے دستخط کرا لیتے، سیف اللہ ابڑو
اسلام آباد ( ویب نیوز)
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے سینیٹ اجلاس کی ریکوزیشن کے بارے میں سینیٹ سیکرٹریٹ کے جوابی خط کو ارکان اور ایوان بالا کی توہین قرار دے دیا ایوان بالا میں نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا،تاج حیدر نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سینیٹ سیکرٹریٹ کے رویے کی مذمت کی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو ریکوزیشن کے لیے کوئی مسئلہ تھا تو ہم سے دستخط کرا لیتے ہم تیار تھے ۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ریکوزیشن کے حوالے سے ہمیں کسی متعلقہ رکن پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے سب قابل احترام ہیں تاہم اس ریکوزیشن کے جواب میں سینیٹ سیکرٹریٹ کا خط بے ادبی ہے ارکان سینیٹ اور ایوان کی توہین کی گئی ہے سینیٹ سیکرٹریٹ کے اس رویے کی مذمت کرتا ہوں انہوں نے کہا کہ جڑانوالہ واقعات پر بحث کے لیے یہ ریکوزیشن جمع کرائی گئی تھی ۔ ہمارے دیگر ساتھی دیگر ایجنڈا آئٹم بھی شامل کروانا چاہتے تھے بہرحال ہم کسی رکن پر شک و شبے کا اظہار نہیں کرتے سب قابل عزت ہیں سینیٹ سیکرٹریٹ کو ریکوزیشن سے متعلق اس قسم کا خط نہیں لکھنا چاہیے تھا اور انہیں احتیاط کرنی چاہیے تھی ۔ کیا یہ وہی سینیٹ سیکرٹریٹ نہیں ہے جس نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر ووٹوں کی نگرانی کے لیے جاسوسی کے کیمرے لگائے اور مردم شماری کے معاملے پر ہماری تحریک میں رکاوٹ ڈالی گئی ۔ ایک اور بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ انتخابی تاریخ کے بارے میں الیکشن کمیشن کے اختیار سے متعلق انتخابی قانون میں ترمیم پارلیمنٹ نے منظور کی صدر اور مجھ سمیت سب پر یہ قانون لاگو ہوتا ہے اور صدر کو الیکشن کمیشن کے اس اختیار پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے تاہم پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا ہے کہ انتخابی تاریخ کے بارے میں آئین میں ترمیم ضروری ہے موجودہ آئینی آرٹیکل کے تحت تاریخ کا اختیار صدر کے پاس ہے اور کسی ماتحت قانون نہیں بلکہ کسی بھی معاملے میں آئین کو فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ سینیٹ کا اجلاس طلب کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کو کوئی اگر دقت درپیش تھی تو ہم سے رابطہ کرتے ۔ہم اس ریکوزیشن پر دستخط کر دیتے ۔