سکھ رہنما کا قتل: کینیڈا کی تحقیقات میں بھارتی سفارت کار کے روابط موجود ہیں، رپورٹ
اوٹاوا(ویب نیوز)
کینیڈا کی حکومت نے سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل کی ایک مہینوں طویل تحقیقات میں انسانی اور سگنل انٹیلی جنس دونوں طرز کے شواہد اکٹھے کرنے کا دعوی کیا ہے۔ برطانوی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 18 ستمبر کو غیر معمولی کشیدگی اس وقت بھڑک اٹھی جب کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ رواں برس جون میں برٹش کولمبیا میں سکھ عبادت گاہ کے باہر 45 سالہ ہردیپ سنگھ نجار کے قتل سے بھارتی حکومت کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے شبہات پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔دونوں ممالک نے اس کے بعد سے سینئر سفارت کاروں کی بے دخلی کا اعلان کیا ہے اور اپنے شہریوں کے لیے ٹریول ایڈوائزری بھی جاری کی ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے مبینہ قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی جبکہ بھارت سے قتل کی تحقیقات میں تعاون کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کینیڈا نے گزشتہ روز کہا کہ وہ اپنے شواہد جاری نہیں کرے گا۔تاہم کینیڈا کے روایتی مغربی اتحادیوں نے اب تک اس معاملے میں نسبتا محتاط رویہ اپنا رکھا ہے جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا اور دیگر بڑے کھلاڑی بھارت کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابل کے طور پر دیکھتے ہیں۔کینیڈا کے نشریاتی ادارے سی بی سی نیوز نے حکومتی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس میں وہ مواصلات شامل ہیں جن میں خود بھارتی حکام بشمول کینیڈا میں موجود بھارتی سفارت کار شامل ہیں۔سی بی سی نیوز کی روپرٹ میں مزید کہا گیا کہ خفیہ اطلاعات صرف کینیڈا سے نہیں آئیں بلکہ کچھ فائیو آئیز اتحادیوں کی طرف سے بھی فراہم کی گئی ہیں۔خیال رہے کہ فائیو آئیز ایک انٹیلی جنس شیئرنگ نیٹ ورک ہے جس میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔سی بی سی نیوز نے مزید کہا کہ مقتول سکھ رہنما کو اطلاعات کے مطابق کینیڈین سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس نے خبردار کیا تھا کہ ان کو خطرہ ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پردے کے پیچھے آہستہ آہستہ سامنے آنے والے سفارتی بحران میں کینیڈین حکام کئی مواقع پر سکھ رہنما کی موت کی تحقیقات میں تعاون کے لیے بھارت جاتے رہے ہیں۔سی بی سی نیوز نے کہا کہ کینیڈا کی قومی سلامتی اور انٹیلی جنس مشیر جوڈی تھامس اگست کے وسط میں 4 سے زائد زیادہ دنوں کے لیے بھارت میں تھیں۔مزید کہا گیا کہ اس مہینے کا ایک اور 5 روزہ دورہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان کشیدہ ملاقات کی وجہ سے معطل ہوگیا۔سی بی سی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی 78ویں جنرل اسمبلی میں شرکت کے بعد کینیڈین وزیراعظم کے حوالے سے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہاوس آف کامنز کے فلور پر ان الزامات کو شیئر کرنے کا فیصلہ ایسے ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کیا گیا تھا۔دریں اثناء امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ امریکا اعلی سطح پر بھارت کے ساتھ رابطے میں ہے اور واشنگٹن اس معاملے میں بھارت کو کوئی خصوصی چھوٹ نہیں دے رہا ہے۔امریکا اس وقت عالمی صورت حال کے پیش نظر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔قبل ازیں، رواں برس امریکی صدر جو بائیڈن نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو سرکاری دورے پر وائٹ ہاوس میں مدعو کیا تھا۔ایک سوال پر کہ کیا اس واقعے پر امریکی تشویش اس عمل میں خلل پیدا کر سکتی ہے، جیک سلیوان نے کہا کہ امریکا اپنے اصولوں پر قائم رہے گا، چاہے کوئی بھی ملک متاثر ہو۔جیک سلیوان نے کہا کہ یہ ہمارے لیے تشویش کا معاملہ ہے، یہ ایسی چیز ہے جس کو ہم سنجیدگی سے لیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جس پر ہم کام کرتے رہیں گے، اور ہم اسے کسی بھی ملک سے قطع نظر سنجیدگی سے دیکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اعمال کے لیے آپ کو کوئی خاص چھوٹ نہیں ملتی، ملک سے قطع نظر ہم کھڑے ہوں گے اور اپنے بنیادی اصولوں کا دفاع کریں گے اور ہم کینیڈا جیسے اتحادیوں سے بھی قریبی مشاورت کریں گے کیونکہ وہ اپنے قانون کے نفاذ اور سفارتی عمل آگے بڑھاتے ہیں۔جیک سلیوان نے کہا کہ امریکا اس معاملے پر دونوں ممالک سے رابطے میں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے کینڈین ہم منصب اور بھارتی حکومت سے بھی رابطے میں ہیں۔قبل ازیں، امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ وہ قتل کے معاملے میں کینیڈا کی کوششوں کی معاونت کرتا ہے اور بھارت پر بھی تفتیش میں معاونت کے لیے زور دیتا ہے۔علاوہ ازیں امریکی قومی سلامتی کے ایک اور ترجمان ایڈرین واٹسن نے ان رپورٹس کو مسترد کردیا تھا کہ امریکا نے اس معاملے پر کینیڈا کی سرزنش کی ہے۔آسٹریلیا نے کینیڈا کے الزامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ برطانیہ نے کہا کہ وہ سنگین الزامات کے بارے میں اپنے کینیڈین شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔