سیاسی حکومتوں کا مفاد 25کروڑ عوام کے ساتھ وابستہ ہے، فوادحسن فواد
نجکاری کے حوالہ سے میرا فوکس پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے ساتھ پاکستان اسٹیل مل اور ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن بھی ہے
پاکستان اسٹیل مل کی خریداری میں دلچسپی لینے والی چار پری کوالیفائڈ کمپنیوں میں سے تین پیچھے ہٹ چکی ہیں،نگران وفاقی وزیر برائے نجکاری کا انٹرویو
اسلام آباد(ویب نیوز)
نگران وفاقی وزیر برائے نجکاری فوادحسن فواد نے کہا ہے کہ نجکاری کے حوالہ سے میرا فوکس پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے ساتھ پاکستان اسٹیل مل اور ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن بھی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل مل کی خریداری میں دلچسپی لینے والی چار پری کوالیفائڈ کمپنیوں میں سے تین پیچھے ہٹ چکی ہیں اور صرف ایک کمپنی ابھی تک دلچسپی کااظہار کررہی ہے۔آج سے 20سال پہلے جس چیز کی نجکاری ہورہی تھی آج اُس اثاثے کی قدر بھی بہت کم ہوچکی ہے۔ ہمارے جو دو، تین بڑے ادارے ہیںان کا سالانہ نقصان ایک ارب ڈالر ہے۔ میرے نقطہ نظر سے تواُدھار لینے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنے نقصانات کا راستہ روکیں۔ میں یقین دلاسکتا ہوں کہ اس وقت نگران وزیر اعظم سے لے کر پورے نگران سیٹ اپ اورجو بھی ادارہ جاتی بندوبست ہے جس میں ایسا نظام موجود ہے کہ کئی مرحلوں سے چیز گزرتی ہے اس میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جو پاکستان کے کسی بھی اثاثے کو ایک روپے کی کم ویلو پر بیچنے کا سوچ بھی رہا ہو۔ان خیالات کااظہار فواد حسن فواد نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ فواد حسن فواد کا کہنا تھا کہ حکومتی ملکیت انٹرپرائزز کی تعداد 212ہے، ان اداروں میں ہماراتعلق صرف ان حکومتی ملکیتی اداروں سے ہے جن کوہم سے پہلے کی منتخب حکومتیں ایکٹو پرائیویٹائزیشن لسٹ پر ڈال گئی ہیں یا پرائیویٹائزیشن لسٹ پر ڈال گئی ہیں۔ تمام 212حکومتی ملکیتی اداروں کا سارے کاسارا حساب ہمارے پاس نہیں ہے۔ اگر حکومتی ملکیتی ادارے 1000ہزارارب روپے کا نقصان کرتے ہیں تواس میں سے 800سے900ارب روپے ان اداروں میں نقصان ہورہا ہے جو ایکٹو پرائیویٹائزیشن یا پرائیویٹائزیشن لسٹ میں شامل ہیں۔ یہ لوگوں کے لئے سمجھنا بہت ضروری ہے کہ بات اداروں کی نجکاری کے حوالہ سے آئی ایم ایف کے کہنے یا نہ کہنے کی بات نہیں ہے، پاکستان جن معاشی مسائل سے گزررہا ہے اس کی سب سے زیادہ سمجھ عام آدمی اورغریب ترین طبقہ کو ہے کیونکہ سب سے زیادہ بوجھ اس پر ہے، سمجھ اسی کوآتی ہے جس پر سب سے زیادہ بوجھ ہوتا ہے، میرانہیں خیال کہ پاکستان میں آج کوئی بھی شخص ایسا ہو گا جو یہ سمجھتا ہے ماسوائے ان کے جن کا کوئی ایسا مفادان اداروں میں سے کسی ایک کے ساتھ یازیادہ کے ساتھ وابستہ ہو گا جو یہ سمجھتا ہو کہ حکومت پاکستان کو یہ بوجھ مستقل اٹھاتے ہوئے غریب آدمی کو غریب سے غریت ترکرتے رہنا چاہیئے۔فواد حسن فواد کا کہنا تھا کہ سیاسی حکومتوں کا مفاد 25کروڑ عوام کے ساتھ وابستہ ہے اوران کا کسی ایک ادارے کے پانچ یاسات ہزار ملازمین سے نہیں ہے، میں تواس حوالہ سے بڑا کلیئر ہوں کہ شاید ہی کوئی سیاسی جماعت کسی ادارے کے صرف دوہزار ملازمین کا دفاع کرنا چاہتی ہو اورپورے پاکستان کے اورریاست کے مفاد کا دفاع نہ کرنا چاہتی ہو۔ نجکاری کاعمل ہم سے پہلے سے شروع ہواتھا، نگران حکومت کا دورجنوری کے آخری ہفتے تک ہے یا پہلے ہفتے تک ہے اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، جہاں منتخب حکومت اس عمل کو چھوڑ کر گئی ہے اورجتنا مینڈیٹ وہ جاتے ہوئے قانون سازی کے زریعہ ہمیں دے گئی ہے ہم نے اس مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے اُن تمام ادارون کی نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانا ہے ، میں نجکاری کے ادارے کولیڈکررہا ہوں تومیرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ میری ترجیح میں پہلے کون ساادارہ ہے،میری ترجیح پر پہلے وہی ادارہ ہو گا جو سب سے زیادہ نقصان کررہا ہے اوردوسرا ادارہ وہ ہو گا جواُس سے کم نقصان کررہا ہو گا۔ کوئی خاص ہدف کسی ادارے کی نجکاری کا ہمارے سامنے نہیں ہے، ہمارے سامنے صرف ایک ہدف ہے کہ ہم نے حکومت پاکستان کے نقصان کو جو درحقیقت پاکستان کے عوام کے نقصانات ہیں ، ہم نے اِن نقصانات کو ہر ممکن حد تک کم کرناہے۔ ہم ایک، ایک دن کے لئے جوابدہ ہیں کہ اس عمل میں تاخیر نہ کریں اورکوئی ایسی غلطی بھی نہ کریں جس سے ریاست کے یا پاکستان کے مفادات ہیں ان پر معمولی سی بھی زد پڑے۔ ہرادارے کو ہم نے اپس کے معروضی حقائق کے مطابق دیکھنا ہے، ہم نے اُس کی گورننس کی صورتحال کے مطابق دیکھنا ہے، ہم نے اُس کے تسلیم شدہ نقصانات کے حوالہ سے بھی دیکھنا ہے اورجو نقصانات ابھی سامنے نہیں ہیں اُن کے حوالہ سے بھی دیکھنا ہے۔ میرا کام یہ بھی ہے کہ میں سرمایا کارکے سامنے یہ بھی رکھوں کہ اگرآپ اس میں سرمایاکاری کرسکیں تو اس میں یہ صلاحیت ہے اوریہ پوٹینشل موجود ہے کہ یہ آپ کے لئے بہت منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے۔ میں کبھی کسی کے سامنے یہ نہیں کہوں گا کہ یہ فیصلہ کسی اور کروادیا بلکہ جو فیصلہ میری ٹیبل سے ہورہا ہے میں ہمیشہ اس کے لئے ذمہ دار ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی تقسیم کارکمپنیاں ابھی ایکٹو پرائیویٹائزیشن لسٹ پر نہیں ہیں۔