سائفر کیس، ایف آئی اے کا چالان خصوصی عدالت میں جمع ، چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی قصور وار قرار
ایف آئی اے کی چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو ٹرائل کر کے سزا دینے کی استدعا ، اسد عمر ملزمان کی لسٹ میں شامل نہیں
چالان میں سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان ایف آئی اے کے مضبوط گواہ ہیں ،ان کا 161 اور 164 کا بیان چالان کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے
سیکریٹری خارجہ اسد مجید،سابق سیکریٹری خارجہ اور سہیل محمود اور ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ فیصل نیاز ترمزی بھی ایف آئی اے کے گواہوں میں شامل ہیں
سائفر کیس میں چالان کی نقول آئندہ سماعت پر چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو فراہم کیے جانے کا بھی امکان ہے،ذرائع
اسلام آباد(ویب نیوز)
ایف آئی اے نے سائفر کیس کا چالان آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت میں جمع کرا دیا جس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں قصوروار قرار دیا گیا ہے۔ایف آئی اے نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو ٹرائل کر کے سزا دینے کی استدعا کی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد عمر ایف آئی اے کی ملزمان کی لسٹ میں شامل نہیں جبکہ چالان میں سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان ایف آئی اے کے مضبوط گواہ ہیں۔اعظم خان کا 161 اور 164 کا بیان چالان کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔چالان کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر اپنے پاس رکھا اور اسٹیٹ سیکرٹ کا غلط استعمال کیا۔چالان کے مطابق سائفر کاپی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس پہنچی لیکن واپس نہیں کی گئی۔چالان میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی 27مارچ کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ منسلک کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے 28گواہوں کی فہرست چالان کے ساتھ سیکرٹ ایکٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے۔سیکریٹری خارجہ اسد مجید اور سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود بھی گواہان میں شامل ہیں۔ ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ فیصل نیاز ترمزی بھی ایف آئی اے کے گواہوں میں شامل ہیں۔ سائفر وزارت خارجہ سے لے کر وزیرِ اعظم تک پہنچنے تک پوری چین گواہان میں شامل ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سائفر کیس میں چالان کی نقول آئندہ سماعت پر چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو فراہم کیے جانے کا بھی امکان ہے، جس کے بعد فرد جرم کی تاریخ مقرر کی جائے گی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف وعدہ معاف گواہ اعظم خان کا 164 کے بیان کی کاپی عدالت میں جمع کروائی گئی ہے۔اعظم خان کے بیان کی کاپی فراہم کی جائے گی یا وکلا کو صرف پڑھنے کی اجازت ہوگی، یہ عدالت کا اختیار ہے۔