مقبوضہ کشمیر میں مقیم350 سے زیادہ پاکستانی خواتین کو ڈی پورٹ ہونے کا خطرہ
مقبوضہ کشمیر میں غیر ملکی شہریوں کی شناخت کے لیے قائم اعلی اختیاراتی کمیٹی قائم کر دی گئی
کمیٹی نے شناخت سے محروم پاکستانی خواتین کے کوائف اکٹھے کرنے شروع کر دیے ہیں
کشمیری نوجوانوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین کو بھارتی حکومت نے قبول نہیں کیا
سری نگر(ویب نیوز )
بھارتی وزارت داخلہ کے حکم پر مقبوضہ کشمیر میں غیر ملکی شہریوں کی شناخت کے لیے قائم اعلی اختیاراتی کمیٹی نے 350 سے زیادہ پاکستانی خواتین کی معلومات جمع کرانے کا کام شروع کر دیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں شناخت سے محروم پاکستانی خواتین کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ انہیں ڈی پورٹ کر دیا جائے گا ۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق جموں و کشمیر میں غیر ملکی شہریوں کی شناخت کے لیے قائم اعلی اختیاراتی کمیٹی کوروہنگیا مسلمانوں، بنگلہ دیش کے غیر ملکی شہریوں اور سابق عسکریت پسندوں کے خاندانوں کی شناخت کا کام دیا گیا ہے ۔سابق عسکریت پسند2010 میں اس وقت کے وزیر اعلی عمر عبداللہ کے دور میںایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیپال کے راستے جموں و کشمیر واپس آنے کے بعد کشمیر میں رہ رہے ہیں۔ سابق عسکریت پسندوں کی بیویوں اور بچوں پر مشتمل 350 سے زائد خاندان نیپال کے راستے کشمیر گئے۔ جموں و کشمیر پہنچنے کے بعد، انہوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور بعد میں انہیں چھوڑ دیا گیا۔ چھ رکنی پینل کی سربراہی فنانشل کمشنر اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم آر کے گوئل کر رہے۔ اس میں غیر ملکیوں کے علاقائی رجسٹریشن افسر امرتسر، جموں اور سری نگر کے سی آئی ڈی ونگ کے دو ایس ایس پیز، 20 اضلاع کے تمام ضلعی ایس ایس پیز کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔اخبار کے مطابق 37 سالہ بشری، جو شمالی کشمیر کے سوپور قصبے میں ایک دہائی سے ایک بوتیک چلا رہی ہیں، پاکستان کی ان متعدد خواتین میں شامل ہیں، جنہوں نے کشمیری مردوں سے شادی کی تھی اور پاکستان میں اپنے والدین کے پاس واپس جانے کے حق کے ساتھ جموں وکشمیر شہریت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اب کمیٹی کے قیام کے بعد انھیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، بشری نے بتایا کہ جب سے ہم 2012 میں پاکستان سے یہاں پہنچے ہیں، ہم ہندوستانی شہریت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے، ہمیں نہ تو ہندوستانی شہریت دی گئی ہے اور نہ ہی ہمیں پاکستان واپس آنے کی اجازت دی گئی ہے،” بشری نے کہا، جس نے اب بوتیک کا ایک کامیاب کاروبار بنایا ہے۔اس کے بوتیک میں زیادہ پاکستانی نژاد خواتین کام کرتی ہیںمیں نے حکومت کی طرف سے بنائی گئی اعلی سطحی کمیٹی کے بارے میں سنا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ ایک ایسا فیصلہ کرے گا جو ہم سب اور ہمارے خاندانوں کے لیے اچھا ہو، انہوں نے کہا۔ امریکی نشریا تی ادارے کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے سابق عسکریت پسندوں کے ساتھ بیاہی گئی پاکستانی خواتین نے جو سفری دستاویزات کی عدم موجودگی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان سفر نہیں کرسکتیں، دونوں ملکوں کی حکومتوں سے ایک بار پھر اپیل کی ہے کہ ان کا مسئلہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حل کیا جائے۔مطالبات منوانے کے لیے مسلسل 10 سال سے جاری جدوجہد میں بظاہر ناکامی کے بعد ان پاکستانی خواتین میں سے کئی نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دے کر ملک بدر کیا جائے۔43 سالہ سائرہ جاوید کئی سال کی جدوجہد کے بعد کراچی واپس پہنچنے میں تو کامیاب ہوگئی ہے تاہم اسے اب واپس مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت ملنے کی امید نہیں ہے ۔یہ خواتین 2010 میں بھارتی حکومت کی طرف سے ان مقامی نوجوانوں کی وطن واپسی اور آباد کاری کے لیے اعلان کردہ ایک منفرد پالیسی کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر پہنچی تھیں جو 1990 کی دہائی میں عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گئے تھے اور پھر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر یا اس سے آگے چلے گئے تھے اور وہاں شادیاں کیں اور گھر بسا لیے۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں موجود بھارتی کشمیر سے تعلق رکھنے والے 1082 افراد نے آباد کاری پالیسی کے تحت گھر لوٹنے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔ حکومت کی طرف سے منظوری ملنے کے بعد ان میں سے پونے چار سو کے قریب افراد اور ان کے کنبے 2010 اور 2012 کے درمیان نیپال کے راستے بھارتی کشمیر پہنچے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں نامساعد حلات کے باعث ان خواتین میں سے کئی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ ایک خاتون نے کچھ عرصہ پہلے خود کشی کر لی اور ایک اور کو طلاق ہو گئی تھی۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم نے ان خواتین کو انصاف دلانے کے لیے تقریبا دو سال پہلے ریاستی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے حکومت کا نکتہ نظر جاننے کے لیے اسے نوٹس جاری کر دیا تھا۔ لیکن اگست 2019 میں بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد عدالت میں اس کیس کی مزید شنوائی نہیں ہو سکی۔