سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان ا ور ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان کو نوٹس جاری
مردم شماری سے متعلق قانونی معاملات پر عدالت کی معاونت کی جائے،عدالت کے ریمارکس
حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا، انفرادی درخواستیں سننے سے تو پینڈورا باکس کھل جائے گا،جسٹس اعجازالاحسن
آپ کے وزیراعلیٰ کہاں تھے اور کون ان کو زبردستی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں لے گیا؟، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کامران مرتضیٰ سے استفسار
وزیراعلیٰ بلوچستان تو سو رہے تھے لیکن پھر ان کو جہاز کے ذریعے اسلام آباد لے جایا گیا،کامران مرتضیٰ
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے خود مشترکہ مفادات کونسل میں بیٹھ کر مردم شماری کی حمایت کی، کسی نے اعتراض نہیں کیا،جسٹس اعجازالاحسن
عدالت نے قانونی سوالات پر معاونت کیلئے وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ کو ایک ہفتے کا وقت دے دیا ، کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان میں بلوچستان میں مردم شماری کیخلاف دائر اپیل پر سماعت ۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان ا ور ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان کو نوٹس جاری کر دیا ۔ سپریم کورٹ نے سوال کیا ہے کہ مردم شماری کا معاملہ کس آئینی شق یا قانون کے تحت مشترکہ مفادات کونسل میں جاتا ہے؟مردم شماری سے متعلق قانونی معاملات پر عدالت کی معاونت کی جائے جبکہ عدالت نے قانونی سوالات پر معاونت کیلئے وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ کو ایک ہفتے کا وقت دے دیا جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا، انفرادی درخواستیں سننے سے تو پینڈورا باکس کھل جائے گا، مشترکہ مفادات کونسل خصوصی آئینی باڈی ہے جس میں پالیسی معاملات طے ہوتے ہیں، پالیسی معاملات میں مداخلت کوئی فرد کر سکتا ہے نہ ہی عدالت۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کامران مرتضیٰ سے استفسار کیا کہ آپ کے وزیراعلیٰ کہاں تھے اور کون ان کو زبردستی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں لے گیا؟عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔ جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر پرمشتمل تین رکنی بینچ نے حسن کامران کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن اوردیگر کے توسط سے وفاق پاکستان کو فریق بنایا گیا ۔ درخواست گزار کی جانب سے سینیٹر کامران مرتضیٰ بطور وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے خود مشترکہ مفادات کونسل میں بیٹھ کر مردم شماری کی حمایت کی، مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کو 5 اگست کو ہونے والی مشترکہ مفادات کونسل میں زبردستی لے جایا گیا تھا،وزیراعلی بلوچستان مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں جانے سے تین چار گھنٹے تک احتراز برتتے رہے،مشترکہ مفادات کونسل کی تو تشکیل بھی مکمل نہیں تھی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کامران مرتضیٰ سے استفسار کیا کہ آپ کے وزیراعلیٰ کہاں تھے اور کون ان کو زبردستی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں لے گیا؟اس پر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان تو سو رہے تھے لیکن پھر ان کو جہاز کے ذریعے اسلام آباد لے جایا گیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ بلوچستان کی آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق کتنی تھی؟اس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے 2017 میں مردم شماری نہیں ہوئی، موجودہ مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی سوا کروڑ ہے، ہمارے حساب سے بلوچستان کی اصل آبادی اس وقت 2 کروڑ سے زیادہ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کامران مرتضیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے اس حساب کی بنیاد کیا ہے؟اس پر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار پر انحصار کر رہا ہوں ادارہ شماریات نے مشترکہ مفادات کونسل میں اچانک بلوچستان کی آبادی کا ایک عدد رکھ دیا جو اصل نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھاکہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دیکھ سکتا ہے عدالت نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا، انفرادی درخواستیں سننے سے تو پینڈورا باکس کھل جائے گا، مشترکہ مفادات کونسل خصوصی آئینی باڈی ہے جس میں پالیسی معاملات طے ہوتے ہیں، پالیسی معاملات میں مداخلت کوئی فرد کر سکتا ہے نہ ہی عدالت۔کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ میں صوبے کے شہری کی حیثیت سے غلط مردم شماری کو چیلنج کرنے کا حقدار ہوں،آبادی کے مطابق بلوچستان کی 10 نشستیں قومی اسمبلی میں بڑھنی چاہئیں،مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس اسمبلیوں کے تحلیل کے اعلان کے بعد ہوا،بطور سینیٹر مردم شماری کا معاملہ ایوان بالا میں بھی اٹھایا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے سینیٹر کامران مرتضی سے سوال کیا کہ کون سا قانون یہ کہتا ہے کہ مردم شماری کی حتمی منظوری مشترکہ مفادات کونسل دے گی؟اس پر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی قانون یا آئینی شق نہیں کہ مشترکہ مفادات کونسل نے ہی مردم شماری کی حتمی منظوری دینی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کوئی تو قانون ہوگا جس پر انحصار کر کے وفاقی حکومت نے مردم شماری کا نوٹیفکیشن کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کامران مرتضیٰ کو ہدایت کی کہ کچھ کچھ آئینی سوالات ہیں بہتر ہے ان پر تیاری کر لیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔