بلوچ طلبا بازیابی کیس،نگران وزیراعظم اسلام آبادہائیکورٹ میں پیش نہ ہو سکے

 وزیراعظم بیرون ملک ہیں ،اس لئے پیش نہیں ہوئے، مزید 22 بلوچ طلبا بازیاب ہوگئے ہیں،اٹارنی جنرل

سارا الزام ریاستی ایجنسی پر آرہا ہے، یا تو بتائیں کہ دوسرے ملک کی ایجنسی نے بندے اٹھائے ،جسٹس محسن اختر کیانی

بند کمروں میں نہ کہانی سنائیں گے نہ بند کمروں میں میں کسی کی سنوں گا جو کہنا ہے اوپن کورٹ میں کہیں،جسٹس محسن اختر کیانی

  آصف بلوچ اور کزن رشید بلوچ کو 2018 میں گرفتار کیا گیا ، سرفراز بگٹی کہتے ہیں یہ چھوٹا سا مسئلہ ہے میرا سب کچھ رک گیا ،بہن لاپتہ بلوچ شخص

گلی تاریخ پر لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور سیکرٹریز دفاع و داخلہ پر اندراج مقدمہ کا حکم دوں گا،جسٹس محسن اختر کیانی

اسلام آباد (ویب  نیوز)

بلوچ طلبا بازیابی کیس میں نگران وزیراعظم انوار الحق عدالتی حکم کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش نہ ہو سکے ۔ہائی کورٹ میں بلوچ طلبا بازیابی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی ، نگران وزیر انسانی حقوق خلیل جارج ، لاپتہ بلوچ افراد کی فیملیز عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔ عدالت نے کہا کہ مجموعی طور 69 طلبا لاپتہ تھے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکے، مزید 22 بلوچ طلبا بازیاب ہوگئے ہیں، 28 بلوچ طلبا تاحال لاپتہ ہیں، میں یقین دہانی کراتا ہوں تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کی کوششیں کریں گے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوقِ کا معاملہ ہے، جس کا پاکستان میں جو دل کررہا ہے وہ کررہا ہے، اس کیس میں سارے طالبعلم ہیں، یہ ہمارے اپنے شہری ہیں، سارا الزام ریاستی ایجنسی پر آرہا ہے، یا تو بتائیں کہ دوسرے ملک کی ایجنسی نے بندے اٹھائے ہیں ، ایک مخصوص ادارے پر الزامات ہیں ،تحقیقات بھی اسی سے کرائیں گے ؟ ریاستی ادارہ کوئی کام کرے تو انہیں پراسکیوٹ کون کرے گا، ان میں سے کوئی دہشت گرد ہے تو کارروائی کریں، ہم کلبھوشن کا ٹرائل کرسکتے ہیں تو انکا بھی کرسکتے ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بلوچستان کا بندہ لاپتہ ہوجاتا ہے اور یہاں انتظامیہ 365 کے تحت ایک کارروائی کرکے منہ دوسری طرف کر لیتی ہے ، جو دہشت گرد ہیں ان کے خلاف کارروائی کریں عدالت کے سامنے پیش کریں ، کسی ایجنسی کو استثنیٰ نہیں ہے جس کو مرضی ہے سالوں اٹھا کر لے جائیں ، پھر وہ تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او کے حوالے کر دیں ، کیا کسی مہذب معاشرے میں یہ کام ہوتے ہیں ، جو بھی لاپتہ شخص بازیاب ہوتا ہے وہ آکر کہتا ہے میں کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا ، بند کمروں میں نہ کہانی سنائیں گے نہ بند کمروں میں میں کسی کی سنوں گا جو کہنا ہے اوپن کورٹ میں کہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پولیس بندہ لیکر جاتی ہے بعد میں بندہ لاپتہ ہوجاتا ہے، تھانے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے وہاں بندہ ہی نہیں، جبری گمشدگی والے کیسز میں لوگ آپ کے اپنے اداروں کے پاس ہیں ، سیکرٹری دفاع ذمہ دار ہیں کہ ان کے ادارے کسی ایسے کام میں ملوث نا ہوں، جبری گمشدگی کیسز کا حل نکال کر رہا کریں یا عدالت پیش کریں ، آج تک کسی  سٹیٹ کے ادارے کو ذمہ دار ٹھہرا کر کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟۔نگران وزیر داخلہ نے عدالت میں بتایا کہ ایک بھی شخص لاپتہ ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے، ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے ، بہت سارے ایسے ہیں جو عدالتی مفرور ہیں، کچھ لوگ افغانستان چلے گئے ہیں ، بہت سارے کیسز ایسے بھی ہیں جن میں سکیو رٹی فورسز کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے۔وزارت داخلہ نے لاپتہ افراد کے معاملے پر ایڈیشنل سیکرٹری کو فوکل پرسن مقرر کردیا۔ عدالت نے درخواست گزار کو تمام لاپتہ افراد کی تفصیلات فوکل پرسن کو فراہم کرنے کا حکم دیا۔لاپتہ بلوچ شخص کی بہن عدالت کے سامنے بات کرتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور رو پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ آصف بلوچ اور کزن رشید بلوچ کو 2018 میں گرفتار کیا گیا ، سرفراز بگٹی کہتے ہیں یہ چھوٹا سا مسئلہ ہے میرا سب کچھ رک گیا ، ہم سارا گھر ختم ہو گیا ،چھ سال سے دھکے کھا رہے ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے متنبہ کیا کہ کیا ہم سب اغوا ہونگے تو ہمیں سمجھ آئے گی؟ اگر اگلی تاریخ پر لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور سیکریٹریز دفاع و داخلہ پر اندراج مقدمہ کا حکم دوں گا، پھر آپ سب کو اور وزیر اعظم کو گھر جانا پڑے گا، بڑے واضح الفاظ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں ، سیکرٹری دفاع و سیکرٹری داخلہ بھی ذمہ دار ہوں گے ، مجھے رزلٹ چاہیے ،یہ بچی آئندہ سماعت پر کہے کہ میرا بھائی واپس آگیا، ان سے ملیں ان کو بلا لیں یا خود پریس کلب جائیں ان کی بات سنیں۔نگران وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ دو دن میں مل لوں گا کھانے پر بلائوں گا۔