الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا
الیکشن کمیشن نے کہا تھا 20 دن میں الیکشن کرائیں، ہم نے آپ کے آرڈر کے تحت الیکشن کرائے،وکیل علی ظفر
ایسے کھلا نہیں چھوڑا گیا، کہا گیا ہے کہ پارٹی آئین کے مطابق کرائیں،ممبرالیکشن کمیشن
ہمارے آئین میں صرف یہ ہے کہ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہو،وکیل علی ظفر
الیکشن پر کوئی ناراض ہو، کوئی پارٹی کا ممبر نہ ہو وہ شکایت نہیں کر سکتا؟ممبرالیکشن کمیشن
اسلام آبا د( ویب نیوز)
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ سوموار کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کیس کی سماعت کی۔ پاکستان تھریک انصاف کے چیئر مین بیرسٹر گوہر علی خان کمیشن کے سامنے ہوئے۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اپنے حتمی دلائل کا آغاز کیا۔پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا تھا 2019کی آئینی ترمیم درست نہیں کیونکہ کونسل موجود نہیں تھی، الیکشن کمیشن نے کہا تھا 20 دن میں الیکشن کرائیں، ہم نے آپ کے آرڈر کے تحت الیکشن کرائے۔ وکیل نے کہا کہ چیئرمین کا عہدہ 5 سال اور پینل کا 3 سال کا الیکشن ہوتا ہے، جہاں بلامقابلہ الیکشن ہوتا ہے وہاں ووٹنگ کی ضرورت نہیں، عام انتخابات بھی بلامقابلہ ہوتے ہیں، بلامقابلہ الیکشن غیر قانونی نہیں، اس کے لئے ووٹنگ کی ضرورت نہیں، انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا طریقہ کار پاکستان کے آئین، الیکشن ایکٹ اور الیکشن رولز میں درج نہیں، انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا طریقے کار پی ٹی آئی کے آئین میں بھی درج نہیں، انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا معاملہ پارٹی پر چھوڑا گیا ہے۔ ممبر الیکشن نے کہا کہ ایسے کھلا نہیں چھوڑا گیا، کہا گیا ہے کہ پارٹی آئین کے مطابق کرائیں۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ انٹر پارٹی الیکشن خود کرائیں، ہمارے آئین میں صرف یہ ہے کہ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہو، ہر جماعت کے پاس آپشن ہے یا ایڈہاک کریں یا رولز بنا لیں، انٹرا پارٹی الیکشن میں ای سی پی ریگولیٹر نہیں ہے، ای سی پی الیکشن ٹریبونل نہیں جس کے پاس الیکشن تنازع نہیں لا سکتے، کسی بھی جماعت کے آئین میں انٹرا پارٹی الیکشن کا طریقے کار نہیں ہے، الیکشن ایکٹ انٹرا پارٹی الیکشن اور ممبر شپ کی بات کرتا ہے، ہر کوئی پارٹی ممبر نہیں، ووٹر، سپورٹر اور ممبر میں فرق ہے، ممبر وہ ہے جو پارٹی میں شمولیت اختیار کرے اسے ممبرشپ کارڈ دیا جاتا ہے، ممبر کا نام ریکارڈ میں شامل کیا جاتا ہے، کوئی کہے میں ممبر ہوں اور میری درخواست سنیں تو آپ کہتے ہیں آپ کا ممبر شپ کارڈ کہاں ہے، الیکٹرول کالج ممبر ہے۔ ممبر کمیشن نے سوال کیا کہ الیکشن پر کوئی ناراض ہو، کوئی پارٹی کا ممبر نہ ہو وہ شکایت نہیں کر سکتا؟وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہے جو پارٹی کا قانونی ممبرنہ ہو وہ اعتراض نہیں کر سکتا۔ سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ ممبر پارٹی کی فیس،عطیات دیتا ہے، فیس نہیں دے گا تو ممبر نہیں ہو گا، جماعت کسی ممبر کو نکال سکتی ہے، نکالے گئے ممبر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں، اسے اعتراض ہو تو کورٹ جا سکتا ہے، درخواست گزاروں نے ایک معاملہ نہیں اٹھایا تھا لیکن بینچ نے اٹھایا، بینچ نے آبزرویشن دی پارٹی چیف الیکشن کمشنر پارٹی آئین سے تعینات نہیں ہوا، پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے 6 ہفتے ہوتے ہیں، آپ نے کہا کونسل موجود نہیں وہ ترمیم نہیں کر سکتی، آپ نے حکم دیا 20 دن میں الیکشن کرانا ہے اس لیے طریقے کار فالو نہیں ہو سکتا، ایسے میں کیا پارٹی الیکشن کمیشن کے حکم پر عمل نہ کرے اور کہا ہم نہیں کرا سکتے، ہمارے رول میں ہے کہ سیٹ خالی ہو اور وقت کم ہو تو سیکرٹری جنرل چیف الیکشن کمشنر نوٹیفائی کرتا ہے۔ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ یہ نظریہ ضرورت کے تحت ہوا، اعلان سے کوئی چیئرمین بن سکتا ہے ؟ ہم نے جو آرڈر دیا تو اس میں چیئرمین اور سیکریٹری جنرل نہیں رہے، آپ کے عہدیدار ختم ہو گئے، اس عبوری دور میں کون چیئرمین تھے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ قانون کے تحت پرانے چیئرمین ہی رہیں گے، ابھی صدرِ مملکت کی مدت ختم ہوئی لیکن آئین کے تحت وہ ابھی صدر ہیں، الیکشن ایکٹ کے تحت جہاں سیاسی جماعت الیکشن کرانے میں ناکام ہو تو الیکشن کمیشن شوکاز دے گا، پارٹی کو جرمانہ ہو گا، سیاسی جماعت اپنے سربراہ کی طرف سے پارٹی الیکشن کا سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کراتی ہے، اگر کوئی پارٹی سربراہ سرٹیفکیٹ نہیں دیتا تو اسے آپ شوکاز دیں گے، پارٹی الیکشن 2 دسمبر کو آئین کے تحت ہوا، الیکشن کی تاریخ کا 29 نومبر کو اعلان کیا گیا، تاثر دیا جا رہا تھا ہم نے خفیہ الیکشن کرایا۔ ممبر کمیشن نے کہا کہ الیکشن کہاں ہو رہے ہیں یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کی تفصیلات میڈیا میں چھپی، میں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم ہفتے کو انٹرا پارٹی الیکشن کرا رہے ہیں، ضرورت نہیں تھی لیکن ہم نے پھر بھی الیکشن شیڈول سب آفسز کے باہر لگا دیا۔ممبر کمیشن نے کہا کہ سارے ملک کے الیکشن پشاور میں ہوئے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہر پارٹی کا الیکشن ایک ہی جگہ ہوتا ہے، پی ٹی آئی الیکشن شیڈول میڈیا میں آیا، نومبر 30 کو الیکشن کمیشن کو بھی ارسال کر دیا کہ ہمیں پولنگ کے دن سکیورٹی فراہم کی جائے۔ ممبر کمیشن نے کہا کہ آپ نے دلائل میں اب تک کہا ہے کہ جو ممبر نہیں تو وہ پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے، آپ نے بتایا کہ آپ کا پارٹی الیکشن مقابلہ کا نہیں، بلا مقابلہ تھا، آپ نے کہا کہ آئین میں نہیں لکھا کہ الیکشن کیسے کرائیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہونی تھی، چیئرمین اور پینل کے کاغذات نامزدگی دائر ہونے کی خبریں بھی شائع ہوئیں، یہ بھی شائع ہوا کہ پی ٹی آئی پارٹی الیکشن پشاور میں ہوں گے، کاغذات کی جانچ پڑتال پر پتہ چل گیا کہ الیکشن بلامقابلہ ہے، پھر بھی ہم الیکشن کے دن پشاور میں وینیو پر گئے، الیکشن جہاں ہونا تھا وہاں پانچ سو لوگ تھے جنہوں نے قرار داد منظور کی کہ الیکشن بلامقابلہ ہوئے، ہمارے ممبر الیکشن کمیشن میں نہیں آئے کہ الیکشن درست نہیں ہوا، ہمارے 8 لاکھ سے زائد ووٹر ہیں جن میں سے 6 لاکھ مقامی اور باقی سمندر پار ہیں، ہمارے ووٹرز میں سے کوئی الیکشن کمیشن نہیں آیا، ہماری ممبرز کی تفصیلات انٹر نیٹ پر ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ تو جلسے بھی نیٹ پر رکھتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کے ریمارکس پر الیکشن کمیشن میں قہقہے لگ گئے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کا بھی آپ کچھ کریں، الیکشن شیڈول بتا دیا، کاغذات نامزدگی آپ کو دے دیں گے، ہم نے آپ کو الیکشن کی ساری تفصیلات دیں، اس عمل کے دوران کسی نے کاغذات نامزدگی نہیں لئے ، کسی نے پارٹی چیف الیکشن کمشنر سے رابطہ نہیں کیا، ہم نہیں کہہ سکتے کہ آکر الیکشن لڑو، یہ الیکشن لڑنا رضاکارانہ ہے۔الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی کیس کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا۔