بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور اسلام آبادہائی کورٹ کا سائفر کیس کا ٹرائل 11جنوری تک روکنے کا حکم
عدالت نے سائفر کیس کے ان کیمرہ ہونے والے ٹرائل پر سوالات اٹھا دیئے
بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے ٹرائل سے متعلق اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لینا ہے،جسٹس گل حسن اورنگزیب
پراسکیوشن کے 25 گواہان کا بیان ریکارڈ کیا جاچکا ہے،21 دسمبر کے بعد 12 گواہان کے بیانات میڈیا کی موجودگی میں ریکارڈ کئے گئے ،اٹارنی جنرل
اب صورتحال تبدیل ہوئی ہے کہ جیل ٹرائل ان کیمرہ ٹرائل ڈیکلیئر کر دیا گیا ،جسٹس گل حسن اورنگزیب
سائفر ان کیمرہ ٹرائل کے خلاف درخواست قابل سماعت نہیں،پراسیکیوٹر رضوان عباسی
سائفر ٹرائل کے لئے 14دسمبر کو حکم ہوا اور 15دسمبر کو ٹرائل شروع ہوا،اٹارنی جنرل
ہماری استدعا ہے کہ عدالت پہلے ٹرائل کورٹ کے ان کیمرہ پروسیڈنگ کے آرڈر کو دیکھے،وکیل سلمان اکرم راجہ
عدالت نے کیس کی سماعت 11جنوری تک کے لئے ملتوی کردی
اسلام آباد(ویب نیوز)
اسلام آبادہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی سائفر ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواست منظور کرتے ہوئے ٹرائل11جنوری تک روکنے کا حکم دے دیا ، عدالت نے سائفر کیس کے ان کیمرہ ہونے والے ٹرائل پر سوالات اٹھا دیئے۔سائفر کیس کی ان کیمرہ کارروائی کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، جس میں بیرسٹر سلمان اکرم راجہ ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ مجھے کچھ تشویش ہے جس طرح کارروائی آگے بڑھ رہی ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے ٹرائل سے متعلق اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لینا ہے۔ ایک دو لوگوں یا خاندان کے افراد کی موجودگی سے بھی یہ کلوزڈ ڈور ٹرائل ہی رہے گا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پراسکیوشن کے 25 گواہان کا بیان ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔ 21 دسمبر کے بعد 12 گواہان کے بیانات میڈیا کی موجودگی میں ریکارڈ کئے گئے ۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ سماعت کے مطابق ٹرائل جیل میں ہو گا تو اوپن ہو گا ۔ اب صورتحال تبدیل ہوئی ہے کہ جیل ٹرائل ان کیمرہ ٹرائل ڈیکلیئر کر دیا گیا ۔ ان کیمرہ کا سیکشن 14 کا آرڈر فیلڈ میں ہے اس کی موجودگی میں کیا ہوا ۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے اس ججمنٹ میں اوپن ٹرائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کیوں نہیں سمجھتے ۔ 1923 میں انسانی حقوق بنیادی حقوق دنیا کو معلوم نہیں تھے ۔ یہ میرے سامنے فرسٹ ایمپریشن کا کیس ہے ۔ سٹیٹ کی سیفٹی کمپرومائز نہیں ہونی چاہیے ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھیں وہ کہہ رہے ہیں میٹریل ناکافی ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سٹیٹ کا موقف ہے کہ 3 ایسے گواہ تھے جن کا بیان نشر نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ ان گواہان کے بیانات 15 دسمبر کو ریکارڈ کئے گئے ، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ 12 دیگر گواہان کے بیانات بھی تو کلوزڈ ڈور ٹرائل میں ہوئے ہیں ناں۔ آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں ، ہم نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اوپن ٹرائل کیا ہوگا ۔ ان کیمرہ کرنے کی جج کی وجوہات دیکھ لیں اس میں 3 لائنیں لکھی ہوئی ہیں ۔عدالت نے کہا کہ اوپن ٹرائل کیا ہے یہ واضح کر چکے ہیں۔ تم آ جائو اور تم آ جائو، یہ اوپن ٹرائل نہیں ہوتا۔ اوپن ٹرائل میں جو چاہے آ سکتا ہے۔ میڈیا کو اجازت ہے کہ جو چاہے آ سکتا ہے۔ ایسے نہیں ہوتا ، اس بارے باقاعدہ آرڈر ہونا چاہیے۔ کیا جرح میڈیا کی موجودگی میں کی گئی؟۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جن 3 افراد کی جرح ہوئی وہ سائفر کی کوڈ، ڈی کوڈ سے متعلق تھے۔ سائفر سے متعلق سیکرٹری خارجہ کا بیان بھی ان کیمرہ ہو گا۔ عدالت نے کہا کہ پراسیکیوشن کو کہنا چاہیے تھا کہ جج صاحب 3 گواہان کے لئے ان کیمرہ ٹرائل کا حکم دیں تا کہ ٹرائل پر سوالات نہ اٹھیں۔ کبھی کبھی اچھا بھلا کیس ہوتا ہے لیکن جس طریقے سے چلایا جاتا ہے خراب ہو جاتا ہے۔پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت میں کہا کہ سائفر ان کیمرہ ٹرائل کے خلاف درخواست قابل سماعت نہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سائفر ٹرائل کے لئے 14 دسمبر کو حکم ہوا اور 15 دسمبر کو ٹرائل شروع ہوا۔ اگر عدالت چاہتی ہے کہ جرح اوپن ہو تو ہو جائے گی۔ عدالت نے کہا کہیہ عدالت نہیں کہہ رہی یہ ضرورت ہے کہ ٹرائل اوپن ہو اور یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ ان کیمرہ جرح صرف ان 4 گواہان کی ہو گی جو دفتر خارجہ کے سائفر سکیورٹی سے جڑے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ چاروں گواہان دفتر خارجہ کے ملازمین ہیں؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چاروں گواہان دفتر خارجہ کے ملازمین ہیں۔ چاروں گواہان سائفر ٹرانسکرپٹ کرنے اور سائفر سکیورٹی سسٹم سے جڑے ہیں۔ ان ملازمین کا کام پوری دنیا سے سائفر ڈی کوڈ کرنا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سائفر سسٹم کیسے کام کرتا ہے یہ تفصیلات پبلک کے سامنے نہیں لائی جا سکتیں۔ 13 میں سے جو باقی 9 گواہان ہیں ان کی جرح دوبارہ کر لیں گے۔ اگر عدالت 13 میں سے 9 گواہان کے بیانات کالعدم قرار دیتی ہے تو دوبارہ ہوں گے۔عدالت نے وکیل سے پوچھا کہ آپ اٹارنی جنرل کی اس پیشکش پر کیا کہیں گے کہ گواہان کے بیانات دوبارہ ریکارڈ کرلئے جائیں؟جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عدالت پہلے ٹرائل کورٹ کے ان کیمرہ پروسیڈنگ کے آرڈر کو دیکھے ۔ میرے پاس پہلے 3 گواہان کے بیانات کے عدالتی آرڈر کی کاپی ہے ۔ وکیل نے کہا کہ سرٹیفائیڈ کاپی تو پبلک دستاویز ہوتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری استدعا ہوگی کہ اسے پبلک نہ کیا جائے ۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میں یہ دستاویزات دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ یہ مجھے فوری طور پر فراہم کریں۔عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں اہم آئینی ایشوز سامنے آئے ہیں عدالت ان کو دیکھے گی ۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں اپنے فیصلے میں بھی مواد کو ناکافی قرار دیا تھا۔ میرا مائنڈ آج آپ نے بہت کلئیر کردیا ۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 11جنوری تک کے لئے ملتوی کردی۔
#/S