اسلام آباد ہائیکورٹ: چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد

اسی مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر فیصلہ آج (جمعہ کو) سنایا جائیگا

اسلا م آباد(ویب  نیوز)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے اور ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کر دی۔اسی مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر فیصلہ آج (جمعہ کو) سنایا جائیگا،اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں فرد جرم کی کارروائی کے خلاف اور ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت کی جہاں عمران خان کے وکیل سلمان صفدر پیش ہوئے اور عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر عائد اعتراضات دور کیے۔عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جو بعد ازاں سنایا اور چیئرمین پی ٹی آئی کی ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی ٹی آئی کو شفاف ٹرائل کا حق دینے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے موقف اپنایا کہ ضمانت کی درخواست پر دلائل دینے کے لیے مجھے 10 روز لگے، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے مجھے بھی اسی وجہ سے 10 دن لگے، میں نے آپ کو کہا تھا اس قسم کا معاملہ پہلی دفعہ سامنے آیا ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ دونوں طرف سے اچھے طریقے سے دلائل دیے گئے تھے، اس لیے مجھے بھی فیصلے میں وقت لگ رہا ہے۔وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چالان کی کاپیاں تقسیم ہونے کے 6 دن بعد ہی میرے موکل پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔انہوں نے موقف اپنایا کہ سائفر نہ تو چالان، نہ ہی کیس فائل کا حصہ ہے، پورا کیس سائفر کے گرد گھوم رہا ہے لیکن وہ اس کا حصہ ہی نہیں، دوسری طرف کل یہ تین گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔سلمان صفدر نے عدالت سے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ ریلیف دیا جائے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ تین چیزوں کو نظر انداز کر دیا گیا، سیکرٹ گرفتاری ہوئی، سیکرٹ ریمانڈ ہوا، چھٹے دن چارج فریم ہو گیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعد ازاں درخواست مسترد کردی اور ہدایت کی کہ درخواست گزار کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔خیال رہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے 23 اکتوبر کو سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کی تھی۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی تھی۔سماعت کے دوران سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ پر جرم عائد کی گئی جبکہ دونوں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔عدالت نے ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے 27 اکتوبر کو گواہان کو طلب کر لیا ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے وکیل سلمان صفدر کے توسط سے خصوصی عدالت کا فیصلہ 25 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ فرد جرم غیر قانونی قرار دی جائے۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم اسی مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر فیصلہ کل سنایا جائیگا، عدالت نے درخواست ضمانت پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔اسلام  آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق فیصلہ  سنائیں گے۔واضح رہے  کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کے اخراج اور  عمران خان  کی ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ 16 اکتوبر کو محفوظ کیا تھا۔۔