عام انتخابات کیلئے اسکروٹنی کا مرحلہ مکمل، کتنے امیدواروں کے کاغذات مسترد اور منظور ہوئے؟
عمران خان، شاہ محمود، اختر مینگل، شیخ رشید سمیت متعدد رہنماوں کے کاغذات نامزدگی مسترد، نواز شریف،بلاول الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار
امیدوار ریٹرننگ افسران کے فیصلوں کیخلاف 3 جنوری تک اپیلیں دائر کرسکتے ہیں
اسلام آباد( ویب نیوز)
ملک بھر میں عام انتخابات 2024 کے لیے امیدواروں کی اسکروٹنی کا مرحلہ مکمل ہوگیا، پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان،شاہ محمود، اختر مینگل، شیخ رشید سمیت متعدد رہنماوں کے کاغذات نامزدگی مسترد جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار دے دیے گئے۔عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے کاغذات کی اسکروٹنی کا عمل مکمل ہوگیا، امیدوار ریٹرننگ افسران(آر او) کے فیصلوں کے خلاف 3 جنوری تک اپیلیں دائر کرسکتے ہیں۔ایپلٹ ٹربیونل 10 جنوری تک امیدواروں کی اپیلوں پر فیصلے کریں گے، 13 جنوری کو امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کیے جائیں گے۔لاہور سے قومی اسمبلی کی 14 نشستوں پر 470 اور صوبائی اسمبلی کی 30 نشستوں پر 1407 امیدواروں کی اسکروٹنی مکمل ہوگئیں۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 123 سے شہباز شریف، حمزہ شہباز، این اے 117 سے عطا تارڑ، سردار ایاز صادق، حلقہ این اے 127 سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جبکہ این اے 130 سے قائد (ن) لیگ کے قائد نواز شریف کے کاغذات بغیر کسی اعتراض کے منظور کر لیے گئے۔ریٹرنگ افسران نے این اے 130 سے ڈاکٹر یاسمین راشد، این اے 122 سے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور خرم لطیف کھوسہ جبکہ این اے 129 سے حماد اظہر، این اے 125 سے جمیل اصغر بھٹی کے کاغذات مسترد کر دیے۔این اے 127 سے لطیف کھوسہ، این اے 128 سے سلمان اکرم راجہ، این اے 121 سے اظہر صدیق جبکہ این اے 117 سے علی اعجاز ںٹر اور ابرار الحق کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے گئے۔استحکام پاکستان پارٹی(آئی پی پی) کے عون چوہدری کے این اے 124، علیم خان کے این اے 117 سے کاغذات نامزدگی بھی منظور ہوگئے، اسی طرح صوبائی اسمبلی کی مختلف نشستوں پر بھی متعد امیدواروں کے کاغذات منظور کر لیے گئے۔عام انتخابات میں ریٹرنگ افسران کے فیصلوں کے خلاف 3 جنوری تک اپیلیں دائر سکیں گی جبکہ ایپلٹ ٹربیونل 10 جنوری تک اپیلیوں پر فیصلہ سنائیں گے۔ملک بھر کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی آئندہ انتخابات کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہوگئیں، کئی اہم رہنماوں کے کاغذات نامزدگی منظور اور مسترد ہوئے۔سابق اسپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر، سابق وفاقی وزرا علی محمد خان، اعظم سواتی، مراد سعید، شہریار آفریدی، علی آمین گنڈا پور سمیت تحریک انصاف کے کئی راہنماوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے۔اس کے علاوہ سابق وزیراعظم نواز شریف، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، آفتاب احمد خان شیرپاو، ایمل ولی خان، سردار مہتاب احمد خان، پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما عمرایوب خان ان کے بھائی یوسف ایوب خان اور شوکت یوسفزئی کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے۔آر او دفتر سے جاری ہونے والے تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماوں کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے۔جاری کردی تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اسد قیصر کے این اے 19 پر کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے، اس طرح مانسہرہ کے حلقہ این اے 15 پر پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی، این اے 20 پر شہرام ترکئی، پشاور کے حلقہ این اے 30 پر پی ٹی آئی کی خاتون امیدوار شاندانہ گلزار، این اے 35 پر شہرام ترکئی، این اے 4 پر مراد سعید، شہریار آفریدی، صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 59 پر پی ٹی آئی رہنما عاطف خان، شہرام ترکئی کے 2 صوبائی حلقوں پی کے 52 ، 53 پر بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے کاغذات مسترد ہونے والوں میں پی ٹی آئی کے فضل حکیم اور گل ظفرخان بھی شامل ہیں۔انتخابات کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوگیا، کوئٹہ سے سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماوں کے کاغذات مسترد کردیے گئے۔ تحریک انصاف کے ر ہنماء قاسم سوری، بی این پی کے سردار اختر مینگل اور سابق گورنر سید ظہور آغا سمیت متعدد امیدواروں پر اعتراض لگ گئے۔بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 اور صوبائی کی 51 جنرل نشتوں پر انتخاب لڑنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا آج اخری دن تھا۔کوئٹہ میں قومی اسمبلی کی 3، صوبائی اسمبلی کی 9 اور مخصوص نشتوں پر 794 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی فارم جمع کرائے تھے جن کی جانچ پڑتال کا عمل 25 دسمبر سے جاری تھا۔قومی اسمبلی کے حلقے این اے 263 کوئٹہ ٹو سے 66 میں سے 41 امیدواروں کے نامزدگی فارم مسترد جبکہ 25 منظور کیے گئے۔کوئٹہ سٹی کے اس حلقے سے سابق ڈپٹی اسپکر قاسم سوری سیمت 41 امیدوار مسترد کیے گئے، قومی اسمبلی کے حلقے این اے 264 کوئٹہ تھری سے 47 امیدواروں میں سے ںلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر جان مینگل سیمت 13 امیدواروں کے کاغذات نمازدگی مسترد جبکہ 34 کے منظور کیے گئے۔حلقہ این اے 262 کوئٹہ ون سے خوشحال کاکڑ نواب ایاز جوگیزئی سابق گورنر سید ظہور آغا سیمت متعدد کے نامزدگی مسترد ہوئے۔بلوچستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے 2 ہزار 419 کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل کی گئی، قومی اسمبلی کی 16 نشستوں پر 631 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جانچ پڑتال کی گئی جبکہ صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں کے لیے 1788 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جانچ پڑتال مکمل کی گئی۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 262 کوئٹہ ون سے 54 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جانچ پڑتال مکمل کی گئی، قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 263 کوئٹہ ٹو سے 66 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جانچ پڑتال کی گئی، اسی طرح قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 264 کوئٹہ تھری سے 47 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جانچ پڑتال کی گئی۔سابق صوبائی وزیر خالد لانگو کے کاغذات نامزدگی این اے 264 سے مسترد ہوئے، خالد لانگو کے کاغذات نامزدگی نیب کیس میں سزا یافتہ ہونے پر مسترد کیے گئے۔قومی اسمبلی کے حلقے این اے 265 سے محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے گئے۔سابق وفاقی وزیر، سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور جی ڈی اے رہنما ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، سابق صوبائی وزیر سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ان کے بیٹے حسام مرزا کے حلقہ این اے 223 پر نامینیشن فارم رد کردیے گئے۔پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے حلقہ این اے 223 بدین ٹو سے نامزد امیدوار حاجی رسول بخش چانڈیو کی جانب سے داخل کرائے گئے اعتراضات جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ مرزا فیملی نے مرزا شوگر ملز کے نام پر مختلف بینکوں سے قرضہ اٹھایا جو انہوں نے واپس نہیں کیا، اس لیے ان کے کاغذات نامزگی مسترد کیے جائے۔جس پر آج آر او محمد نواز کلوڑ نے اعتراضات پر فیصلہ سناتے ہوئے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ان کے بیٹے حسام مرزا کی جانب سے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے۔اس کے علاوہ حلقہ پی ایس 70 ٹنڈوباگو اور پی ایس 72 گولارچی سے بھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ، ڈاکٹر فہمیدا مرزا اور ان کے بیٹے حسنین مرزا کے کاغذات نامزدگی فارم مسترد کردیے گئے۔پی ایس 71 بدین پر حسنین مرزا اور حسام مرزا اور این اے 222 ماتلی سے حسنین مرزا کے کاغذات نامزدگی بحال کیے گئے ہیں۔یاد رہے کہ ضلع بدین میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سب سے مضبوط حریف مرزا فیملی ہی ہے جو بلدیاتی الیکشن کے ساتھ ساتھ بڑے انتخابات میں ان سے مقابلہ کرتی ہے۔اسکروٹنی کا عمل مکمل ہونے کے بعد آر اوز کی جانب سے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی گئی ہے۔ضلع دادو کی 2 قومی اور 4 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن ہوگا، حلقہ این اے 227 دادو ون پر اسکروٹنی کے بعد 20 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے جبکہ حلقہ این اے 282 دادو 2 پر اسکروٹنی کے بعد 18 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئیاسی طرح پی ایس 80 دادو ون کے این شاہ پر 20 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے، پی ایس 81 دادو 2 میہڑ پر 26 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، پی ایس 82 دادو 3 پر 25 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے جبکہ پی ایس 83 دادو 4 جوہی پر 26 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے۔جیکب آباد میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 190 پر 20 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے، سابقہ وفاقی وزیر محمد سومرو اور صوبائی صوبائی وزیر اعجاز حسین جکھرانی کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے۔این اے 190 پر خاتون امیدوار ارم نوشین ریاض کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔صوبائی حلقہ پی ایس ون پر 34 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے جبکہ صوبائی حلقہ پی ایس ون پر ایک امیدوار جان محمد کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے۔صوبائی حلقہ پی ایس 2پر 14 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور جبکہ 2 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے جبکہ پی ایس 2 پر صدام کھوسو اور خاتون امیدوار کونج کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے۔صوبائی حلقہ پی ایس 3 پر 21 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے جبکہ صوبائی حلقہ پی ایس 3 پر زبیر احمد کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے رہنما اور سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ اور دو بیٹوں کے کاغذات نامزدگی کردیے گئے۔ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ان کی اہلیہ اور دو بیٹوں بیرسٹر حسنین مرزا اور محمد حسام مرزا نے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بدین سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے مختلف حلقوں سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔مرزا خاندان کے حریف تصور کیے جانے والے پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے ان کاغذات نامزدگی پر اعتراض دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کاغذات جمع کرانے والے افراد بینک ڈیفالٹر ہیں۔مرزا خاندان نے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی ۔ گروپ) کے سربراہ سردار اختر مینگل کے قومی اسمبلی کے 2 اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے۔خضدار سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 256 سے اختر مینگل کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔ریٹرننگ افسر نے بتایا کہ بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 20 تھری خضدار سے بھی اختر مینگل کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے۔ریٹرننگ افسر کے مطابق اخترمینگل کے کاغذات اقامے کی وجہ سے مسترد کیے گئے۔ادھر کوئٹہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 264 سے بھی سردار اختر مینگل کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے۔الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ اختر مینگل کے کاغذات پر دبئی کا اقامہ ہولڈر ہونے کا اعتراض لگایا گیا، اختر مینگل کے پاس متحدہ عرب امارات کا اقامہ ہونے پر کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے۔خیال رہے کہ 2018 میں این اے 269 خضدار جو کہ اب (این اے 256) سے اختر مینگل جیت کر قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے۔اس کے علاوہ این اے 264 پر آزاد امیدوار و سابق صوبائی وزیر خالد لانگو کیکاغذات نامزدگی بھی مسترد ہوگئے اور ریٹرننگ افسر نے بتایا کہ نیب کیس کی وجہ سے خالد لانگو کے کاغذات مسترد کیے گئے۔ریٹرننگ افسر نے مزید بتایا کہ اسی حلقے سے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر پرنس آغا عمر کے بھی کاغذات مسترد کردیے گئے۔دوسری جانب بلوچستان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 260 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 32 چاغی سے اسپیکر قومی اسمبلی صادق سنجرانی کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے جو بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ادھر حلقہ این اے 264 پر جمع ہونے والے 47 کاغذات نامزدگی فارم کی جانچ پڑتال مکمل ہوگئی جس میں سے 34 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور جبکہ 13 کے مسترد کر دیے گئے۔۔