ایف بی آر اور ائی ایم ایف کے درمیان پرچون فروشوں پر ریٹیل ٹیکس لاگو کرنے کیلئے ٹا ٹئم فریم پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا
11جنوری کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ اجلاس میں ریٹل اور ہول سیل ٹیکس کے نفاز کی نئی تاریخ کا تعین ہو سکتا ہے
اسلام آباد(ویب نیوز)
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے درمیان وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبائی دارالحکومت میں پہلے مرحلے میں پرچون فروشوں پر ریٹیل ٹیکس لاگو کرنے کیلئے ٹا ٹئم فریم پر تا حال کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے جس کے سبب یہ ریٹل ٹیکس اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں 15جنوری2024 سے لاگو کرنے کی ڈیڈ لائن مس ہو جائے گی ملکی معیشت میں 27.1فیصد حصہ رکھنے وال ریٹل اور ہول سیل سیکٹر جیسے بڑے سطح پر ہونے کاروبار کے باوجود ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ اور حکومت پاکستان کے درمیان اس سیکٹر میں موجود ٹیکس وصولیوں کی گنجائیش سے بھرپور استفادہ کرنے پر پہلے ہی اتفاق رائے ہو چکا ہے تاہم اس ٹیکس کے نفاز کے وقت کا تعین ایک اہم مسلہ کے طور پر برقرار ہے نگران حکومت ایسا ٹیکس لگانے کے متحمل نہیں دکھائی دے رہی ہے جبکہ پاکستان میں 8فروری کو منتخب ہوکر آنے والی نئی وفاقی حکومت آتے ہی اس ٹیکس کو لگانے کے منفی سیاسی اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گی کیونکہ تاجر برادی اس کے خلاف ممکنہ طور پر شٹر دون ہڑتال اور احتجاج پر نکل کھڑی ہونے کے خدشات کے سبب اس ٹیکس کا نفاز کیلئے وقت کا تعین اب بھی آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے درمیان ایک مسلہ کے طور پر حل طلب ہے 11جنوری کو واشنگٹن میں ہونے والے پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس میں امکان ہے کہ ریٹل اور ہول سیل ٹیکس کے نفاز کیلئے نئی تاریخ کا تعین کر لیا جائے گا پاکستان میں ہر سال ریٹیل اور ہول سیل کاروباروں کے زریعے4ہزار ارب روپے سے زائد مالیت کی اشیا کا کاروبار ہوتا ہے اور اس اہم سیکٹر کا مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں سروسسز سیکٹر کا حصہ 12فیصد ہے جس میں ریٹل ٹریڈ اور ہول سیل ٹریڈ کا حصہ27.51فیصد ہے ابتدائی تخمینہ کے مطابق 65لاکھ افراد ریٹیل اور ہول سیل سیکٹر میں کاروبار سے منسلک ہیں تاہم حکومت ان میں سے انتہائی چھوٹے سطح پر کاروباروں کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھنے کی خواہاں ہے اور صرف انہیں ریٹیلرز اور ہول سیلرز پر ٹیکس کا اطلاق کرنے کی خواہاں ہے جن کے پاس اپنے کاروباری مراکز یا باقاعدہ دوکانیں ہیں غیر مستقل کاروباری مراکز جن میں کھوکے اور عارضی سٹرچر ریڑھی یا ٹھیلے پر کھلے آسمان تلے کاروبار کرنے والے انتہائی غریب طبقے کو اس ٹیکس نیٹ سے باہر رکھنے کی بھی تجویز ہے کیونکہ یہ وہی دیہاڑی دار کاروباری طبقہ ہے جو نہ صرف اپنا روزگار خود کما رہا ہے بلکہ مستقل کاروباری مراکز کے مقابلے میں کئی گنا سستی اشیا صارفین کو مہیا کرنے کا بھی سبب بن رہا ہے کیونکہ انہیں نہ تو دوکان کا کرایہ، نہ بجلی اور گیس کے بل اور نہ ہی دیگر ریگولیٹری فیسیں ادا کرنا پڑ رہی ہیں حکومت اور آئی ایم ایف کا ابتدائی تخمینہ ہے کہ اگر یہ ٹیکس موثر انداز میں لاگو ہو گیا تو پاکستان میں اس سے100ارب روپے کی اضافی ٹیکس وصولی ہوگی جو نہ صرف پاکستان میں ٹیکس وسولیوں کو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تحت بڑھانے میں معاون چابت ہوں گی بلکہ ان سے چاروں صوبوں میں بھی ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہونے سے صوبائی حکومتوں کو وفاقی حکومت پر انھصار بھی کم سے کم کرنے کا موقع مسیر آسکے گا حکومت نے فنانس ایکٹ2023کے زریعے پارلیمنٹ سے پہلے ہی ان چھوٹے دوکانداروں پر ٹیکس لگانے کی ترمیم منظور کروا لی ہے اور اس ٹیکس کے نفاذ کیلئے اب حکومت کو پارلیمنٹ سے کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہیسابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ3ارب ڈالر مالیت کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے تحت پہلے ہی ملک بھر میں نئے ٹیکس گزار تلاش کرنے کیلئے ملک بھر کی مارکیٹوں میں ریٹل اور ہول سیل کاروباروں میں شریک افراد اور ان کی تعداد کیلئے فیزیکل ٹیکس سروے کروانے کی شرط پر اتفاق رائے کر رکھا ہے اور اائی ایم ایف کی ٹیمیں بازاروں اور مورکیٹوں کے دوروں کے دوران اکی صحیح تعداد اور ان کے کاروباری حجم کا جائزہ لینے میں پہلے ہی مصروف عمل ہیں اور جب بھی یہ ریٹیل ٹیکس لاگو کیا جائے گا اس میں اس سروے کے نتائج ملحوظ کاطر رکھے جائیں گے