سپریم کورٹ کے ججز کیخلاف سوشل میڈیا مہم کی روک تھام کیلئے جے آئی ٹی تشکیل
جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مذموم مہم چلانے والوں کا پتہ لگائے گی، مذموم مہم چلانے والوں کو عدالت میں پیش کرکے چالان پیش کرے گی
پی ٹی اے اور ایف آئی اے چیف جسٹس کے خلاف مہم پر خاموش تماشائی نہ بنیں. پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار
پی ٹی آئی کو لانے والی طاقتوں نے ہی اسے واپس بھیجا، فیصلے میں کوئی قانونی سقم ہے تو بتائیں،ہارون الرشید
سپر یم کورٹ بارایسوسی ایشن اور پاکستان بارکونسل سمیت وکلا ججز پر تنقید برداشت نہیں کر ینگے ،ججز کی شخصیات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے،شہزاد شوکت
اسلام آباد( ویب نیوز)
وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ کے ججز کیخلاف سوشل میڈیا پر گمراہ کن مہم کی روک تھام کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ جے آئی ٹی کے کنوینر ہوں گے، اس کے علاوہ آئی بی ، آئی ایس آئی کے نمائندے اور ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس جے آئی ٹی میں شامل ہوں گے جبکہ پی ٹی اے کا نمائندہ بھی شامل ہوگا۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی میں شامل آئی بی اور آئی ایس آئی کا نمائندہ گریڈ 20 کا افسر ہوگا۔نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی ملزمان کی شناخت کرکے قانون کے کٹہرے میں لائے گی اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے سفارشات دے گی۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مذموم مہم چلانے والوں کا پتہ لگائے گی اور مذموم مہم چلانے والوں کو عدالت میں پیش کرکے چالان پیش کرے گی۔نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی 15 دن میں ابتدائی رپورٹ وزارت داخلہ کو دے گی۔۔
اسلام آباد …وکلاء کی دو بڑی تنظیمیں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ پی ٹی اے اور ایف آئی اے چیف جسٹس کے خلاف مہم پر خاموش تماشائی نہ بنیں، سپریم اور پاکستان بار سمیت وکلا ججز پر تنقید برداشت نہیں کریں گے، وکلا اور قوم سے التماس ہے کہ تنقید فیصلے پر کریں ججز کی تضحیک نہ کریں۔وکلا کی دو بڑی تنظیمیں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں سامنے آگئیں۔اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں بار عہدیداروں نے کہا کہ پی ٹی اے اور ایف آئی اے چیف جسٹس کے خلاف مہم پر خاموش تماشائی نہ بنیں۔وائس پریذیڈنٹ پاکستان بار کونسل ہارون الرشید نے کہا کہ پی ٹی آئی کو لانے والی طاقتوں نے ہی اسے واپس بھیجا، پاکستان جمہوری ملک تھا لیکن ڈکٹیٹر شپ نے بھی لوہا منوایا، پی ٹی آئی کے سربراہ جمہوری نہیں تھے تو اسے تحریک عدم اعتماد سے گھر بھیجا گیا۔ ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کوئی قانونی سقم ہے تو بتائیں، پی ٹی آئی نے اپنے ہی اراکین کو انٹر اپارٹی انتخابات میں حصہ لینے سے روکا، بندیال دور میں پی ٹی آئی کے حق میں فیصلے ہوتے تھے تو یہ نعرے لگاتے تھے، وکلا اور قوم سے التماس ہے کہ تنقید فیصلے پر کریں ججز کی تضحیک نہ کریں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے کہا کہ ہم ججز کے ساتھ کھڑے ہیں، ملک میں ججز کے خلاف مہم جوئی کی بدقسمت روایت چل پڑی ہے، فیصلے پر تنقید کرنے کے بجائے ججز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، سپریم اور پاکستان بار سمیت وکلا ججز پر تنقید برداشت نہیں کریں گے۔شہزاد شوکت کا کہنا ہے کہ ججز کی شخصیات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، جب فیصلے میں درج ہے کہ انتخابات نہیں کرائے تو کرانے چاہیے تھے۔چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار حسن رضا پاشا نے کہا کہ ایک شخص کو عدالت نے معصوم کہا تو ایک جماعت کی ٹرولنگ شروع ہو گئی، جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہو وہ قانون کی نظر میں معصوم ہی ہوتا ہے، سائفر کیس میں ابھی جرم ثابت نہیں ہوا تو کہہ دیا سپریم کورٹ معصوم ڈیکلیئر کر رہی ہے، نو گھنٹے کی سماعت میں پی ٹی آئی کے وکلا کی تیاری نہیں تھی، جب پوچھا گیا کہ انتخابات کہاں کرائے تو چمکنی کے گائوں کا بتایا، پی ٹی آئی کا حق ہے کہ نظرثانی دائر کرے، اس فیصلے کا ایک پہلو اخلاقی اور ایک قانونی ہے، اخلاقی طور پر پی ٹی آئی کو بلے کا نشان ملنا چاہیے، قانونی طور پر انٹرا پارٹی انتخابات کرائے بغیر ریلیف ملنا ممکن نہیں تھا۔ حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ جس عدالت سے ریلیف لینا ہے اس کے بارے الفاظ کے چنائو میں محتاط ہونا چاہیے، سینئر وکلا کی جانب سے بلاوجہ تنقید کو بار کونسلز برداشت نہیں کریں گی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مہم کی پرزور مذمت کرتے ہیں، سپریم کورٹ تنقید کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کا ذاتی طور پر دفاع نہیں کررہے،بطور ادارہ دفاع کر رہے ہیں، قاضی فائز عیسی کے خلاف جب ریفرنس آیا تھا تب بھی بار کونسلز ان کے ساتھ کھڑی تھیں، بار کونسلز پہلے بھی درست سمت پر تھیں، اب بھی وقت ثابت کرے گا کہ درست سمت پر ہیں، عدالت سے حقائق چھپائیں تو پھر اس کی سزا سخت ہوتی ہے، جب قانون ہے کہ 5 سال بعد انٹرا پارٹی انتخابات کرانے ہیں تو کرانا ہوں گے۔سابق صدر سپریم کورٹ بار سید قلب حسن نے کہا کہ جو بھی فیصلے ہو رہے ہیں وہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے، اب تو فیصلے چیمبرز میں نہیں ہو رہے، اپنے خلاف فیصلے ہونے پر ججز کے خلاف مہم چلانے کا سلسلہ رکنا چاہیے۔ صحافی نے صدر سپریم کورٹ بار سے سوال کیا کہ کیا بلے کے انتخابی نشان کے بغیر انتخابات شفاف ہوں گے؟۔صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت نے کہا کہ یہ ایک مشکل سوال ہے، ایک سیاسی جماعت انتخابات میں بغیر انتخابی نشان جا رہی ہے، انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا جا رہا، حق آزادی رائے اور غیرضروری تنقید، الزامات اور جھوٹ میں فرق ہے۔
#/S