ریلیف ملتا ہے تو ٹھیک ،نہیں ملتا کہتے ہیں عدالت پر اعتماد نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ کی بات کرنے کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کردی

آپ سے چیمبر میں ملتے توخبریں لگ جاتی ہیں،وکیل لطیف کھوسہ

 آپ سینئر وکیل ہیں، آپ سے اس کنڈکٹ کی توقع نہیں، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ

عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں سندھ ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرارد ے کر ٹرائل سے متعلق جاری حکم امتناع ختم کردیا

اسلام آباد( ویب  نیوز)

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سردار محمد لطیف خان کھوسہ کی جانب سے بات کرنے کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس کالطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نو وے،!ہم نے زبانی ریکوسٹ سننا ختم کردیا ہے۔ایک دن کہتے ہیں عدالت پر اعتماد نہیں، ایک دن ریلیف ملتاہے تو ٹھیک اوردوسرے دن ریلیف نہیںملتا تو عدم اعتماد کااظہار کرتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمدعلی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز منی لانڈرنگ کیس میں ایم کیوایم کے بانی کے شریک ملزم احمد علی کی کیس کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست میں ریاست پاکستان کوسیکرٹری وزارت داخلہ کے توسط سے فریق بنایا گیا تھا۔درخواست گزار کی جانب سردار لطیف خان کھوسہ بطور وکیل پیش ہوئے۔جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اتارنی جنرل چوہدری عامر رحمان اورکیس میں ایف آئی اے کے  سپیشل پراسیکیوٹر پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کی جانب سے کیس کا حکمنامہ لکھوانے کے بعد سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک درخواست کرنی ہے، ہمارا ایک کیس کچھ دنوں سے زیرالتواہے۔ اس پر چیف جسٹس  نے کہا کہ نووے!ہم نے زبانی ریکوسٹ سننا ختم کردیا ہے، ایک دن کہتے ہیں عدالت پر اعتماد نہیں، ایک دن ریلیف ملتا ہے توٹھیک اوردوسرے دن ریلیف نہیں ملتا توعدم اعتماد ۔ اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آپ سے چیمبر میں ملتے توخبریں لگ جاتی ہیں۔ چیف جسٹس کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ سینئر وکیل ہیں، آپ سے اس کنڈکٹ کی توقع نہیں، ایک دن حاصر ہوتے ہیں اوردوسرے دن عدم اعتماد جبکہ جسٹس محمد علی مظہر کا لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کے حوالے سے درخواست دے دیں جبکہ درخواست گزاراحمد علی کے کیس کے حوالے سے چیف جسٹس کا کہناتھا کہ چار سال سے کیس زیر التواہے۔چیف جسٹس نے سوال کہ کیا ملزم ضمانت پر ہے یا جیل میں ہے۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزم ضمانت پر ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ملزم جیل میں ہوتاتوپھر کوئی اوربات تھی، وہ ضمانت پر باہرہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سرکار کوپریشانی یہ ہونی چاہیے تھی کہ ٹرائل جلد مکمل ہو ، کیس میں حکم امتناع کیوںدیا گیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ملزم ضمانت پر ہے وہ تو10سال مزید ضمانت پر باہر گھومتا رہے گا۔ سردار لطیف کھوسہ کا کہناتھا کہ سرکاری وکیل کی جانب سے سار ی ہوا میںباتیں ہورہی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ جہاں کا کیس ہوتو ہے وہیں چلتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سرکار کو چاہیے کہ جلد ٹرائل ہو ، ایک مرحلہ پر خطرات ہوتے ہیں اورایک پر ختم ہوجاتے ہیں، اگر ملزم نے کسی کو گولی مارنی ہے تو وہ اسلام آباد میں مارسکتا ہے اورکراچی میں بھی مارسکتا ہے، سرکارکوتوضمانت منسوخ کرنے کی درخواست دینی چاہیے، بندہ آزاد پھررہا ہے تووہ تھریٹ ہے ، تھریٹ وہ اسلام آباد میں بھی لاسکتا ہے ، اسلام آباد میں گڈ بوائے اور کراچی میںنہیں۔ سرکاری پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم ہیڈ بھی اس کیس میں نامزد ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ درخواست گزاراتناخطرناک دہشت گرد ہے توکیوں ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست نہیںدی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ٹرائل جلد مکمل ہو،2021میں حکم امتناع ملا ہے ۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ عبوری چالان دیا ہے اور حتمی چالان تیار نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ تومنی لانڈرنگ کا کیس ہے۔ سردارلطیف کھوسہ کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل کے درمیان بولنے پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے توابھی تک آپ سے سوال نہیں کیا، آپ خود بات کر کے اپنا کیس خراب کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ٹرائل کے حوالے سے جاری حکم امتناع ختم کردیتے ہیں، ٹرائل شروع ہوجائے گا۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جانب سے بتایا گیا کہ کیس کراچی میں انسداد دہشت گردی کی منتظم جج کے پاس زیر سماعت ہے۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ کیس کی ایف آئی آر 2017میں ایف آئی اے سٹیٹ بینک سرکل کراچی میں درج ہوئی۔ وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے تحت کیس یکم اکتوبر2018کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا۔کیس کا عبوری چالان 31اکتوبر2017کو دائر ہوا۔ حکم میںکہا گیا کہ کئی سال کیس کو گزرگئے ہیں اورملزم ضمانت پر ہے، اس حقیقت کونظرانداز نہیں کرسکتے، قانون میںہے کہ ٹرائل جلد ازجلد مکمل ہو۔ انسداد دہشت ایکٹ کے مطابق ٹرائل 90روز میںمکمل ہونا چاہیے اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہونی چاہیے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ٹرائل شروع ہونے کے بعد بھی کوئی خطرہ ہو توملزم کاکیس اسلام آباد منتقل کرنے کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قراردیتے ہوئے کیس کے ٹرائل کے حوالے سے جاری حکم امتناع ختم کردیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوری طور پر ٹرائل شروع کریں، اگر کوئی خطرہ ہو تو کیس اسلام آباد منتقل کرنے کی دوبارہ درخواست دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا لطیف کھوسہ کی جانب سے بار، بار بات کرنے پر انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہنا کہ لطیف کھوسہ کہہ رہے ہیں کہ میں درخواست خارج کروا کے ہی چھوڑوں گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملزم کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم کالعدم قراردے دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹرائل توشروع کریں، جیل ٹرائل بھی کرواسکتے ہیں، آج خطرہ نہیں کل ہوسکتا ہے خطر ہ ہو، لگتا ہے حکومت چاہتی ہے ٹرائل نہ ہو، قانون پر چلیں۔