سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا

فریقین کوتین ہفتے کے اندر تحریری دلائل اورتین سوالات کاجواب جمع کروانے کی ہدایت

 قوم جاننا چاہتی ہے کہ الزامات غلط ہیں یا درست۔ جج کے آئینی عہدے کو سرکاری ملازم کے ساتھ نہیں ملایا جاسکتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد( ویب  نیوز)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر)شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے فریقین کوتین ہفتے کے اندر تحریری دلائل اورتین سوالات کاجواب جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔ حکمنامے میں عدالت نے وکلا سے مندرجہ ذیل سوالات پر تحریری جوابات طلب کرلیے، کیا انکوائری کے بغیر جج کو برطرف کیا جا سکتا ہے؟کیا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو واپس بھیجا جا سکتا ہے اورریلیف دیا جاسکتا ہے؟کیا تقریرپر مس کنڈکٹ تسلیم کرلینے کے بعد انکوائری کی ضرورت باقی تھی یا نہیں؟جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بینچ تمام وکلاء کے تحریری جوابات کا جائزہ لے گااوراگر ضرورت محسوس ہوئی توایک ماہ بعد دوبارہ سماعت بھی کی جاسکتی ہے اوراگر ضرورت محسوس نہ ہوئی توپھر فیصلہ محفوظ تصور کیا جائے۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ الزامات غلط ہیں یا درست۔ کل کو کوئی 50ججز کے خلاف شکایات دائر کردے توپھر ادارہ ہی ختم ہوجائے گا۔ جج کے آئینی عہدے کو سرکاری ملازم کے ساتھ نہیں ملایا جاسکتا۔ کیا ہم کسی ایس ایچ او اورپولیس سب انسپیکٹر کے ہاتھ میں ججز کی قسمت کا فیصلہ دے دیں۔ اس قوم نے کافی سہہ لیا ہے یہ کسی خاص شخص کوریلیف دینے معاملہ نہیں ، میرا معاملہ اداروں کی عزت کا ہے، قوم سچ جاننا چاہتی ہے ، یہ چھوٹا معاملہ نہیں یہ ادارہ جاتی معاملہ ہے، کیا وکیل سچ نہیں جاننا چاہتے۔جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ریفرنس کی بنیاد تقریر ہے اورتقریر کے کنتینٹس سے توانکار نہیں کررہے۔جبکہ جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیئے کہ شوکت صدیقی کو پورا موقع دیا گیا، سپریم جوڈیشل کونسل میں دوماہ کیس چلا ، پہلی سماعت 23جولائی 2018کو ہوئی اورپھر 1اکتوبر2018کو فیصلہ ہوا اورانہیں مس کنڈکٹ کا مرتکب قراردیا گیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پرسینئر وکیل خواجہ حارث احمد روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟اس پرخواجہ حارث نے جواب دیا کہ میںسابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض حمید اوربرگیڈیئر عرفان رامے کا وکیل ہوں۔ کمرہ عدالت میں موجود سینئر وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ میں سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ محمد انور خان کانسی کا وکیل ہوں۔چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الزامات کو تسلیم کرتے ہیں یا انکار کرتے ہیں؟اس پرخواجہ حارث کا کہنا تھا کہ انکار کرتا ہوں۔ اس پر چیف نے شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیسے کیس چلائیں گے۔ حامد خان نے کہا کہ میرے معاملے کی فیئر انکوائری ہونی چاہیے، سپریم جوڈیشل کونسل صدر پاکستان کو بنا انکوائری کوئی رپورٹ پیش نہیں کر سکتی، سپریم جوڈیشل کونسل نے کوئی انکوائری نہیں کروائی اورنہ ہی صدر کے پاس کوئی رپورٹ جمع کروائی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کے مئوکل پر الزام کیا تھا؟ حامد خان نے جواب دیا کہ میرے موکل کے اوپر تقریر کرنے کا الزام ہے، سپریم کورٹ میرے موکل کے خلاف حکم کو ختم کرے۔چیف جسٹس کا حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم کیسے کیس چلائیں۔ حامد خان کا کہناتھا کہ آئین کاآرٹیکل واضح ہے اوراس میںکوئی ابہام نہیں۔ چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس سے سوال کیا کہ کیا یہ تسلیم شدہ فیکٹ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے انکوائری نہیں کی۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انکوائری نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا اٹارنی جنرل نے تسلیم کر لیا ہے کہ کوئی فیکچوئل انکوائری نہیں ہوئی اب ہم کس طرح آگے چلیں، عدالت کیا کرے، عدالت کیا حکم ججاری کرے، وکیل کیا تجویز کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سابقہ رجسٹرار نے جواب جمع کروادیا ہے، اِس پر حامد خان نے کہا کہ سابقہ رجسڑار ارباب محمد عارف نے تو کہا ہے کہ انہوں نے معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا تھا۔چیف جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ اب مقدمہ کی کارروائی کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟ حامد خان نے کہا کہ آنے والے جوابات سے میرا کیس واضح ہو گیا، کونسل نے کوئی انکوائری نہیں کی تھی، انکوائری ہوتی، گواہان پیش ہوتے، جرح کی اجازت دی جاتی۔حامد خان نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیر آئینی قرار دے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیںکوئی میکنزم بنانا ہو گا کہ کس طرح الزامات پر فیصلہ کیا جائے کہ یہ درست ہیںیا غلط۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک سکے کو ہوا میں پھینک کر فیصلہ نہیں کر سکتے، اگر الزامات سچ ثابت نہیں ہوتے تو کیا ہوگا۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر یہ طے نہیں ہوتا کہ الزامات سچے ہیں یا جھوٹے، اس کے بغیر ہم کس طرف جا سکتے ہیں، ہم ان کیسز کے ذریعے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، الزامات پ اعلانیہ لگائے گئے، اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں انکوائری کے بعد تو کیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا؟اس پر حامد خان کا کہناتھا کہ اگرالزامات درست ثابت ہوں توعہدے سے ہٹادینا چاہیئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرالزامات سے انکار کیا گیا ہے تواس کا فیصلہ کس طرح ہوگا، حل بتادیں۔ چیف جسٹس کا حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کا کیس سمجھ گئے اب حل بتادیں۔ اس پر حامد خان کا کہناتھا کہ شوکت صدیقی کے خلاف پہلی کارروائی کو کالعدم قرار دیاجائے، اس کے بعد اس معاملے پر کمیشن بنا کر انکوائری کرائی جائے تاکہ سچ سامنے آئے۔ چیف جسٹس نے استفار کیا کہ کس قانون کے تحت کمیشن قائم کیا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں حقیقی دنیا میں رہنا چاہیئے ساری قوم کی نظریں ہمارے اوپر ہیں، دو، تین اہم ادارے اس کیس میں ملوث ہیں ، سپریم کورٹ کسی ادارے کے معاملات میںمداخلت نہیںکرتی جب تک کوئی غیر قانونی چیز نہ ہوئی ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم موجودہ حالات میں کیا حکم جاری کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو واپس بھیجا جا سکتا ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ جی، معاملہ واپس کونسل کو بھیجا جا سکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سمجھ لیں کہ الزامات درست ہے لیکن ایک جج کے لیے مناسب تھا کہ ایسے بیان دیتے؟ آپ تقریر سے تو انکاری نہیں؟چیف جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا کسی جج کو ایسی تقریر کرنے کی اجازت ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ تقریر سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر الزامات درست بھی ہیں تو کیا شوکت عزیز صدیقی کا بطور جج طریقہ کار مناسب تھا؟چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تقریر بھی 2 طرح کی ہوتی ہیں، جج پر تقریر کرنے پر پابندی نہیں ہے، ایسا ہوتا تو بار میں تقاریر پر کئی ججز فارغ ہوجاتے، مسئلہ شوکت عزیز صدیقی کی تقریر میں اٹھائے گئے نکات کا ہے، برطانیہ میں ججز انٹرویو بھی دیتے ہیں، امریکا میں سپریم کورٹ ججز مباحثوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا جج کو تقریر نہیںکرنی چاہیئے، مسئلہ تقریر کا نہیں بلکہ کنٹینٹس کا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا عدالت خود اس معاملے کی تحقیقات کر سکتی ہے؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس آئینی طور پر ریمانڈ ہوسکتا ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ صدر کے آرڈر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، رپورٹ بھی ختم کی جائے اور معاملہ واپس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا جائے۔ چیف جسٹس نے استفار کیا کہ کیا یہ معاملہ دوبارہ سپریم جوڈیشل کونسل کوبھی بھجوایا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کدھر ہیں۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ اپنے آفس میں ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنر ل کوبلالیں۔ اس کے بعد اٹانی جنرل بھی عدالت پہنچ گئے۔ خواجہ حارث احمد نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس واپس نہیں بھیجا جا سکتا، شوکت عزیز صدیقی ریٹائر ہوچکے، بطور جج بحال نہیں ہوسکتے، سپریم جوڈیشل کونسل اب شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ نہیں دیکھ سکتی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ فرض کریں اگر الزامات درست ہوں توپھر کیا ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شوکت صدیقی کو وسل بلور کہا جاسکتا ہے وہ اپنی مشہوری تونہیں چاہتے تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر جس ادارے میں وہ ہے وہاں کرپشن ہے تواس کواس پر خاموش رہنا چاہیئے۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جس شخص نے اپروچ کیااس کو توہین عدالت کا نوٹس دینا چاہئے تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جو الزامات لگائے وہ عدالت کی عزت کے خلاف ہیں، کیسے عدالت کی عزت کا تحفظ کریں۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیوں چیف جسٹس کا یقین کررہے ہیں اورجج کا یقین نہیں کررہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس قوم نے کافی سہہ لیا ہے یہ کسی خاص شخص کوریلیف دینے معاملہ نہیں ، میرا معاملہ اداروں کی عزت کا ہے، قوم سچ جاننا چاہتی ہے ، یہ چھوٹا معاملہ نہیں یہ ادارہ جاتی معاملہ ہے، کیا وکیل سچ نہیں جاننا چاہتے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم یہ کیسے کرسکتے ہیں، یہ تجویز آئی ہے کہ معاملہ دوبارہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایاجائے، قوم جاننا چاہتی ہے کہ الزامات غلط ہیں یا درست۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کل کوکیس جج کے خلاف شکایت آجائے اورسارے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان اتفاق کرلیں توکیا بغیر انکوائری اس جج کو ہٹادیں،یہ فیصلہ روایت بنے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ بار سے خطاب میں درخواست گزار نے الزامات لگائے ، الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیں یا نہیں ہونی چاہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل میں بتایا کہ انکوائری نہ کروانا قانون کے خلاف ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں یہاں سے کدھر جانا چاہیئے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے عافیہ شہربانو کیس کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کردی ہے جس میں ریٹائرڈ ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو کاروائی سے روکا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ شوکت صدیقی کے کیس کو بھی عافیہ شہربانو ضیاء کیس کی اپیل کے ساتھ منسلک کردیا جائے، اگر وہ کیس خارج بھی ہوتواس کیس میں اپیل کاحق ہوگا۔اٹارنی جنرل کا کہناتھا کہ اس کیس میں وفاقی حکومت کی رائے ہے کہ ایک جج کی جانب سے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سنجیدہ الزامات لگائے گئے ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عافیہ شہربانوکیس پر نظرثانی کے بعد ہی یہ کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایاجاسکتاہے،شوکت صدیقی کو ریٹائرڈ کیا جاسکتا ہے اورتمام مراعات بھی دی جاسکتی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بنیادی انکوائری کروانی چاہیئے اس کا حل کیا ہے۔وسیم سجاد نے پیش ہو کربتایا کہ میں میں معاملہ کامطالعہ کررہا ہوں اوراس پر کوئی کمنٹ نہیں کرسکتا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا کیس ہے جس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے الزامات پر کوئی انکوائری نہیں کروائی۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس شیخ شوکت علی اورجسٹس اخلاق حسین کو سپریم جوڈیشل کونسل نے انکوائری کے بعد عہدوں سے ہٹایا۔ حامد خان نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس تھا جہاں جج کو انکوائری کے بغیر ہٹایا گیا، ایک تفصیلی فیصلہ آنا چاہیے کہ جج کو ہٹانے سے پہلے انکوائری کیوں ضروری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ 1956 اور 1962 کے آئین میں صدارتی ریفرنس کے بغیر جج کو ہٹایا نہیں جا سکتا تھا، 1973 کے آئین میں بھی پہلے یہی شرط تھی، 2005 میں پہلی بار آئین میں صدارتی ریفرنس کے علاوہ طریقہ کار متعارف کرایا گیا۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ اس کیس میں سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا ہے اوررجسٹرارنے نوٹ لکھا ہے۔ ا س پر جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ رجسٹرار نے کس حیثیت میں نوٹ لکھا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ رجسٹرار نے 31جولائی 2018کو نوٹ لکھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا رجسٹرار نے کسی کی ہدایت پر یاخود نوت لکھا۔ چیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ کتنی مرتبہ سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کو طلب کیا۔ اس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ صرف ایک مرتبہ، سوال ہوا کہ یہ کیا تقریر کی۔ چیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ کیا کوئی چارج فریم ہوا۔ اس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جو شوکاز نوٹس جاری ہوا وہ کدھر ہے۔ اس پر حامد خان نے شوکت صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری شوکازنوٹس پڑھ کرسنایا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کل کو کوئی 50ججز کے خلاف شکایات دائر کردے توپھر ادارہ ہی ختم ہوجائے گا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ جس دن 11اکتوبر2018کو شوکت صدیقی کو عہدے سے ہٹایا گیا اس سے اگلے روز ہی سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انورخان کانسی کوالزامات سے بری کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ شوکت صدیقی کو پورا موقع دیا گیا، سپریم جوڈیشل کونسل میں دوماہ کیس چلا ، پہلی سماعت 23جولائی 2018کو ہوئی اورپھر 1اکتوبر2018کو فیصلہ ہوا اورانہیں مس کنڈکٹ کا مرتکب قراردیا گیا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے انکوائری نہیں کی ، غیر آئینی فیصلہ کو کالعدم قراردے کر دوبارہ انکوائری کروائی جائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ تقریر سے انکار نہیں کررہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ مس کنڈکٹ تھا کہ نہیں، کیا سپریم جوڈیشل کونسل تحقیقات کرسکتی ہے یا کہیں اورہونی چاہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ شوکت صدیقی پر الزام ہے کہ انہوںنے عدلیہ کوتقریر کے زریعہ بدنام کیا، تحقیقات کے بعد وہ ذمہ دارثابت ہوتے ہیں توانہیںنتائج کاسامنا کرنا چاہیئے اوراگر درست ثابت ہوتے ہیں توپھر دوسرے کو نتائج کا سامنا کرنا چاہیئے، تاہم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انکوائری کون کرے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل خود بہت پاورفل ہے اورانکوائری کرسکتی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل خودمختارادارہ ہے اوراسے فیصلہ کرنے کی آزادی ہونی چاہیئے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ ریفرنس کی بنیاد تقریر ہے اورتقریر کے کنتینٹس سے توانکار نہیں کررہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔ کراچی بارایسوسی ایشن اوراسلام آباد ایسوسی ایشن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری سے ویڈیو لنک کے زریعہ دلائل دیتے ہوئے کہ کہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کوواپس نہیں بھیجنا چاہیئے بلکہ سپریم کورٹ کوخود سننا چاہیئے۔ چیف جسٹس نے صلاح الدین احمد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے لوگوں کو سچ نہیں پتالگنا چاہیئے، کیوں یہ کیس سپریم جوڈیشل کونسل کوریمانڈ نہیں ہوسکتا، جج کے آئینی عہدے کو سرکاری ملازم کے ساتھ نہیں ملایا جاسکتا، کیا سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار اپنے پاس لے لیں۔ صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ شوکت صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گئے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیسے انکوائری کیئے بغیر شوکت صدیقی کے خلاف آرڈر کو کالعدم اقراردے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صلاح الدین اپنی درخواست کے برعکس دلائل دے رہے ہیں ان کی درخواست کو خارج کردینا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ہم شواہد ریکارڈکریں۔ صلاح الدین کا کہنا تھا کہ اس پر کوئی پابندی نہیں، کمیشن کو ریفر کیا جائے جو الزامات کی تحقیقات کرے، سپریم کورٹ کے پاس 184(3)کے تحت پاورز ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ2017کے تحت کمیشن وفاقی حکومت قائم کرسکتی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سچ کی مزید کوئی اہمیت نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہم شوکت صدیقی کو بحال کریں اور پھر انکوائری کریں اوراگرالزامات غلط ثابت ہوتے ہیں توپھر کیا ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر صلاح الدین کی بات مان لیں توپھر یہ معاملہ کبھی ختم ہی نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کیا ہم کسی ایس ایچ او اورپولیس سب انسپیکٹر کے ہاتھ میں ججز کی قسمت کا فیصلہ دے دیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ معذرت کے ساتھ مس کنڈکٹ کے معاملہ پروکلاء کی جانب سے کوئی معاونت نہیںملی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا جوتقریر کی تھی وہ مس کنڈکٹ میں آتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نائب قاصد کو فارغ کرنے کا بھی پوراپراسیس دیا گیا ہے توکیاآئینی عہدے پر موجود جج کو ایسا تحفظ حاصل نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تقریر کے کنتینٹس کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عوامی مفاد کا معاملہ ہونا چاہیئے اوردوسر بنیادی حقوق کے نفاذ کے معاملہ پر ازخودنوٹس کے تحت کاروائی ہوسکتی ہے۔ اگر جج کو اتنی آسانی سے ہٹایا جاسکتا ہے توپھر ساری عدلیہ ہی خطرے میں ہو گی۔  چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کالعدم ہوئی تو الزامات درست تصور ہوں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ اس طرح کے کیسز کی شازوناظر ہی مثال ملتی ہے۔ وکیل بتائیں کہ دنیا میں کیا پریکٹس ہے ججز کیا کہہ سکتے ہیں اورکیا نہیں کہہ سکتے۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ جنرل (ر)فیض حمید اور برگیڈیئر عرفان رامے کو نوٹس دیا گیا، خواجہ حارث پیش ہوئے اور جوابات جمع کرائے، جوابات میں الزامات کا جواب دیا گیا، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ محمد انواخان کانسی نے بھی اپنا جواب جمع کرایا جبکہ سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب محمد عارف نے بھی اپنا جواب جمع کروایا۔ چیف جسٹس نے حکم میں لکھوایا کہ حامد خان، وسیم سجاد،، اٹارنی جنرل ، ایڈیشنل اٹارنی جنر اور بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بھی دلائل دیئے۔ عدالت نے قراردیا کہ عدالتی کارروائی کے دوران اٹھائے گئے سوالات پر فریقین تحریری جوابات جمع کرائیں۔ عدالت نے سوال کیا ہے کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل نے انکوائری کی، اگر انکوائری آئین و قانون کے تحت نہیں ہوئی تو اسکا کیا نتیجے گا، شوکت عزیز صدیقی کی عمر 30 جون 2021کو 62 سال مکمل ہو چکی، اب اپیل منظور ہوئی تو کیا ریلیف دیا جا سکتا ہے، کیا سپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملہ دوبارہ بھیج سکتی ہے، اگر کونسل کی کارروائی کی ضرورت نہیں تو کیا شوکت صدیقی کی تقریر بذات خود کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف نہیں۔ ZS

#/S