سپریم کورٹ کاسی ڈی اے کی جانب سے سیکٹر ایف11میں گرین بیلٹ پر ایک، ایک کنال کے10متبادل پلاٹ تخلیق کرنے کے معاملہ پر 8مدعا علیحان کو نوٹس جاری
چیف جسٹس کا سی ڈی اے وکیل پر برہمی کااظہار
سی ڈی اے چیئرمین کو بلائیں اس عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، آئندہ سماعت پر پیش نہ ہوئے تو ایکس پارٹی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔چیف جسٹس
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے)کی جانب سے اسلام آباد کے سیکٹر ایف11میں گرین بیلٹ پر ایک، ایک کنال کے10متبادل پلاٹ تخلیق کرنے کے معاملہ پر 8مدعا علیحان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ اگر وہ آئندہ سماعت پر پیش نہ ہوئے تو ایکس پارٹی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ عدالت نے سی ڈی اے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس حوالہ سے بتائیں کہ الاٹ شدہ زمین کے حوالہ سے سی ڈی اے کی جانب سے مستقبل میں استعمال کرنے کا کوئی ذکر ہے تو وہ بتادے، مستقبل کے استعمال سے کیا مطلب ہے ۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سی ڈی اے وکیل پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سوال سمجھ نہیں آتے توبتادیںہم سی ڈی اے کا وکیل تبدیل کردیتے ہیں، سی ڈی اے چیئرمین کو بلائیں اس عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، انگریزی پڑھناآتی ہے آپ کو بہت مبارک ہو۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے وفاقی ترقیاتی ادارے( سی ڈی اے) کی جانب سے چیئرمین سی ڈی اے ، اوردیگر کے توسط سے محمد ساجد پیرزادہ اور دیگر کے خلاف اسلام آباد کے سیکٹر ایف 11گلی نمبر56میں ایک، ایک کنال کے 10پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے معاملہ پر دائردرخواستوںپر سماعت کی۔ جبکہ بینچ نے محمد بنارس اوردیگر کی جانب سے سی ڈی اے بوساطت چئیرمین اوردیگر کے خلاف دائر درخواستوںپر بھی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے سی ڈی اے وکیل محمد نذیر جواد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زمین کااسٹیٹس کیا ہے، اوپن پلاٹ ہے کیا ہے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ایک پلاٹ بنا ہے اور9خالی پڑے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ یہ پلاٹ کس پراسیس کے زریعہ الاٹ کئے، یہ کس تاریخ کو تخلیق ہوئے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ 2007میں ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا بیلٹ اسکیل کی تفصیل بتائیں، الاٹمنٹ دکھائیں، پیمنٹ دکھائیں۔ اگر سوال سمجھ نہیں آتے توبتادیںہم سی ڈی اے کا وکیل تبدیل کردیتے ہیں، سی ڈی اے چیئرمین کو بلائیں اس عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، انگریزی پڑھناآتی ہے آپ کو بہت مبارک ہو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پہلے سی ڈی اے نے لوگوں کو پلاٹ کئے اس پر لوگوں کا قبضہ تھا اورگرین بیلٹ پر متاثریں کے لئے پلاٹ تخلیق کئے جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسترد کردیا، کس قانون کے تحت نئے پلاٹ بنائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ پہلی بولی کب ہوئی تھی۔ اس پر سی ڈی اے وکیل کاکہناتھا کہ 1983میںہوئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ توحالت ہے کوئی فائل ہی نہیںپڑھتا ہے، تین گھنٹے بحث ہو گی وہ پیچھے مڑکردیکھیں گے یہ تیار ی کی حالت ہے، 2014سے کیس پڑا ہے 10سال ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزارچوہدری طاہر ستارکو کون ساپلاٹ ملا ہے۔ اس پر طاہر ستار کے وکیل محمد منیر پراچہ کا کہنا تھاکہ 296-Bملا ہے۔ 295-Aنمبر پلاٹ کی الاٹی کا نام خانسہ طارق حسین ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ باقی 8پلاٹ مالکان کا کوئی مفاد نہیں، وہ کیوں نہیں آرہے ، اس میں وکیل توکافی سارے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں کون درخواست گزارتھا۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ساجد پیرزادہ تھا ان کی نمائندگی کون کررہا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ پلاٹس کا کوئی لے آئوٹ اورشکل دکھادیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ماسٹر پلان میں اس جگہ کا کیااسٹیٹس ہے جس جگہ پلاٹس بنے ہیں رہائشی جگہ ہے، کمرشل جگہ ہے، گرین بیلٹ ہے یا اوپن ایریا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گلی نمبر 56کہاں ہے نقشے سے دکھائیں۔اس پر نقشے کی مدد سے سی ڈی اے حکام نے پلاٹوں کی جگہ دکھائی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اسکول یا کالج کی زمین تونہیں۔ اس پر ڈائریکٹر پلاننگ سی ڈی اے اعجازاحمد کا کہنا تھاکہ یہ اوپن ایریا کی زمین ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے صرف دوالاٹیز ہیں، الاٹیز بھی نہیں آئے اورجنہوں نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی وہ بھی نہیں آئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک جگہ دوپلاٹ تخلیق کئے اورایک جگہ 8پلاٹ تخلق کئے ان دونوں سے نالا کتنی دور ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک سے 8نمبر مدعا علیحان کا کیا مسئلہ ہے، کاز لسٹ میں محمد نصر اللہ ملک وکیل اور ارشد علی چوہدری ایڈووکیٹ آن ریکارڈ شوہورہا ہے جبکہ ملک نصراللہ اعوان شوہورہا ہے۔ ڈائریکٹر سی ڈی اے پلاننگ کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان کو جنوری2020میں سپریم کورٹ سے مدعا علیحان کو نوٹس ہوا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس انور خان کانسی پر مشتمل سنگل رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا پھر دورکنی بینچ نے فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 8افراد نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشنز دائر کی تھیں۔ 56نمبر گلی کے آخر میں 10پلاٹس تخلیق کئے گئے۔ 296-Bپر ایک گھربنایا جاچکا ہے جبکہ دیگر پلاٹ خالی پڑے ہیں۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی 8مدعا علیحان کے تازہ ترین پتوں پر نوٹس بھجوائے جائیں، موجودہ مالک کون ہیں اور اوریجنل مالک کون تھے اس حوالہ سے سی ڈی اے ایک ہفتے کے اندر تفصیلات سپریم کورٹ کو فراہم کرے۔ہائی کورٹ میں ایک سے 8 تک درخواست گزاروں کے وکیل محمد نصراللہ ملک اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ارشد علی چوہدری کو نوٹس جاری کئے جائیں اور محمد نصراللہ ملک کا نام کاز لسٹ میں بھی جاری کیا جائے۔ ہم نے نقشہ دیکھا جس میں 10پلاٹس کی لوکیشن دی گئی ہے اگر اس الاٹ شدہ زمین کو سی ڈی اے کی جانب سے مستقبل میں استعمال کرنے کا کوئی ذکر ہے تو وہ بتادے، مستقبل کے استعمال سے کیا مطلب ہے۔ اگر کوئی مدعا علیہ آئندہ سماعت پر پیش نہ ہواتواس کے خلاف ایکس پارٹی کاروائی ہو گی۔ جبکہ چیف جسٹس کا درخواست گزارمحمد بنارس کے وکیل مرزامحمد نذاقت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کیا چاہتے تھے پلی بتائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی کاغذ کا ٹکڑادکھادیں کہ یہ جگہ قبرستان ہے۔ چیف جسٹس کیس میں سی ڈی اے کے وکیل محمد منیر پراچہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ کس مقصد کے لئے زمین استعمال ہورہی ے،یہ سرکاری یاغیر سرکاری قبرستان ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ شاہراہ دستور پر بھی جائیں توایک، دوقبریں ہیں۔ نیاقبرستان گلی نمبر ایک میں بنا دیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے درخواست گزارکو ساتھ لے جاکر جگہ دکھادے، تصویرسے تولگ رہا ہے مسئلہ حل ہو گیا ہے، الیکشن بھی ہورہا ہے اس کے بعد وقت طے کر کے سی ڈی اے حکام کے ساتھ جاکرجگہ دیکھ لیں۔