سپریم کورٹ ، ریٹائرڈ ججز کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل قابل سماعت قرار

عدالت کا سینئروکلاء مخدوم علی خان، خواجہ حارث احمد اور بیرسٹر خالد جاوید خان کوعدالتی معاون مقرر کرنے کا فیصلہ

عدالت نے اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان کو قانونی سوالات فوری طور پر فراہم کرنے کی ہدایت کردی

 کیا کوئی جج عزت کے ساتھ ریٹائرڈ ہونا چاہتا ہے یا اپنے اوپر الزامات لے کر ریٹائرڈ ہونا چاہتا ہے،جسٹس امین الدین خان

 بڑی مشکل درخواست ہے ہم اپنے مستقبل کا فیصلہ کررہے ہیں، ہرجج چاہے گاوہ باعزت طریقہ سے ریٹائرڈہو،جسٹس جمال مندوخیل

  کوئی ایماندار جج قانون کے مطابق فیصلہ دے تو بلیک میلرز اس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کردیتے ہیں،جسٹس حسن اظہر رضوی

ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کے ججز کے خلاف کوئی ادارہ کارروائی نہیں کرسکتا اور صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی کارروائی کرسکتی ہے،اٹارنی جنرل

عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت آئندہ سوموار19فروری تک ملتوی کردی

اسلام آباد(  ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل قابل سماعت قرار دے دی۔عدالت نے سینئروکلاء مخدوم علی خان، خواجہ حارث احمد اور بیرسٹر خالد جاوید خان کوعدالتی معاون مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان کو قانونی سوالات فوری طور پر فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آئندہ سوموار تک ملتوی کردی جبکہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ کیا کوئی جج عزت کے ساتھ ریٹائرڈ ہونا چاہتا ہے یا اپنے اوپر الزامات لے کر ریٹائرڈ ہونا چاہتا ہے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ یہ بڑی مشکل درخواست ہے ہم اپنے مستقبل کا فیصلہ کررہے ہیں، ہرجج چاہے گاوہ باعزت طریقہ سے ریٹائرڈہو، ہم بڑی نازک کرسی پربیٹھے ہیں ، ہم لوگ بھی عوام میں بیٹھتے ہیں تولوگ کہتے ہیں کہ فلاں یہ کہہ رہا تھا ، ٹھیک ہی کہہ رہاتھا۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اورجسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے وفاقی حکومت کی جانب سے عافیہ شہربانوضیاء کیس فیصلے پر نظرثانی کے لئے دائر اپیل پر سماعت کی۔دودرخواستوں میں سے ایک وفاق پاکستان نے سیکرٹری وزارت قانون وانصاف کے توسط سے دائر کی ہے جبکہ دوسری درخواست عافیہ شہربانو ضیا کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ درخواستوں میں سپریم جوڈیشل کونسل اوردیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ وفاق پاکستان کی جانب سے اٹارنی جنرل بیرسٹر منصورعثمان اعوان پیش ہوئے جبکہ عافیہ شہربانو ضیا کی جانب سے وقاص احمد میرویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ لاہوررجسٹری سے پیش ہوئے۔اٹارنی جنرل کا دلائل میں کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پر بینچ نے لمیٹیشن کے سوال پر نوٹس جاری کئے تھے۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ ایک نئی درخواست دائر ہوئی ہے اس میں اٹارنی جنرل کونوٹس کرناہوگا۔ عدالت نے درخواست پر وفاق پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریق بننے کی اجازت دے دی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 209کے تحت کسی جج کے خلاف صدر مملکت، وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کی ایڈوائس کے بغر ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر نہیں کرسکتا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے دورکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 209کی تشریح کرتے ہوئے قراردیا کہ ریٹائرڈ اور مستعفی ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی نہیں ہوسکتی اورسپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کوریگولیٹ نہیں کرسکتی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ دورکنی بینچ نے کس کونوٹس جاری کئے  بغیر فیصلہ کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میںکاروائی جاری تھی تواگروہ جج اس دوران مستعفی ہوجاتا ہے تواس پر سوالیہ نشان برقراررہے گا۔ جسٹس سید حسن رضوی نے کہا کہ دوججز اس کیس سے متاثر ہوسکتے ہیں کیا ان کو پارٹی نہیں بنانا چاہیے اوران کی نمائندگی نہیں ہونی چاہیے اورانہیں دفاع کا حق نہیں ملنا چاہیے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری ہو اوروہ جج اس دوران ریٹائرڈ ہو جائے توپھر کونسل کی رپورٹ کا اس پر کیا اثر ہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہر مس کنڈکٹ کے فوجداری اثرات نہیں ہوں گے ، ہم نے پارلیمنٹ کے ارادے کو غور سے دیکھنا ہو گا۔ اٹارنی جنرل  نے کہا کہ ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کے ججز کے خلاف کوئی ادارہ کارروائی نہیں کرسکتا اور صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی کارروائی کرسکتی ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ اگر کسی جج کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیر التواہوتواِس کیس کااُس پر کیا اثر پڑسکتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہرجج چاہے گاوہ باعزت طریقہ سے ریٹائرڈہو۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اِس ادارے کے لئے ضروری ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف سپریم جوڈشیل کونسل میں کاروائی زیر التوانہ ہو وہ باعزت طریقہ سے ریٹائرڈ ہو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ لوگ ججز کے خلاف سوشل میڈیا پر الزامات لگادیتے ہیں اور پھر ججز اس کی صفائیاں پیش کرتے رہتے ہیں ، اگر کوئی شخص سپریم جوڈیشل کونسل میں جھوٹی درخواست دائر کرتا ہے تو اس کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اپنے سیکرٹری کواس شخص کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی ہدایت کرسکتی ہے اور توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے ۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہم بڑی نازک کرسی پربیٹھے ہیں ، ہم لوگ بھی عوام میں بیٹھتے ہیں تولوگ کہتے ہیں کہ فلاں یہ کہہ رہا تھا ، ٹھیک ہی کہہ رہاتھا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ کوئی ایماندار جج قانون کے مطابق فیصلہ دے تو بلیک میلرز اس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کردیتے ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ جو بے بنیاد درخواستیں لائی جاتی ہیں ان کے خلاف کیا کروائی کی گئی۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ کیا کوئی جج عزت کے ساتھ ریٹائرڈ ہونا چاہتا ہے یا اپنے اوپر الزامات لے کر ریٹائرڈ ہونا چاہتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہ بڑی مشکل درخواست ہے ہم اپنے مستقبل کا فیصلہ کررہے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم مخالف سمت کو بھی سننا چاہتے ہیں تجویز دیں ہم کیا کریں۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مخدوم علی خان اور بیرسٹر خالد جاوید خان کو عدالتی معاون مقرر کردیں۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ خواجہ حارث احمد کو بھی معاون مقرر لیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ خواجہ حارث متاثرہ جج کے وکیل ہیں۔ اس پر جسٹس عرفان ۔سعادت خان کا کہنا تھا کہ پھر تومخدوم علی خان بھی متاثر جج کے وکیل ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہ تولیگل پوائنٹ ہے۔ جسٹس امین الدین خان کااٹارنی جنرل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی اورنام بھی ہوتووہ بھی تجویز کردیں۔ جسٹس امین الدین خان نے اٹارنی جنرل کوہدایت کہ وہ سوال فریم کر کے بھجوائیں تاکہ وہ عدالتی معاونین کوبھجوائے جاسکیں۔ عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت آئندہ سوموار19فروری تک ملتوی کردی۔کیس کی سماعت دن ساڑھے 11بجے مقررتھی تاہم بینچ 11بجکر55منٹ پر کمرہ عدالت میں آیا اورتقریباً45منٹ سماعت جاری رہی۔ZS

#/S