نیب ترامیم کیس ، سابق وزیر اعظم عمران خان کو سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعہ پیش ہوکرخود دلائل دینے کی اجازت
 پنجاب حکومت اوروفاقی حکومت کو ویڈیو لنک کے انتظامات کرنے کی ہدایت
سینئر وکیل خواجہ حارث احمد کو قانونی وآئینی نکات کے حوالہ سے عمران خان کی معاونت کرنے کی ہدایت
مارشل لاء لگتا ہے نیب آرڈیننس دو منٹ میں بن جاتا ہے،مگر جمہوریت کوئی آگے چیزیں کرے توبڑا مشکل ہوجاتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی

اسلام آباد( ویب نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس میں مدعاعلیہ سابق وزیر اعظم عمران خان کوجمعرات 15مئی کو ویڈیو لنک کے ذریعہ پیش ہوکرخود دلائل دینے کی اجازت دے دی۔عدالت نے پنجاب حکومت اوروفاقی حکومت کو ویڈیو لنک کے انتظامات کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ عمران خان عدالتی دلائل سن سکیں اور ور وہ عدالت سے مخاطب ہو سکیں۔۔ عدالت نے سینئر وکیل خواجہ حارث احمد کو ہدایت کی ہے کہ وہ نیب ترامیم کیس میں قانونی اورآئینی نکات کے حوالہ سے عمران خان کی معاونت کریں۔ خواجہ حارث اگر فیس وصول کرنا چاہیں تواس حوالہ سے عدالت بعد میں حکم جاری کرے گی۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اگرویڈیو لنک کے انتظامات نہ کئے گئے تو پھر سماعت ملتوی کرنا ہوگی اوراس کی ذمہ داری اٹارنی جنرل پر ہوگی۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھاکہ سماعت ملتوی نہیں ہو گی بلکہ اس کے نتائج ہوں گے۔ ہمارے ساتھ بڑا مسئلہ ہوتا ہے، مارشل لاء لگتا ہے نیب آرڈیننس دو منٹ میںبن جاتا ہے،مگر جمہوریت کوئی آگے چیزیں کرے توبڑا مشکل ہوجاتا ہے، وہ توفوراً آگیا ٹھک کر کے اس پر کوئی سوال نہیں کیا ، یہ توانہوں نے تبدیلیاں کی ہیں اگر حکومت نے نیب آرڈیننس کوکالعدم قراردے دیا ہوتا تو کیا ہوتا، کیا وہ ایسا کرسکتے تھے کہ نہیں، کیا حکومت اور پارلیمنٹ متبادل فورم فراہم کئے بغیر ایسا کرسکتی ہے کہ نہیں۔نیب حکام بتائیں کہ سالانہ نیب پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں، سالانہ کتنے پیسے ریکور ہوتے اور یہ پیسے جاتے کدھر ہیں ، یہ آپ کو ملتے ہیں یا قومی خزانے میںجاتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا نیب ملک میں کسی کوجوابدہ ہے۔ کیا ایک ادارہ نہیں ہوسکتا ، نیب ہے ، ایف آئی ہے ، حکومت اس حوالہ سے کیوں نہیں سوچتی۔ کیا عمران خان بھی نیب آرڈیننس کاسامنا کررہے ہیں۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ممکن ہے کہ مدعا علیہ نمبر1اب چاہتے ہوں اوروہ درخواست کریں کہ پورا نیب قانون کالعدم قراردیا جائے، کیونکہ اب وہ متاثرہ شخص ہیں۔ کیا کوئی ڈیٹا ہے کہ نیب کی وجہ سے کتنا  معیشت کو نقصان ہوا ہے ،انفرادی آزادیوں کو کتنا نقصان ہوا، اب تک بہت ساڈیٹا ہونا چاہیئے تھا۔1999سے نیب کی کارکردگی، نیب اور کنڈکٹ رہا ہے تو نیب کاوجود برقرارنہیں رہنا چاہیئے تھا ، جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نیب کی وجہ سے ہوئی ہے اور بہت ہی بدقسمتی سے اس عدالت نے قانون بنایا جس کی وجہ سے ہائی کورٹ کے لئے ایک وقت میں ملزمان کو ضمانت دینا ناممکن ہو گیا، جتنی نیب قانون کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں ،اگر کو کالعدم بھی قراردے دیا جاتا تویہ درست ہوتا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس من اللہ اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے وفاقی حکومت اوردیگر کی جانب سے نیب ترامیم کیس میں دائر نظرثانی درخواستوں پر منگل کے روز سماعت کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان، سینئر وکلاء مخدوم علی خان، فاروق ایچ نائیک، ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان،ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب وسیم ممتاز ملک، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل الیاس، ایڈیشل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان محمد ایاز خان سواتی، ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب اوردیگر وکلاء پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کتنی اپیلیں ہیں، کیا ہم نے اپیلوں پر نوٹسز جاری کئے تھے۔ اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ 31اکتوبر2023کواپیلوں پر نوٹسز جاری کئے تھے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان کی کون نمائندگی کررہا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان کے وکیل پہلے کون تھے۔ اس پر بتایا گیا کہ خواجہ حارث تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ خواجہ حارث احمد کدھر ہیں۔ اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وہ اپیل میں پیش نہیں ہورہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیااٹارنی جنرل اپیلوں کی حمایت کررہے ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں نظرثانی درخواستوں کی حمایت کرتا ہوں۔ چیف جسٹس نے دیگر صوبوں ، وفاق اورنیب سے پوچھا کہ کیاوہ اپیلوں کی حمایت کررہے ہیں کہ نہیں۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے اپیلوں کی مخالف کی جبکہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور نیب کی جانب سے اپیلوں کی حمایت کی گئی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ مدعا علیہ عمران خان نیازی ذاتی طورپر پیش ہونا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے لکھا تھا کہ اگر مدعا علیہ چاہتے ہیں کہ ان کی نمائندگی ہوتوجیل سپریٹنڈنٹ اس حوالہ سے اقدامات کریں، یہ قانونی معاملہ ہے اورہم اسی تک محدودرہیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پہلے عمران خان درخواست گزار تھے اوراب مدعا علیہ ہیں، ہم نے حکم جاری کیا تھا اور اگروہ پیش ہونا چاہتے ہیں تواس حوالہ سے انتظامات کئے جائیں، کیس ان کوسنے بغیر فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کاکہنا تھا پہلے کیس کی سماعت کے دوران خواجہ حارث ان کی طرف سے پیش ہوئے تھے، اب معاملہ اپیل میں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھاکہ یہ تومدعا علیہ پر منحصر ہے کہ وہ خود پیش ہونا چاہتے ہیں یا وکیل کے زریعہ پیش ہونا چاہتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا بطور مدعا علیہ ہم ان کی عدالت تک رسائی سے کیسے انکارکرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج ہی ہمیں یہ بھیجنا تھا پہلے نہیں مل سکتا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ نیب سے متعلق معاملہ ہے جس کے بارے میں تاثر ہے کہ یہ سیاسی انجینئرنگ میں ملوث رہاہے، اگر عمران خان ذاتی طور پر پیش ہونا چاہتے ہیں توکیسے ان کی عدالت تک رسائی سے انکار کیا جاسکتا ہے، اگر ان کو یڈیو لنک کے زریعہ پیش کرتے ہیں تو بھی ان کو عدالت تک رسائی سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذاتی حقوق کا مسئلہ نہیں ، یہ قانونی ترامیم کو چیلنج کرنے کا معاملہ ہے، اگر ہم کسی دوسرے مقاصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں توفائن اوکے، یہ انفرادی حقوق کا مسئلہ نہیں اور نہ ہی یہ کہ میں اس قانون سے متاثر ہوا ہوں، اگر ذاتی حقوق متاثر ہوئے ہیں توپھر اس طرح تمام افراد کوایسا کرنے کی اجازت دی جائے، مجھے نمائندگی پر اعتراض نہیں اگر اس کو کسی اورمقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گاتوپھر ہمیں اس معاملہ پر غور کرنا پڑے گا، کیوں خواجہ حارث عدالت میں موجود نہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم 5منٹ کے لئے سماعت ملتوی کررہے ہیں اورآپس میں معاملہ پر مشاورت کرکے آتے ہیں۔ اس کے بعد ججز کمرہ عدالت سے واپس چلے گئے ۔ مشاورت کے بعد ججز 15منٹ بعد دوبارہ کمرہ عدالت میں آئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عجیب صورتحال ہے کہ مدعا علیہ کی نمائندگی نہیں جو کہ پہلے درخواست گزار تھے اوران کی درخواست پر تین رکنی بینچ نے اکثریتی فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چونکہ نیب درخواست گزاروں کی حمایت کررہا ہے اس لئے ہم دوسری طرف کو بھی سننا چاہیں گے اور اگر مدعا علیہ چاہتے ہیں کہ وہ پیچیدہ آئینی سوالات کے جواب دیں گے تواس کافیصلہ انہوں نے کرنا ہے نہ کہ ہم نے کرنا ہے۔ چیف جسٹس ہم درخواست مظور کررہے ہیں، وہ جہاں کہیں بھی ہیں ویڈیو لنک کے زریعہ ان کی حاضری کے انتظامات کئے جائیں۔ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کب تک ویڈیو لنک کے زریعہ انتظامات کرلیں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ ایک ہفتے کاوقت لگے گا۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگلے ہفتے میں موجود نہیں ہوں گاکیا پرسوں انتظامات نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مخدوم علی خان اپنی مختصر گزارشات دے دیں تاکہ مدعا علیہ نمبر 1کو بھوائی جاسکیں تاکہ وہ ان کاجواب دے سکیں۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وہ تحریری گزارشات بھی جمع کروادیں گے تاکہ عمران خان کو بھجوائی جاسکیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے بھی ایک اپیل دائر کی ہے، میرے خیال میں توسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی شق 5کے تحت تو متاثرہ شخص ہی اپیل دائر کرسکتا ہے، کیسے وفاقی حکومت متاثرہ فریق ہے، ہمیں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق 5کی تشریح کرنا ہوگی،اپیل کے مقاصد کے لئے حکومت یا کسی ڈیپارٹمنٹ کو متاثر شخص کے طور پر نہیں لیا جاسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں یہ ترامیم کس نے تجویز کی تھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ نمبر 1سماعت سن نہیں رہے اس لئے مخدوم علی خان اپنی گزارشات دیں تاکہ ہم ان کو بھجواسکیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے معاملات سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں اگر وہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو 1988کے کیس کے فیصلہ کی روشنی میں یہ درخواست قابل سماعت نہیں تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ مدعا علیہ نمبر1نے ادراک کرلیا ہو کہ ان کے دور میں نیب کے حوالہ سے جاری صدارتی آرڈیننسز درست نہیں تھے، مدعا علیہ نمبر1کی کے دور میں جاری آرڈیننسز کیا ماضی سے نافذا لعمل تھے یا مستقبل سے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کیا ہم خواجہ حارث کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ عدالت میں پیش ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کیس کی کاروائی یکطرفہ چلے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ میں تجویز دیتا ہوں کہ خواجہ حارث کو بطور عدالتی معاون بلایا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتیں فوجدار ی معاملات میں وکیل مقرر کرتی ہیں، ا ہم انہیں وکیل مقرر کرسکتے ہیں، جو مدعا علیہ نمبر1کہنا چاہیں کہیں اور خواجہ حارث ان کی معاونت کریں گے، ہم ان کی فیس بھی مقرر کرسکتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا وفاقی حکومت ان کی فیس ادا کرے گی۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پتا نہیں اٹارنی جنرل اس پرراضی ہوتے ہیں کہ نہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اٹارنی جنرل راضی ہوں یا نہ ہوں ہم انہیں ایساکرنے پر مجبور کریں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دور میں جاری آرڈیننسز کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ بیوروکریسی مظلوم تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا عدالت سابق صدر کو بلا کر پوچھے کہ کیا وہ ان آرڈیننسز سے مطمئعن تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ نیب شروع سے آج تک سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا گیا اورنیب نے اپنے اختیارات کاناجائز استعمال کیا ہے،اس لئے سابقہ حکومت نے بیوروکریسی کے تحفظ کے لئے کچھ ترامیم کیں اورمنتخب نمائندوں کو چھوڑ دیا جو کہ متاثرہ فریق تھے،کوئی ان کو پہنچے والے ناقابل تلافی نقصان کاازالہ نہیں کرسکتا،اب لاتعداد شواہد آچکے ہیں کہ کیسے انہیں قید کیا گیا، ان کی تذلیل کی گئی اوربعد میں پتا چلا کہ ان کے خلاف کچھ نہیں ملا، سابقہ حکومت بھی آرڈیننسز جاری کرنے پر مجبور ہوئی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہ حکومت نے کرنا تھا کہ صدر کو وجوہات بتاتی کہ کیوں آرڈیننس کا نفاذ ضرور ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا عمران کان بھی نیب آرڈیننس کاسامنا کررہے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا کوئی ڈیٹا ہے کہ نیب کی وجہ سے کتنا  معیشت کو نقصان ہوا ہے ،انفرادی آزادیوں کو کتنا نقصان ہوا، اب تک بہت ساڈیٹا ہونا چاہیئے تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ صرف برگیڈیئر اسد منیر کا خود کشی کا نوٹ دیکھ لیجئے ، یہی کافی ہے، کوئی برگیڈیئر اسد منیر کوواپس نہیں لاسکتا، مجھے نہیں پتا کہ نیب اب بھی نیب اختیارات سے تجاوزکررہی ہے کہ نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ مدعا علیہ نمبر1اب چاہتے ہوں اوروہ درخواست کریں کہ پورا نیب قانون کالعدم قراردیا جائے، کیونکہ اب وہ متاثرہ شخص ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب وہ درخواست آئے گی تودیکھ لیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں زیر التواکیس کی تعداد 57ہزار سے بڑھ گئی ہے، اگر ہائی کورٹ ایسے معاملات کو حل کرسکتی ہے توکیوں سپریم کورٹ ان پر وقت ضائع کررہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا کسی اورملک نے بھی کرپشن کی رقم کا تعین کیا ہے کہ کتنی رقم کی تحقیقات ہوسکتی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایک ادارہ کیوں نہیں ہوسکتا ، نیب ہے ، ایف آئی ہے ، حکومت اس حوالہ سے کیوں نہیں سوچتی۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ تین رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ بیوروکریٹس کے حوالہ سے ایک رویہ اپنایا جائے گااورسیاستدانوں کے خلاف دوسرارویہ اپنایا جائے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اورکچھ دوسرے قانون سے بالاتر ہونے چاہیں۔چیف جسٹس کا مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مہربانی کرکے اب اینیمل فارم کاحوالہ نہیں دینا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ بڑا مسئلہ ہوتا ہے، مارشل لاء لگتا ہے نیب آرڈیننس دو منٹ میںبن جاتا ہے،مگر جمہوریت کوئی آگے چیزیں کرے توبڑا مشکل ہوجاتا ہے، وہ توفوراً آگیا ٹھک کر کے اس پر کوئی سوال نہیں کیا ، یہ توانہوں نے تبدیلیاں کی ہیں اگر حکومت نے نیب آرڈیننس کوکالعدم قراردے دیا ہوتا تو کیا ہوتا، کیا وہ ایسا کرسکتے تھے کہ نہیں، کیا حکومت اور پارلیمنٹ متبادل فورم فراہم کئے بغیر ایسا کرسکتی ہے کہ نہیں۔ اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ کرسکتی ہے، اگر پارلیمنٹ قانون بناسکتی ہے تواسے ختم بھی کرسکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 1999سے نیب کی کارکردگی، نیب اور کنڈکٹ رہا ہے تو نیب کاوجود برقرارنہیں رہنا چاہیئے تھا ، جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نیب کی وجہ سے ہوئی ہے اور بہت ہی بدقسمتی سے اس عدالت نے قانون بنایا جس کی وجہ سے ہائی کورٹ کے لئے ایک وقت میں ملزمان کو ضمانت دینا ناممکن ہو گیا، جتنی نیب قانون کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اگر کو کالعدم بھی قراردے دیا جاتا تویہ درست ہوتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا نیب ملک میں کسی کوجوابدہ ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کرپشن مسئلہ ہے ، نیب مسلسل ناکام ہوا ہے، نیب تسلسل کے ساتھ سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا گیا ہے، پارلیمنٹ سپریم ہے، کیا جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کوٹھیک کرنے کے لئے جو ترامیم کی گئی ہیں کیا یہ کافی ہے۔  جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص کو دویا تین سال غلط طور پر گرفتاررکھا گیا اوربعد میں وہ معصوم ثابت ہو توکیا وہ کیا وہ شخص نیب کے خلاف کاروائی کرسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کو طلب کر کے کہاکہ وہ اپنی تحریری معروضات جمع کروائیں اور بتائیں کہ سالانہ نیب پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں، سالانہ کتنے پیسے ریکور ہوتے اور یہ پیسے جاتے کدھر ہیں ، یہ آپ کو ملتے ہیں یا قومی خزانے میںجاتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نیب یہ تفصیلات فراہم کرے کہ اس نے گزشتہ 10سالوں میں کتنے سیاستدانوں کو پراسیکیوٹ کیا، کتنے عرصہ اندر رکھا،کتنوں کوسزاہوئی اور کتنے معصوم ثابت ہوئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ بھی بتادیں کہ کس پارٹی میں تھے اور پھر کس پارٹی میںشامل ہو گئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ آج کیا ہوا ہے، جب ہم ہائی کورٹ میں تھے توآپ سب آکر جس طرح حفاظتی ضمانت کی مخالفت کرتے تھے اورانہیں کے لئے اب آکر کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارا کوئی کیس ہی نہیں، کسی نہ کسی کوتوذمہ دار ٹھرایا جانا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم جلد کیس کافیصلہ کریں گے، چند ہفتے انتظار کرلیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا کہ اس عدالت نے قانون بنایا تھا جس کی وجہ سے ہائی کورٹس ضمانت قبل ازگرفتاری نہیں دے سکتی تھیں،لوگوں کے ساتھ ظلم بھی بہت ہوا ہے، اب اٹارنی جنرل نے ہمیں مطمئن کرنا ہے کہ آج تو نہیں ہورہا ۔اس پر اتارنی جنرل کاکہنا تھا کہ نیب مطمئن کرے گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پرسوں تک انتظامات کرلیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اتارنی جنرل نے انتظامات کرنا ہیں، لیپ ٹاپ لگانا ہو گا اورزوم پر آنا ہوگا۔اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ میری درخواست ہے کہ اگر مدعا علیہ نمبر1ذاتی طور پر عدالت آجائیں۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ کاایڈووکیٹ جنرل کے پی کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ صوبائی اسمبلی اورصوبائی حکومت کی نمائندگی کررہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگرویڈیو لنک کے انتظامات نہ کئے گئے تو پھر سماعت ملتوی کرنا ہوگی اوراس کی ذمہ داری اٹارنی جنرل پر ہوگی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سماعت ملتوی نہیں ہو گی بلکہ اس کے نتائج ہوں گے۔ چیف جسٹس کا حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ عمران احمد خان نیازی سینٹرل جیل راولپنڈی میں قید ہیں، ہم نے اپنے حکم میں انہیں وکیل کرنے کی اجازت دی تھی تاہم اپنے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر دلائل دینا چاہتے ہیں۔ عدالت نے پنجاب حکومت اوروفاقی حکومت کو ویڈیو لنک کے انتظامات کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ عمران خان عدالتی دلائل سن سکیں اور ور وہ عدالت سے مخاطب ہو سکیں۔خواجہ حارث سمیت دیگر وکلاء نے ان کی نمائندگی کی تھی۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے اپیلوں کی حمایت کی ہے۔ خیبر پختونخوا کے علاوہ تمام صوبوں اوروفاق نے اپیلوں کی حمایت کی ہے۔ خواجہ حارث کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ عمران خان کی نمائندگی کریں یہ نہیں کہ عمران خان خود عدالت میں بات نہیں کرسکتے، خواجہ حارث قانونی سوالات کے جوابات دیں گے۔ اگر خواجہ حارث فیس لینا چاہتے ہیں توعدالت اس حوالہ سے بعد میں حکم جاری کرے گی۔ مخدوم علی خان کے دلائل فاروق حمید نائیک نے اپنا لئے جبکہ تین صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز کی جانب سے بھی دلائل کی حمایت کی گئی۔ عدالت نے مخدوم علی خان کے دلائل کی کاپی آج ہی خواجہ حارث اور عمران خان کو بھجوانے کی ہدایت کی۔ ZS
#/S