نیب ترامیم کیس،بانی چیرمین پی ٹی آئی عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعہ سپریم کورٹ میں پیش
اڑھائی گھنٹے کی سماعت کے دوران انہیں ایک لفظ بھی بولنے کا موقع نہیں ملا۔ سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی
اگر قانون صحیح نہیں تواس کو کالعدم قراردے دیں، یہ بنیادی سوال ہے اس طرح ملک نہیں چل سکتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی کاروائی کومعطل کرسکتی ہے۔ ہم قانون توڑیں یا فوجی حکومت توڑے ایک جیسا ہی ہے۔ دوران سماعت ریمارکس
اسلام آباد( ویب نیوز)
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اورسابق وزیر اعظم عمران خان ویڈیو لنک کے زریعہ اڈیالہ جیل راولپنڈی سے نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہوئے تاہم اڑھائی گھنٹے کی سماعت کے دوران انہیں ایک لفظ بھی بولنے کا موقع نہیں ملا۔عمران خان کے پاس کوئی قلم یا کاغذ بھی نہ تھا جس پر وہ کچھ لکھتے۔ عمران خان نے نیوی بلیو ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ عمران خان نے بال ڈائی کئے ہوئے تھے اورکلین شیو کی ہوئی تھی۔سماعت کے آغاز پر عمران خان پریشان دکھائی دیئے تاہم بعد میں پُراعتماد دکھائی دے رہے تھے۔ عمران خان سماعت کے دوران کرسی پر بیٹھے منہ پر ہاتھ پھیرتے رہے اور اپنے کمرے میں موجود ایک پولیس اہلکار اورسادہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص سے باتیں کرتے رہے اور ہاتھوں سے اشارے کرتے رہے سماعت کے دوران عمران خان کی ویڈیو چلتی رہی تاہم ان کی آواز بند رکھی گئی۔کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر نہیں دکھائی گئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ کیس کی تاریخ کااعلان ججز کی دستیابی پر کیا جائے گااور عمران خان کی ویڈیو لنک پر آئندہ سماعت پر بھی پیشی یقینی بنائی جائے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ سینئر وکیل خواجہ حارث احمد، عمران خان کی جانب سے بطور وکیل پیش ہوں گے۔ جبکہ خواجہ حارث نے کہا ہے کہ وہ عدالت میں پیش ہونے کی کوئی فیس نہیں لیں گے۔ جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگرہمارے پاس سیاسی کیسز آنا بند ہوجائیں توہم دیگر کیسز سن سکیں گے۔اگر قانون صحیح نہیں تواس کو کالعدم قراردے دیں، یہ بنیادی سوال ہے اس طرح ملک نہیں چل سکتا، کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی کاروائی کومعطل کرسکتی ہے۔ ہم قانون توڑیں یا فوجی حکومت توڑے ایک جیسا ہی ہے۔قانون سازی معطل، کیس نہیں سن رہے، ہم کب تک اپنے آپ کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔ میں قانون کو معطل نہیں کرسکتا، قانون کوکالعدم قراردے سکتا ہوں، کیا ہم پارلیمنٹ کو جامد کردیں۔یہ افسوسناک امر ہے کہ 53سماعتیں چند ترامیم کے خلاف کیس سننے میں لگیں اورایک ماہ سے بھی کم وقت میں نیب آرڈیننس کا نفاذ ہوا۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے آخر پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کودھمکانے کا معاملہ اٹھادیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل !کیاآپ پراکسیز کے زریعہ ججز کودھمکارہے ہیں، کہہ رہے ہیں ججز کی پگڑیاں اچھا ل دیں گے،ججزنہ اس دھمکی میں آئیں گے اورنہ اثرورسوخ کو مانیں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے وفاق پاکستان اوردیگر کی جانب سے نیب ترامیم کو کالعدم قراردینے کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان، مخدوم علی خان، خواجہ حارث احمد، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواشاہ فیصل اتمانخیل اوردیگر وکلاء پیش ہوئے۔ دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر شبلی فراز،علی محمد خان، سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی، سینیٹر زرقا تیمور سہروردی، فیصل جاوید خان، اعظم خان سواتی،شوکت بسرا، عمران خان کی بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان عدالتی کاروائی دیکھنے کے لئے کمرہ عدالت میں موجودتھیں۔ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے جمعرات کے روز دلائل دیئے اور وہ آئندہ سماعت پر بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس کااٹارنی جنرل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا اٹارنی جنرل ویڈیولنک سے مدعاعلیہ منسلک ہیں۔اس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ منسلک ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کیاخواجہ حارث کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ اس پر خواجہ حارث نے روسٹرم پرآکر بتایا کہ وہ پیش ہونے کے لئے کوئی فیس نہیں لیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ مایوس کن ہے کہ خواجہ حارث کیس میں پیش نہیں ہورہے تھے، آپ سب سے سینئر وکیل ہیں۔ چیف جسٹس نے کورٹ ایسوسی ایٹ حناامتیاز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیب ترامیم کے حوالہ سے دائر درخواست نمبر 2557کاریکارڈ منگوالیں۔ چیف جسٹس کا مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اونچی آواز میں بات کریں تاکہ مدعا علیہ نمبر 1سن سکیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اِس عدالت کے سامنے کب درخواست دائر کی گئی تھی۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ 25جون2022کو درخواست دائر ہوئی اور19جولائی کو پہلی سماعت ہوئی اورمدعاعلیحان کو 29جولائی 2022کے لئے نوٹسز جاری ہوئے۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس زیر سماعت تھااس کے باوجود سپریم کورٹ نے کیس سنا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کل کتنی سماعتیں ہوئیں۔اس پر مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ کل 53سماعتیں ہوئیں،27سماعتوں پر درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیئے جبکہ 19سماعتوں پر مدعاعلیحان کے وکلاء نے دلائل دیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پہلی مرتبہ نیب آرڈیننس کی تیاری اورنفاذ میں کتنا وقت لگا تھا۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ پرویز مشرف نے 12اکتوبر1999کو اقتدار سنبھالا اور 2ماہ کے اندر نیب آرڈیننس نافذ ہوا۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ نیب آرڈیننس کانفاذ17نومبر1999کو ہوا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ افسوسناک امر ہے کہ 53سماعتیں چند ترامیم کے خلاف کیس سننے میں لگیں اورایک ماہ سے بھی کم وقت میں نیب آرڈیننس کا نفاذ ہوا۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پبجاب میں انتخابات کروانے کے حوالہ سے ایک رکنی بینچ نے فیصلہ دیا جس کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی زیرسماعت تھی،اس معاملہ پر سپریم کورٹ کے دوججز نے جن میں ویک وہ خود اوردوسرے جسٹس یحییٰ خان آفریدی شامل تھے نے درخواستیں خارج کرنے کاحکم دیا جس کے بعد جسٹس سید منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی خلاف فیصلہ دیا جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے کیس کی سماعت سے معذرت کر لی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر میں آج حکم دے کر بینچ سے الگ ہوجائوں تو کیااِس کو کہا جاسکتا ہے کہ وہ بینچ کاحصہ نہیں، ریاضی کے حساب سے3کے مقابلہ میں 4ججز کافیصلہ تھا، اگر جسٹس جمال خان مندوخیل کانقطہ نظر مان بھی لیاجائے توپھر 5رکنی بینچ کاآرڈر آف دی کورٹ کہاں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ ہر جج نے یہی کہاتھا کہ انتخابات 90روز کے اندرہونے چاہیں، سب ججز نے کہاانتخابات90روز کے اندر ہوں پھر بھی نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے اورجسٹس امین الدین خان نے جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ بیٹھ کر 12دن میں انتخابات کی تاریخ دلوادی تھی۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ منظورالہیٰ کیس کا چاررکنی بینچ کافیصلہ تھا اور بینظیر بھٹو کیس کافیصلہ اس وقت کے تمام موجودہ11ججزپر مشتمل فل کورٹ کا فیصلہ تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ مناسب کیسز میں اپنادائرہ اختیاراستعمال کرسکتی ہے، درخواست گزاروں کے 53دن اس کیس پر لگائے گئے میراخیال ہے اب آگے بڑھنا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کو نظرانداز کیا گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ قانون معطل کیا یابل معطل کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی آرڈر ہی نہیں تواس کی نظرثانی کیسے دائر ہوگی۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ سید منصورعلی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں اپنے اخلافی نوٹ میں کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ2023کے حواکلہ سے راجہ عامر خان کی جانب سے دائر کیس کافیصلہ نہیں ہوتایہ کاروائی غیرقانونی ہوگی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہاگر قانون صیح نہیں تواس کو کالعدم قراردے دیں، یہ بنیادی سوال ہے اس طرح ملک نہیں چل سکتا، کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی کاروائی کومعطل کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم قانون توڑیں یافوجی حکومت توڑے ایک جیسا ہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون سازی معطل، کیس نہیں سن رہے، ہم کب تک اپنے آپ کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں قانون کو معطل نہیں کرسکتا، قانون کوکالعدم قراردے سکتا ہوں، کیا ہم پارلیمنٹ کو جامد کردیں۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ راجہ عامر خان کیس کافیصلہ کرنا چاہیئے تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم قانون معطل نہیں کرسکتے کالعدم قراردے سکتے ہیں، اگر معطل کردیا توروزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے فیصلہ کرتے تاکہ لوگوں کو پتا چلے۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل2023کے تحت متاثرہ فریق نہیں کیسے اپیل دائر کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیاہم 15رکنی بینچ کے فیصلہ کی تشریح شروع کردیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ نمبر 1نوٹ کرلیں اورپھر جواب دیں۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ صدر مملکت نے بل اعتراض کے ساتھ واپس کیا جس کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاس کیا گیا، پی ٹی آئی کے سینیٹرز اورایم این ایز نے مخالفت نہیں کی۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ بل 166ارکان نے پاس کیا اور پی ٹی آئی کے سینیٹرز اورایم این ایز کی تعداد 183تھی اوراگروہ چاہتے توبل مسترہوسکتا تھا، پی ٹی آئی ارکان نے بائیکاٹ کیا ہواتھا۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے لئے ایوان کی کل تعداد کی دوتہائی اکثریت چاہیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا کوئی رکن اپنی پارٹی کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دے سکتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس حوالہ سے نظرثانی درخواست زیر التوا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوری کا کہنا تھا کہ کیااُس وقت اپوزیشن بائیکاٹ کررہی تھی۔ اس پر مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ بائیکاٹ کررہی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نارمل قانون سازی آرڈیننسز کے زریعہ کرلیں پھر پارلیمنٹ کو بند کردیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کیا کہنا تھا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ ارکان اسمبلی حکومت سے سوال پوچھیں کہ کیوں آرڈیننس کانفاذ ضروری ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وضاحت تودیں کہ منتخب پارلیمنٹ کی موجودگی میں آرڈیننس کانفاذ کیوں ضروری ہے، یہی مارشل لاء میں ہوتا ہے اوریہی آرڈیننسز میں ہوتاہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کی امریکہ میں صدر کے پاس اس طرح کی قانون سازی کے اختیارات ہیں، برطانیہ کی مثالیں ہم دیتے ہیں وہاں اس طرح کیوں نہیں ہوتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ صدر کوپوچھنا چاہیئے کہ اس میں کیاایمرجنسی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو خود آرڈیننس کو کالعدم قراردے سکتی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ یہ سیاستدانوں کااختیار ہے کہ وہ بل سے متفق ہیں کہ نہیں، یہ سیاسی نہیں بلکہ آئینی سوال ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سیاستدان عدالت آتے ہیں اور عدالت کومضبوط کرتے ہیں اورپارلیمنٹ کوکمزورکرتے ہیں، سیاستدان ہی پارلیمنٹ کو مضطوط کرسکتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرہمارے پاس سیاسی کیسز آنا بند ہوجائیں توہم دیگر کیسز سن سکیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں اگلے ہفتے دستیاب نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ مدعاعلیہ نمبر1بھی اڈیالہ جیل سے کہیں نہیں جارہے۔ اس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کااٹارنی جنرل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کیاآپ پراکسیز کے زریعہ ججز کودھمکارہے ہیں، کہہ رہے ہیں ججز کی پگڑیاں اچھا ل دیں گے،ججزنہ اس دھمکی میں آئیں گے اوراثرورسوخ کو مانیں گے۔ چیف جسٹس کاحکمنامہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ مدعا علیہ نمبر1عمران احمد خان نیازی ویڈیو لنک کے زریعہ اڈیالہ جیل سے پیش ہوئے، آئندہ سماعت پر بھی عمران خان کوپیش کرنے کے حوالہ سے اسی طرح کے انتظامات کئے جائیں۔ خواجہ حارث نے کہا ہے کہ وہ پیش ہونے کے حوالہ سے کوئی فیس نہیں لیں گے۔نیب پراسکیوٹر نے عدالتی سوالات پر جواب جمع کروادیا ہے۔ کیس کی سماعت کی آئندہ تاریخ کااعلان ججز کی دستیابی پر بعد میں کیاجائے گا۔ ZS
#/S