پاکستان پنشن سسٹم میں اصلاحات کرے،ایشیائی ترقیاتی بینک
فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ لاگت اگلے 10 سالوں میں 100 کھرب تک پہنچ جائے گی
پاکستان میں پنشن کا موجودہ نظام کم شراکت کی شرح کا شکار ہے جس کی وجہ سے یہ طویل عرصے تک چلنے کے لیے پائیدار نہیں
شراکت تب ہی پائیدار ہوسکتی ہے جب سب کو یکساں ریلیف فراہم کیا جائے اور یکساں عمر کی آبادی اس میں اپنا حصہ ڈالیں،سینئر ماہر اقتصادیات ایکو ککاوا
تبلیسی( ویب نیوز)
ایشیائی ترقیاتی بینک(اے ڈی بی)نے پاکستان کے پنشن سسٹم کے اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ لاگت اگلے 10 سالوں میں 100 کھرب تک پہنچ جائے گی۔ جارجیا میں میڈیا بریفنگ کے دوران ایشیائی ترقیاتی بینک کے سینئر ماہر اقتصادیات ایکو ککاوا نے کہا کہ پاکستان میں پنشن کا موجودہ نظام کم شراکت کی شرح کا شکار ہے جس کی وجہ سے یہ طویل عرصے تک چلنے کے لیے پائیدار نہیں ہے۔پاکستان کی پنشن سسٹم سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شراکت تب ہی پائیدار ہوسکتی ہے جب سب کو یکساں ریلیف فراہم کیا جائے اور یکساں عمر کی آبادی اس میں اپنا حصہ ڈالیں، اس کے لیے پرائیوٹ سیکٹر کو شراکت کے اعتبار سے پبلک سیکٹر کے ساتھ ضم کرنے کی ضرورت ہے۔خیال رہے کہ مالی سال 2024 میں قومی پنشن کی لاگت 20 کھرب تک پہنچنے کی توقع ہے اور اگر اس سسٹم میں کسی قسم کی اصلاحات نہیں کی گئی تو یہی لاگت اگلے 10 سالوں میں 100 کھرب تک پہنچ جائے گی، یہ لاگت 2002-03 میں 25 ارب تھی جو صرف 20 سالوں میں 15کھرب سے زائد تک پہنچ گئی۔اے ڈی بی کی ایک سابقہ رپورٹ (پاکستان کے پنشن اور انشورنس سسٹم کو مضبوط کرنا)، میں پاکستان کے کمزور پنشن اور سیکیورٹی سسٹم کی نشاندہی کی گئی تھی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر سرکاری عہدوں پر غیر فنڈ شدہ پنشن شامل ہیں، اور موجودہ ملازمین کی پنشن کی مالی اعانت ٹیکس آمدنی سے کی جاتی ہے۔دوسری جانب نجی شعبے کے بعض کارکنوں اور مزدور یونینوں کے اراکین کے لیے فنڈڈ پنشن دستیاب ہیں تاہم، آبادی کا ایک اہم حصہ پنشن کی کوریج سے محروم ہے اور ان کا مکمل انحصار اپنے خاندان کی سپورٹ سسٹم پر ہوتا ہے۔