پھر آپریشن کا کہا جارہا، ریاست کے معاملات عجلت سے طے نہیں ہوتے: فضل الرحمان
 عزم استحکام میرا درد سر نہیں، میں اب حکومت کو نہیں ملک کو مشکل سے نکالنا چاہتا ہوں،پریس کانفرنس

پشاور( ویب  نیوز)

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی جانب سے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عزم استحکام کو قبائلی جرگے نے بھی عدم استحکام قرار دیا ہے اور اس پر عدم اعتماد کیا ہے۔پشاور میں قبائلی جرگے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ یہ جرگہ عزم استحکام آپریشن سے قبل بلایا گیا تھا اور جرگے کے ایجنڈے پر عزم استحکام آپریشن شامل نہیں تھا، تاہم جرگے نے عزم استحکام کو عدم استحکام قرار دیا اور اس عدم اعتماد کیا۔انہوں نے کہا کہ مسلح گروپوں کے لوگ کئی علاقوں تک پھیل چکے ہیں، مسلح گروپ ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں اور ناکے لگاتے ہیں، جنوبی اضلاع میں پولیس رات کے وقت تھانوں سے باہر نہیں آتی۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سوات کے لوگوں نے قربانی دی گھر بدر ہوئے، نوجوان بیروزگار ہوچکے ہیں اور خواتین بھیگ مانگ رہی ہیں، مکمل تباہ مکان کے لیے 4 لاکھ روپے ٹوکن کے دیے گئے ابھی تک وہ پیسے نہیں ملے۔ان کا کہنا تھا کہ قبائلیوں کی چادر چاردیواری اور معاشی قتل کیا گیا، باڑ لگایا گیا اور 20 سے 30 ہزار لوگ سرحد پار گئے اور پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوکر لوگ واپس آئے۔سربراہ جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ امن وامان کے حوالے سے صورتحال بہت گھمبیرہے، مسلح لوگ کئی علاقوں میں پھیل چکے ہیں،مغرب کے بعد ہمارے جنوبی اضلاع میں پولیس تھانوں میں محصورہوکررہ جاتی ہے، سوات سے لیکروزیرستان تک لوگوں نے بہت قربانیاں دیں، جنگ کے دوران قبائلی لوگوں کوبھیک مانگنے پرمجبورکردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ تباہ حال فاٹا میں لوگوں کے گھرتباہ ہوچکے ہیں، فاٹا کے عوام کا معاشی،عزت نفس کا بھی قتل کیا گیا، ایک بارپھراعلان ہوتا ہیکہ پھرآپریشن کریں گے، ایک دفعہ آہنی باڑلگائی گئی کہ کوئی افغانستان نہ جاسکے، ہرفیصلہ اشتعال کی بنیاد پرکیا گیا۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کبھی ریاستوں کے معاملات عجلت سے طے نہیں ہوتے، ریاست کے معاملات دھمکیوں سے طے نہیں ہوتے، ملک میں دہشت گردی کیواقعات ہورہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ سے لوگ جب دہشت گردی واقعات کا پوچھتے ہیں توکہتے ہیں افغانستان سے آرہے ہیں۔سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ افغانستان سے ایک کمٹمنٹ لے کر آیا تھا اور مسلح تنظیموں کو پرامن راستہ دینے پر اتفاق ہوا تھا ، آج فاٹا کے جرگہ نے ساری صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ، ہمیں اس بارے میں میکزم بنانا ہوگا، افغانستان کا استحکام پاکستان کیلئے فائدہ مند ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اورافغانستان کے عوام کی امیدوں کوخاکسترکیا جارہا ہے، ہم توپورے پاکستان کوامارات اسلامیہ بنانا چاہتے ہیں، مشرف اوراس کا تسلسل یہ ہے ہمارے حکمران، اب حکومت اوراپوزیشن سائیڈ بھی ہائبرڈ ہے، فیصلے کون کرتا ہے؟ عزم استحکام کے اعلان نے کنفوژن پیدا کردی ہے، عزم استحکام کی بسم اللہ ہی عدم استحکام سے ہوگئی، ہم ملک کومشکلوں سے نکالنا چاہتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ عزم استحکام کے حوالے سے جوپارلیمنٹ انہوں نے بنائی اس کوبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا، آپریشن کی ماضی کی روایات توناکامی کے سوا کچھ نہیں، اسد قیصرجب رابطہ کریں گے توپھربات کروں گا، جن کیلیے سب کچھ کیا گیا وہ بھی یہ کہنے پرمجبورہوگئے،شاید ضرورت سے زیادہ ہوگیا۔جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایران سے دوستی ہوسکتی ہے توافغانستان سے کیوں نہیں،جس کوآپ حکومت کہتے ہیں میں اس کوحکومت نہیں کہتا۔مولانا فضل الرحمان نے آخر میں قبل ازوقت الیکشن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تودوبارہ الیکشن چاہتا ہوں جس میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہ ہو،سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ایران سے دخل اندازی ہو تو معاملات ایک ہفتے میں ٹھیک ہوجاتے ہیں، ایسا رویہ افغانستان کے ساتھ کیوں نہیں۔انہوں نے کہا کہ 1980 سے لے کر افغانستان کا چپہ چپہ خون سے رنگا ہے، افغانستان کو کیوں مستحکم ہونے نہیں دیا جا رہا ہے، پھر معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی ایجنڈے پر عمل کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مسلح تنظیموں کو پرامن  راستہ دینے کا فیصلہ ہوا تھا، ہم تو آئین و قانون کے تحت پاکستان کو امارات اسلامیہ بنانا چاہتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میرے ملک میں حساسیت موجود ہے، ملاکنڈ میں صوفی محمد کی تحریک سے اختلاف نہیں تھا لیکن طریقہ کار ٹھیک نہیں تھا، عزم استحکام میرا درد سر نہیں، میں اب حکومت کو نہیں ملک کو مشکل سے نکالنا چاہتا ہوں