دو بارہ ڈبے کھل کر گنتی ہوجائے تومسئلہ کیا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
7ہزارسے زائد ووٹ مسترد ہوئے ، جیتنے والے امیدوارہوسکتا ہے اورزیادہ مارجن سے دوبارہ گنتی میں جیت جائیں گے
کیسے ہائی کورٹ رٹ اور انٹراکورٹ اپیل کادائرہ اختیار استعمال کرسکتی ہے
اگر ہر وکیل 55گھنٹے دلائل دے گا توپھر توسپریم کورٹ چوپٹ ہو جائے گی پھر توکوئی کام ہی نہیں ہوگا
دوبارہ گنتی کے معاملے پردائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس
اسلام آباد(ویب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154لودھراں میں دوبارہ گنتی کے معاملے پردائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ اس بات کی حوصلہ افزائی کررہی ہے کہ دوبارہ گنتی نہ ہو، وکیل کہہ دے گا امن اومان کی صورتحال پیدا کردوتاکہ دوبارہ گنتی نہ ہوسکے، کیوں دوبارہ گنتی سے خوفزدہ ہیں، خطرہ کیا ہے۔ جیتنے والا فریق ہمیشہ چاہے گا کہ امن وامان کی صورت پیدا ہو ، وہ توکہے گادوبارہ گنتی کرواکے دکھائو۔دو بارہ ڈبے کھل کر گنتی ہوجائے تومسئلہ کیا ہے، 7ہزارسے زائد ووٹ مسترد ہوئے ، جیتنے والے امیدوارہوسکتا ہے اورزیادہ مارجن سے دوبارہ گنتی میں جیت جائیں گے۔ کیسے ہائی کورٹ رٹ اور انٹراکورٹ اپیل کادائرہ اختیار استعمال کرسکتی ہے۔ اصولاً ایک پارٹی کودوبارہ نہیں سننا چاہیئے، ایسے توکوئی کیس ختم ہی نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے پاس ہزاروں امیدواروں کے کیسز ہیں، سیدھا سیدھا بتائیں کی الیکشن کمیشن کی کیا بدنیتی ہے،دوبارہ گنتی کروالیں، میں آراوکے اور لاہور ہائی کورٹ کے آرڈر سے متاثر نہیں ہوں، قانون میں ہرچیز رکھی ہے اُس کوڑادیں، یا توکہیں کہ سیدھا سیدھا الیکشن ٹربیونل جائیں۔ اگر ہر وکیل 55گھنٹے دلائل دے گا توپھر توسپریم کورٹ چوپٹ ہو جائے گی پھر توکوئی کام ہی نہیں ہوگا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمدعباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 154لودھراں، این اے 81اوراین اے 79گوجروانوالہ اور پی پی 133ننکانہ صاحب پر دوبارہ گنتی کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے احکامات کو لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کی جانب سے کالعدم قراردینے کے حکم کے خلاف پاکستان مسلم (ن)کے امیدواروں عبدالرحمان خان کانجو، چوہدری ذوالفقار احمد بھنڈر،چوہدری اظہر قیوم ناہرااوررانا محمد ارشد کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان ، چوہدری بلال اعجاز، محمد عاطف اوردیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ عبدالرحمان خان کانجواور دیگر کی جانب سے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر محمد شہزاد شوکت، شیخ عثمان کریم الدین، محمد عمر ریاض اوردیگر وکلاء پیش ہوئے جبکہ مدعا علیحان کی جانب سے سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ، میاں عبدالرائوف ایڈووکیٹ ، وقار احمد رانا اوردیگر وکلاء پیش ہوئے۔ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد اورالیکشن کمیشن کے دیگر حکام بھی دوران سماعت کمرہ عدالت میں موجودتھے۔ (ن)لیگی رہنما اظہر قیوم ناہرا اور رانا محمد ارشد بھی دوران سماعت عدالت میں موجود تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ دوبارہ گنتی چاہتے ہیںیا نہیں چاہتے۔ اس پر درخواست گزار کے وکیل شہزاد شوکت کا کہنا تھا دوبارہ گنتی چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا مدعا علیحان دوبارہ گنتی نہیں چاہتے اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو برقراررکھنا چاہتے ہیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کا کہناتھا نتائج آنے کے بعد دوبارہ گنتی کاحکم ہوا۔ چیف جسٹس نے مدعا علیحان کے وکلاء کو ہدایت کہ وہ بیٹھ جائیں اور شہزادشوکت دلائل کاآغاز کریں۔شہزادشوکت کا کہنا تھا کہ الیکشنز ایکٹ 2017کی شق 95کے مطابق اگر ہارنے اور جیتے والے امیدوار کے درمیان 5فیصد سے کم ووٹوں کا فرق ہویا قومی اسمبلی کے حلقہ میں 8ہزار سے کم اورصوبائی اسمبلی کے حلقہ میں 4ہزار سے کم ووٹوں کا فرق ہو تودوبارہ گنتی ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کس بنیاد پر دوبارہ گنتی رکوانے کی درخواست کی گئی، درخواست دکھائیں کیا گرائونڈ ہے۔ شہزاد شوکت کاکہناتھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا 22فروری2024اور25فروری2024کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کب تک کرسکتا ہے ڈیڈ لائن اور ٹائم لائن کیا ہے۔ چیف جسٹس کا شہزاد شوکت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے دوبارہ گنتی کی درخواست کب دی۔ اس پرشہزادشوکت کا کہنا تھا کہ 9فروری کو درخواست دی، میری درخواست پر ریٹرننگ آفیسر 10فروری تک توجہ نہیں فرماتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کی درخواست آگئی دوبارہ گنتی نہیں کی۔ شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ آر اونے فیصلے میں کہا کہ مصروفیت کی وجہ سے توجہ نہیں دی۔ شہزاد شوکت کاکہنا تھا کہ 22فروری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہماری درخواست پر دوبارہ گنتی کاحکم دیا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہائی کورٹ کے حکم پر آئیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان کے الیکشن کمیشن کے آرڈر کے خلاف ہائی کورٹ جانے تک دوبارہ گنتی ہوگئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ دوبارہ گنتی کاآرڈر شارڈر کدھر ہے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کا کہنا تھا کہ کیا ریٹرننگ آفیسر نے دوبارہ گنتی کی تھی اور پھر معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجا۔ اس پر شہزاد شوکت کاکہنا تھا کہ جی بھیجا تھا۔ شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ پولنگ بیگز کے سیل ہونے اوردوبارہ گنتی پر کسی نے اعتراض نہیںکیا۔ شہزادشوکت کا کہنا تھا کہ دوبارہ گنتی میں عبدالرحمان کانجو نے 1لاکھ27ہزار984ووٹ لئے جبکہ آزا دامیدوار رانا فرازخان نون نے 1لاکھ20ہزار687ووٹ لئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رٹ پیٹیشن کب دائر ہوئی۔ اس پر شہزادشوکت کا کہنا تھا کہ 27فروری کو۔ جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ جیتنے والے امیدوارکودوبارہ گنتی سے قبل نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ شہزاد شوکت کا کہناتھا کہ 27فروری کو الیکشن کمیشن کے سامنے نظرثانی درخواست دائر کی گئی۔ شہزا د شوکت کا کہنا تھا کہ رٹ پیٹیشن لاہور ہائی کورٹ کے بہاولپور بینچ میں دائر کی گئی۔ جسٹس عقیل احمدعباسی کاکہنا تھا کہ طے شدہ قانون ہے کہ الیکشن کے حوالہ سے تمام معاملات کا فیصلہ الیکشن ٹربیونلز کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب درخواست آگئی تو ریٹرننگ افسر نہیں کہہ سکتا کہ میں نہیں کرتا ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے الیکشنز ایکٹ2017 کے سیکشن 95کی کیسے تشریح کی دکھائیں۔ شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے قراردیا کہ دوبارہ گنتی کی درخواست مقررہ وقت کے اندر دائر نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس کا شہزاد شوکت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کی بات سمجھ گئے ہیں، کیا اب ہم دوسری سائیڈ کو سنیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ الیکشنز ایکٹ2017 کے سیکشن 95-6کے تحت نتائج تیار کرنے سے قبل دوبارہ گنتی کا نوٹس آراونے جیتنے والے امیدوارکودیناتھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جیتنے والا فریق ہمیشہ چاہے گا کہ امن وامان کی صورت پیدا ہو ، وہ توکہے گادوبارہ گنتی کرواکے دکھائو۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر مدعاعلیحان کے وکلاء کو ہدایت کی کہ وہ دلائل دیں۔چیف جسٹس نے رانا فراز خان نون کے وکیل میاں عبدالرائوف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ زبانی فیکٹس بتائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آر اونے 10فروری کوفیصلے میں لکھا کہ 9فروری کودوبارہ گنتی کی درخواست موصول ہوئی تھی، کیا وہ فیصلہ کرنے میں 6دن لگائے گا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ نتائج تیار کرنے کے بعد دوبارہ گنتی کی درخواست دائر ہوئی، آراونے دوبارہ گنتی کی درخواست خارج کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ناقابل سماعت ہونے کی وجہ بتادیں۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ آراونے وجہ نہیں بتائی۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پڑھیئے ، ذرہ جلدی کریں، آگے بڑھیئے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ اگر 10فروری کوآر اونے دوبارہ گنتی کی درخواست مستردکردی تھی تو پھر انہوں نے ریجنل الیکشن کمشنر ملتان سے ووٹوں کاریکارڈ کیوں مانگا اوراس حوالہ سے خط وکتابت کیوں کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوبارہ گنتی ہوجانی چاہیئے یہ درخواست گزار کا کیس ہے اس کا جواب دے دیں۔ چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ نتائج تیار کرنے کا آر اوکا نوٹس دکھائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر نوٹس نہیں بھیجا تو پھر آراونے الیکشنز ایکٹ2017 کے سیکشن 95-1پر مناسب طریقہ سے عمل نہیں کیا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ گنتی کے لئے پولنگ ایجنٹس کو نوٹس دینا تھا اور اگر دوبارہ گنتی کی درخواست آئی ہے تواس نے دوبارہ گنتی بھی کرنی ہے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے حساب سے الیکشنز ایکٹ2017 کاسیکشن 95-5بیکار ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 95-5کا مقصد کیا ہے یہ بتادیں، پھر اس سیکشن کوڈیلیٹ ہی کردیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فریقین کے اتفاق رائے سے ہم دوبارہ گنتی کاکہہ دیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آر اوکامتضاد مئوقف ہے، ابہام پیدا ہوگیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ اس بات کی حوصلہ افزائی کررہی ہے کہ دوبارہ گنتی ہو ہی نہیں، وکیل کہہ دے گا امن اومان کی صورتحال پیدا کردوتاکہ دوبارہ گنتی نہ ہوسکے، کیوں دوبارہ گنتی سے خوفزدہ ہیں، خطرہ کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کتنے بجے کس تاریخ کو نتیجہ تیار ہوا ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ 9تاریخ کوہوا تاہم وقت نہیں لکھا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ قانون آپ لوگ بناتے ہیں، درخواست آئی تودوبارہ گنتی کروادے، درخواست پر یہ لکھ دیتا کہ نتیجہ تیار کرچکا ہوں آپ بہت لیٹ ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آراوسیدھی طرح کیوں نہیں کہہ رہا کہ نتیجہ تیارہوگیا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ یہ آرڈر 10فروری کوکررہا ہے، آر اونے10فروری کو ریجنل الیکشن کمشنر ملتان کو درخواست میں لکھا کہ 9فروری کو درخواست آئی ، اس کے لئے لازم ہے کہ دوبارہ گنتی کرے، وہ درخواست رکھ کر بیٹھ گیا۔ وکیل کا کہناتھا کہ آر اوکودرخواست 9فروری کو ہی مسترد کردینی چاہیئے تھی۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کا کہنا تھا کہ ہم نے قانون کی سپرٹ کو دیکھنا ہے، اسکیم آف لاء پرعمل ہونا چاہیئے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا الیکشن ٹربیونل دوبارہ گنتی کاحکم دے سکتا ہے۔ اس پر وکیل میاں عبدالرائوف کا کہنا تھا کہ دے سکتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مجھے وہم ہے، کیوں انتے خوفزدہ ہیں ، ڈبوں کو کوئی اِدھر اُدھر نہیں کرسکتا۔ جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ ٹائمنگ اور آراوکی خط وکتابت شکوک پیداکررہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ہر آدمی تین، تین گھنٹے کیس چلائے گاتوہم پھر کوئی کیس چلاہی نہیں سکیں گے، کیا ہم ہردن 5بجے تک بیٹھیں۔ وکیل کا کہناتھا کہ رانا فرازخان نون کی کامیابی کانوٹیفیکیشن 16فروری کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیا گیا، 14کو یہ الیکشن کمیشن گئے، الیکشن کمیشن نے آر سے رپورٹ منگوائی، 20فروری کو الیکشن ٹربیونلزقائم ہو گئے۔ چیف جسٹس نے وکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیاآپ نے اپنا کیس تباہ نہیں کرلیا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کیسے ہائی کورٹ رٹ اور انٹراکورٹ اپیل کادائرہ اختیار استعمال کرسکتی ہے، آپ خود الیکشن ٹربیونل بننے کے بعد ہائی کورٹ گئے، 5مارچ 2024کا رٹ پیٹیشن کاآرڈر غیر قانونی ہے پھر انٹراکورٹ اپیل بھی غیر متعلق ہوگئی۔ چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ کیاآپ کی رٹ قابل سماعت تھی۔ اس پر وکیل کاکہناتھا کہ قابل سماعت تھی۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ جو کہہ رہے ہیں وہ متضاد بات ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون آپ کو دادرسی نہیں دینا چاہتا بات ختم۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میراحق ہے میں نے تین گھنٹے دلائل دینا ہیں، ذرہ سا ہمارا احترام کرلیں،آپ نے حامد خان کے لئے کچھ چھوڑا ہی نہیں، خان صاحب ! آجایئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اصولاً ایک پارٹی کودوبارہ نہیں سننا چاہیئے، ایسے توکوئی کیس ختم ہی نہیں ہوگا۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ میں نے حقائق واضح کرنا ہیں۔ چیف جسٹس کا عدالت میں لگے وال کلارک کی جانب دیکھتے ہوئے کہنا تھا کہ عدالت کے ختم ہونے کا وقت آگیا ہے۔ حامد خان کا کہناتھا کہ عام انتخابات میں رانا فرازخان نون نے 1لاکھ 34ہزار937ووٹ لئے، جبکہ عبدالرحمان خان کانجو نے 1لاکھ 28ہزار435ووٹ لئے،رانا فراز نون 6502 ووٹوں سے جیتے جبکہ 7803ووٹ مسترد ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ بات درخواست گزاروں کی بات میں وزن نہیں ڈالتی کہ اتنے ووٹ مسترو ہوگئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا آر اونے دوبارہ گنتی کی درخواست مستردکرنے کی کوئی وجہ نہیں لکھی۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ آراوکی جانب سے دوبارہ گنتی کروانے کی درخواست خارج کرنے کا معاملہ کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوبارہ ڈبے کھل کر گنتی ہوجائے تومسئلہ کیا ہے، 7ہزارسے زائد ووٹ مسترد ہوئے ، جیتنے والے امیدوارہوسکتا ہے اورزیادہ مارجن سے دوبارہ گنتی میں جیت جائیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا نتائج تیار ہونے کے بعد الیکشن کمیشن دوبارہ گنتی کاحکم دے سکتا ہے۔ اس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ الیکشنز ایکٹ 2017کے سیکشن 95-6کے تحت نہیں دے سکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آراوقانون سے زیادہ طاقتور ہے ، آراونے درخواست آنے پر دوبارہ گنتی کروانی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آراوکہیں بھی نہیں کہتا کہ میں نتائج تیار کرچکا ہوں، آراوقانون کے تحت پابند تھے کہ درخواست پر فیضلہ کرتے۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ الیکشن ٹربیونل بننے کے بعد جومعاملہ بھی کرنا ہے وہ الیکشن ٹربیونل نے کرنا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ہزاروں امیدواروں کے کیسز ہیں، سیدھا سیدھا بتائیں کی الیکشن کمیشن کی کیا بدنیتی ہے،دوبارہ گنتی کروالیں، میں آراوکے اور لاہور ہائی کورٹ کے آرڈر سے متاثر نہیں ہوں، قانون میں ہرچیز رکھی ہے اُس کوڑادیں، یا توکہیں کہ سیدھا سیدھا الیکشن ٹربیونل جائیں۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ سننا چاہتے ہیں توسنیں ہمیں الیکشن کمیشن نے اس حال میں پہنچایاہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے سوالوں کے جواب دیں جن باتوں سے ہم اتفاق کرتے ہیں ان کوچھوڑ دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تکرارکررہے ہیں، ہم کچھ کہتے ہیں تووکیل ناراض ہوجاتے ہیں، اب پہاڑ کیسز کابڑھتا ہی جائے گااور ہم اس کے نیچے دب جائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیکشن 95-5کے حوالہ سے کوئی بات ہے توبتادیں۔ حامد خان کاکہناتھا کہ الیکشن کمیشن کا 22فروری کادوبارہ گنتی کاحکم غیر قانونی تھا۔ جسٹس عقیل عباسی کاحامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ معذرت کے ساتھ آپ کو تھوڑا پڑھ کرآنا چاہیئے تھا۔ چیف جسٹس کاحامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کے خیال میں انٹراکورٹ اپیل قابل سماعت ہے کہ نہیں۔ اس پر حامد خان کاکہناتھا کہ قابل سماعت ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ اور ڈویژن بینچ نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن کادوبارہ گنتی کاحکم بغیر دائرہ اختیار کے تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سماعت پرسوں تک ملتوی کردیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ اگر ہر وکیل 55گھنٹے دلائل دے گا توپھر توسپریم کورٹ چوپٹ ہو جائے گی پھر توکوئی کام ہی نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس سے دیگر منسلک کیسز میں پیش ہونے وکلا کو آئندہ سوموار کے روز سنیں گے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ سوموار تک ملتوی کردی۔#/S
#/S