آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالتۖ کانفرنس نے قادیانی مبارک ثانی کیس میں عدالتی فیصلہ آئین، شریعت کے منافی قراردے دیا۔
فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے نظرثانی کا مطالبہ کردیا گیا ۔
فیصلہ کا پارلیمینٹ نوٹس لے ، ججوں کے خلاف حکومت جوڈیشل کونسل ریفرنس بھیجے۔مشترکہ اعلامیہ
آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے بھی متعلقہ ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کیا جائے گا ۔مولانا فضل الرحمان
اسلام آباد ( ویب نیوز)
آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالتۖ کانفرنس نے قادیانی مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو آئین، قانون، شریعت کے منافی قراردے دیا، فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا، فیصلہ کا پارلیمینٹ نوٹس لے ، حلف کے برعکس متنازعہ فیصلہ کرنے والے ججوں کے خلاف حکومت فوری سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجیں،اے پی سی بھی ان ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرے گی ۔ یہ مطالبات اور اعلانات مشترکہ اعلامیہ میں کئے گئے ہیں ۔کانفرنس کی صدارت سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کی ۔ منگل کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتۖ پاکستان کے زیر اہتمام کانفرنس منعقدہوئی۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ یہ نمائندہ دینی قومی اجتماع پاکستان کو درپیش سیاسی انتظامی معاشی دینی تہذیبی مسائل و مشکلات پر شدید اضطراف اور بے چینی کا اظہار کرتا ہے،سمجھتا ہے کہ قومی معاملات میں مسلسل بیرونی دخل اندازی اور دستورِ شریعت کے ناگزیر تقاضوں سے صرفِ نظر کا یہ منطقی نتیجہ ہے جو موجودہ قومی خلفشار اور مختلف النوع بحرانوں کی صورت میں پاکستانی قوم کے لیے وبال جان بنتا جا رہا ہے جبکہ آج بھی اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ بیرونی مداخلت سے آزادی اور خود مختاری کی بحالی اور دستورِ شریعت کی بالادستی میں ہے۔ قوم کے تمام طبقات سیاسی و عمومی حلقوں اور تمام ریاستی اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ یہ نمائندہ قومی و دینی اجتماع ان قومی مقاصد کے حصول کے لیے عزم نو اور ہمہ گیر قومی جدوجہد کو وقت کی اہم ضرورت سمجھتا ہے۔ بالخصوص پاکستان کے نظریاتی اور ثقافتی تہذیبی شناخت کا تحفظ اور دستور کے مطابق ملی مسائل مثلاً دستور کی اسلامی دفعات کے عملداری، عقیدہ ختم نبوتۖ اور ناموس رسالتۖ کے پاسداری اور شرعی قوانین و روایات کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے تمام دینی و سیاسی حلقوں قومی طبقات اور ریاستی اداروں کا کردار ضروری ہے اس معاملے میں اداروں اور طاقتوں کی طرف سے پاکستان کے دستور و قانون کے بارے میں یکطرفہ موقف کا بار بار اظہار اور اس کے لیے سیاسی معاشی اور بیرونی دباؤ پاکستانی قوم کے عقیدے و ایمان اور حمیت و اہمیت کو چیلنج کرنے کی حیثیت رکھتا ہے، قومی اداروں کے اس دباؤ سے مرعوب ہو کر عقیدہ ختم نبوتۖ اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور شرعی قوانین اور تہذیبی روایات کے بارے میں اپنے فیصلوں میں ابہام پیدا کرنا قومی تقاضوں کے یکسر منافی ہے جس کا پوری قوم کو متحد ہو کر سامنا کرنا ہوگا۔ اس کی تازہ ترین مثال قادیانی مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جس میں آئین، قانون، شریعت، ملی تقاضوں اور قومی جذبات و احساسات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے شہری حقوق کے نام سے قادیانیوں کے لیے سہولت کاری کا ماحول پیدا کیا گیا ہے حالانکہ قادیانیوں نے دستور و قانون کے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کر رکھا ہے، بجائے خود دستور کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور اس کا نوٹس لینا اعلی عدالتوں کی بہرحال ذمہ داری ہے چنانچہ یہ اجتماع عدالت عظمی کے مذکورہ فیصلے کو غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر شرعی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اس فیصلے کو ازخود نظر ثانی کر کے دینی اور قومی تقاضوں اور دستور و قانون کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور قادیانیوں کو دستور و قانون کا پابند بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کا اہتمام کیا جائے۔ یہ اجتماع تمام دینی و سیاسی جماعتوں، ارکانِ پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ تحفظ ختم نبوتۖ اور تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے پیدا کیے جانے والی ابہامات اور کنفیوژن کا فوری نوٹس لے کر ملک کی اسلامی شناخت اور مسلم امت کے عقیدہ کے پاسداری میں اپنا کردار ادا کرے۔ آل پارٹیز کانفرنس کا متفقہ اعلان ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس امر کو تسلیم کریں کہ قادیانی مبارک احمد کیس میں اس کے فروری اور جولائی 2024 کے فیصلے متنازع ہیں، اس فیصلے کو قرآن و سنت اور آئین کے مطابق کرنے کے لیے چیف جسٹس آئین کے مطابق از خود انتظام کرے اور فیصلہ درست کرے۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس اور تمام اسلامی قوانین کی حفاظت کے لیے ہر قدم اٹھایا جائے گا اور اسلامی قوانین اور شعائر اسلام کی ہر قیمت پر تحفظ کی جائے گی۔ سات ستمبر 1974 آئین پاکستان میں تحفظ ختم نبوتۖ کے آئینی ترمیم کے 50 سال مکمل ہونے پر 7 ستمبر 2024 لاہور مینار پاکستان پر ختم نبوتۖ کانفرنس ملت اسلامیہ پاکستان کی متفقہ مشترکہ تاریخ ساز کانفرنس ہوگی، جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 7 ستمبر 2024 کو لاہور مینار پاکستان پر جو ایک ملک گیر اجتماع ہوگا اور جس میں 7 ستمبر 1974 کی ترمیم کی یاد منائی جائے گی، اسے یوم الفتح کے طور پر منایا جائے گا، میں واضح اعلان کرتا ہوں کہ اس کے بعد پھر ہم مزید اگلے اقدام کا فیصلہ کریں گے ممکن ہے یہ کانفرنس جو وہاں منعقد ہوگی وہ ایک بحر بے کنار ہوگی لیکن اسی سے ہی ایک ایسا سیلاب اٹھے گا جو پھر ملک میں ان قوتوں کو بہا کر لے جائے گا اور یہ ہم سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں، ہمارے تمام ادارے ہمارے اس فیصلے کو سنجیدگی سے اس کا نوٹس لیں، عدالت اس کا نوٹس لے، عدالت مادر پدر آزاد نہیں ہیں! وہ قرآن و سنت کی پابند ہے، وہ آئین پاکستان کی بھی پابند ہے، وہ قانون کی بھی پابند ہے اور اس کی پابندی کرتے ہوئے اپنے خیالات و نظریات اور اپنے اندر کا جو خبث باطن ہے اس کی بنیاد پر ہمیں اپنے نظریات ہمارے اوپر مسلط نہ کریں نہ ہم ان کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ غیر آئینی، غیر قانونی،غیر شرعی اور اپنے حلف کے برعکس متنازعہ فیصلہ کرنے والے ججوں کے خلاف حکومت پاکستان فوری طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجیں۔ نیز آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے بھی ان ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کیا جائے گا۔ آل پارٹیز کانفرنس،پارلیمانی کمیٹی کو مشترکہ موقف سے آگاہ کر رہی ہے۔کانفرنس جس کی صدارت سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کی میں نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ ، ناظم اعلی وفاق المدارس العربیہ مولانا محمد حنیف جالندھری ، سربراہ جے یو پی مولانا ابو الخیر زبیر ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ۖ کے امیر مولانا محمد ناصر الدین ، جے یو آئی ( س ) کے سربراہ مولانا حامد الحق مولانا عبد الغفورحیدری اور دیگر شریک ہوئے ۔