قانون کے تحت بنائے گئے کسی بھی ٹربیونل کو اپنے حکم پر عمل کروانے کااختیار بھی حاصل ہے جسٹس سید منصورعلی شاہ
کلیکٹر آف کسٹمز(ایڈجوڈیکیشن)، کسٹم ہائوس، لاہوراوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سپریم کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے قراردیا ہے کہ قانون کے تحت بنایا گیا کوئی بھی ٹربیونل جس کو کسی تنازعہ کا فیصلہ کرنے اورحکم جاری کرنے کااختیاردیا گیا ہو اسے اپنے حکم پر عمل کروانے کااختیار بھی حاصل ہے۔ اگر مخصوص طورپر حکم پر عملدرآمد کروانے کے حوالہ سے اختیار کاقانون میں ذکرنہ بھی کیا گیا ہوتو بھی یہ تصورکیا جائے گاکہ ٹربیونل کے پاس یہ اختیار موجود ہے۔ کسٹمز ایپلٹ ٹربیونل کو کسٹمز ایکٹ 1969کے سیکشنز 194-Aاور194-Bکے تحت اپیل کے دائرہ اختیار کواستعمال کرتے ہوئے دیئے گئے احکامات پر عملدرآمد کروانے کااختیار حاصل ہے۔ قانون میں مناسب دادرسی فراہم کی گئی ہے لہذا ٹربیونل کے پاس کردہ احکامات پر عملدرآمد کروانے کے لئے ہائی کورٹ کی رٹ کواستعمال کرنے کادائرہ اختیار استعمال نہیں ہوسکتا۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاداحمدخان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے خالد المعروف محمد خالد اوردیگر کی جانب سے کلیکٹر آف کسٹمز(ایڈجوڈیکیشن)، کسٹم ہائوس، لاہوراوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر9اگست2024کوسماعت کی تھی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کی جانب سے پانچ صفحات پر مشتمل کیس کاتحریری فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے عبدالرحمان خان بطور وکیل پیش ہوئے تھے جبکہ مدعاعلیحان کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ محمد شفقت عباسی، سپرنٹنڈنٹ کسٹمز انفورسمنٹ، لاہور سلیم احمد ملک، لیگل ایڈوائزرایف بی آر حوریا فاطمہ اوردیگر حکام پیش ہوئے تھے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس کیس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا کسٹمز ایپلٹ ٹربیونل کے پاس اپیل کادائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے اپنے جاری کردہ احکامات پر عملدآمد کروانے کااختیار ہے کہ نہیں یا اس مقصد کے لئے ہائی کورٹ کے رٹ کے دائرہ اختیار کواستعمال کرنا پڑے گا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسٹمز کلیکٹوریٹ(انفورسمنٹ)لاہور نے درخواست گزارنمبر3اور2عمر فاروق اورمسرت شاہین سے مبینہ طورپر سونے کی مخصوص مقداراورسونالے جانے والی گاڑی قبضہ میں لی ۔ دوران تفتیش درخواست گزار نمبر 1محمد خالد نے سونے کی ملکیت کادعویٰ کیاا ور کہا عمرفاروق اس کا نمائندہ ہے جو کہ فیصل آباد میں اُس کی دوکان پر سونا چھوڑنے جارہا تھا۔ تینوں درخواست گزاروں پر کسٹمز ایکٹ اور امپورٹس اینڈایکسپورٹس (کنٹرول)ایکٹ 1950کی متعد شقوں کی خلاف ورزی پرفرد جرم عائد کی گئی۔ کلیکٹر آف کسٹمز (ایڈجوڈیکیشن)، لاہور نے 29نومبر 2021کو اپنے حکمنامہ کے زریعہ سونااور کار ضبط کرنے کاحکم دیا تاہم جرمانے کی مخصوص رقم کی ادائیگی پر کار واپس کرنے کاحکم دیا۔ درخواست گزاروں نے اس حکم کو کسٹمز ایکٹ 1969کے سیکشنز 194-Aاور194-Bکے تحت ایپلٹ ٹربیونل میں چیلنج کیا۔ ٹربیونل نے 20دسمبر2020کو اپنے فیصلے میں اپیل کو جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے سونے کے وہ زیورات جو غیر ملکی ساخت کے نہیں تھے وہ غیر مشروط طور پر واپس کرنے کاحکم دیا۔ ٹربیونل نے کسٹمز کے تخمینہ کے مطابق گاڑی کی 20فیصد رقم کی ادائیگی پر گاڑی اصل مالک کے حوالہ کرنے کاحکم دیا۔ ٹربیونل نے کلیکٹر (ایڈجوڈیکیشن)کی جانب سے غیر ملکی سونے کو ضبط کرنے کاحکم برقراررکھا۔ دونوں درخواست گزاروں اور اورکلیکٹر آف کسٹمز نے ٹربیونل کے فیصلہ کے خلاف کسٹمز ریفرنس کو ترجیح دی۔ ریفرنسز کے التواکے دوران درخواست گزاروں نے کلیکٹر آف کسٹمز (انفورسمنٹ)، لاہور کودرکواست دی اور ٹربیونل کے فیصلہ پر عملدرآمدکی استدعا کی اور مئوقف اختیار کی کہ ریفرنس کی سماعت کے دوران ہائی کورٹ کی جانب سے ٹربیونل کے فیصلہ پر عملدآمد کو نہیں روکا گیا۔ کلیٹر آف کسٹمز(انفورسمنٹ)کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہونے پر درخواست گزاروں نے لاہو رہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن دائر کی اوراستدعا کی کہ کلیکٹر آف کسٹمز(انفورسمنٹ)کو ٹربیونل کے فیصلہ پر عملدرآمد کی ہدایت کی جائے۔ لاہورہائی کورٹ نے اپنے28جون2024کے حکم میں رٹ پیٹیشن خارج کرتے ہوئے قراردیا کہ انہوں نے خود ریفرنس کی کاروائی میں اسے تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد درخواست گزاروں نے فیصلہ کے خلاف اِس درخواست کے زریعہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔جسٹس سید منصورعلی شاہ نے فیصلے میں لکھاہے کہ ہم نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سنے اورریکارڈ کاجائزہ لیا۔ ہمارے سامنے پیش کردہ حقائق کے مطابق ہائی کورٹ کی جانب سے ریفرنس کی کاروائی میں ٹربیونل کے فیصلہ پر حکم امتناع جاری نہیں کیا گیا۔ ٹربیونل کا فیصلہ مکمل طورپرقابل عمل ہے اور اس پر عملدرآمد کیا جانا چاہیئے۔اس حوالہ سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی جانب سے کسٹمز ایکٹ کے سیکشن223کے تحت2024کا کسٹمز جنرل آرڈر نمبر2موجودہے جو کہ کسٹمز حکام کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ ٹربیونل یا دیگرکسی فورم کی جانب سے جاری احکامات پر عمل کریںسوائے ایسے معاملات کے جن میں اگلے فورم کی جانب سے حکم امتناع جاری کیا گیاہو۔مسئلہ اُس وقت کھڑا ہوتا ہے جب کسٹمز حکام ریفرنس کی کاروائی میں بھی ٹربیونل کے احکامات کو معطل کئے جانے کے باوجود ٹربیونل کے حکم پر عمل نہیں کرتے جیسا کہ موجودہ کیس میں ہوا ہے۔ ٹربیونل کے حکم پر عمل پر عمدلرآمد کے لیے کیا دادرسی دستیا ب ہے۔ کیا ٹربیونل جس نے حکم جاری کیا ہے اس کے پاس اپنے حکم کی تعمیل کروانے اور اس پر عملدرآمدیقینی بنانے کااختیار ہے؟ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسٹمز ایکٹ میں کوئی ایسی شق موجود نہیںجو ٹربیونل کواپنے احکامات پر عملدرآمد کااختیاردیتی ہو تاہم سٹیچوٹری تعمیر کا یہ تسلیم شدہ اصول ہے جیسا کہ میکس ویل نے بیان کیاہے اور اس کو تسلیم کرتے ہوئے اِس عدالت نے علی شیر سرکی کیس میں نقل کیا ہے کہ جہاں کوئی قانون دائرہ اختیار فراہم کرتا ہے تو وہاں پر وہ ضروری مضمرات کومدنظر رکھتے ہوئے وہ تمام اختیارات اور ذرائع بھی تفویض کرتی ہے جو کہ بنیادی طور پر اس کے حکم پر عملدآمد کے لئے ضروری ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس قانونی پوزیشن کی موجودگی میں ہم ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست گزاروں کی درخواست خار ج کرنے کے حکم کو برقراررکھ رہے ہیں ۔درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کی جاتی ہے تاہم درخواست گزاراگرچاہیں تو ٹربیونل کی جانب سے پاس کردہ احکامات پر عملدرآمد کے لئے ٹربیونل سے ہی رجوع کرسکتے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس حکم کی کاپی کسٹمز حکام کے خلاف ممبر(کسٹمز)ایف بی آر کو اطلاع اور مناسب واننگ یا موزوں کاروائی کے لئے بھیجی جائے جوکہ 2024کے کسٹمز جنرل آرڈر نمبر2کونہیں مان رہے۔ZS