کیا آپ ان کا مورال ڈائون کرنا چاہتے ہیں؟کیا تمام جرنیل محب وطن نہیں ہیں؟ آپ اپنے دشمنوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟

کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے افواجِ پاکستان میں کوئی محب وطن نہیں ہو گا اور وہ بھی جو آرمی چیف کیلئے دوڑمیں ہو، جو کچھ کل کہا گیا کیا اس کا کوئی جواز پیش کیا جاسکتا ہے؟

پھر آپ کہتے ہیں انہیں کھلی چھٹی دے دیں،یہ عدالت کا استحقاق ہے، ہر شہری محب وطن ہے، کسی کے پاس سرٹیفکیٹ دینے کا اختیار نہیں

آپ چاہتے ہیں آپ ایسی باتیں کریں اور پھر پیمرا کنٹرول بھی نہ کرے؟، جب آپ پبلک میں کوئی بیان دیتے ہیں تو اس کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے

اسلام آباد ہائیکورٹ کا پیمرا کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تقاریر اور بیانات ریگولیٹ کرنے کا حکم، پیمرا آرڈر کیخلاف عمران خان کی درخواست نمٹا دی

  اسلام آباد (ویب نیوز)

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران کی براہ راست تقریر پر پابندی کے پیمرا آرڈر کیخلاف درخواست نمٹا دی ،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی براہ راست تقریر پر پابندی کے پیمرا آرڈر کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ کیا افواج پاکستان سے متعلق بیان دیکر آپ ان کا مورال ڈان کرنا چاہتے ہیں۔ پیر کو عمران خان کی براہ راست تقریر پر پابندی کے پیمرا آرڈر کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کی جبکہ عمران خان کی جانب سے بیرسٹر علی ظفرعدالت میں پیش ہوئے۔پیمرا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شوکاز نوٹس جاری کرنے کا مقصد صرف تقریر میں تاخیر کرنا تھا، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ ڈیلے پالیسی پر عمل درآمد کیوں نہیں کرتے؟۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ بڑے ذمہ دار لوگ غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہیں، آپ نے قانون کے مطابق کام کرنا ہے، عدالت کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔وکیل پیمرا نے کہا کہ ہماری ہدایات کسی ایک خاص شخص کے لیے نہیں تھیں، جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ اس عدالت کے آخری آرڈر سے متفق ہیں؟۔چیف جسٹس اسلام آباد نے عمران خان کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ نے عمران خان کا کل کا بیان سنا؟ کیا سیاسی لیڈر شپ اس طرح ہوتی ہے؟ کیا گیم آف تھرونز کے لیے ہر چیز کو سٹیک پر لگا دیا جاتا ہے؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ افواج پاکستان ہمارے لیے جان قربان کرتے ہیں، اگر کوئی غیر قانونی کام کرتا ہے تو سب تنقید کرتے ہیں، اپنی بھی خود احتسابی کریں کہ آپ کرنا کیا چاہ رہے ہیں، آپ چاہتے ہیں جو مرضی کہتے رہیں اور ریگولیٹر ریگولیٹ بھی نہ کرے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی وکلا سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آئین کی خلاف ورزی ہو، آپ جانتے ہیں کہ جس سیاسی لیڈر کی فالونگ ہوتی ہے اس کے الزام کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے، اگر وہ اس قسم کی غیر آئینی بات کریں اور اشتعال پھیلائیں تو یہ آزادی اظہار رائے میں نہیں آتا، اگر کوئی اس طرح کا غیر ذمہ دار بیان دے گا تو کیا اس کو جسٹیفائی کیا جا سکتا ہے؟۔ انہوں نے مزید ریمارکس دئیے کہ عدالتوں سے ریلیف کی امید نہ رکھیں، یہ عدالت کا استحقاق ہے، ہر شہری محب وطن ہے، کسی کے پاس سرٹیفکیٹ دینے کا اختیار نہیں، بیان دیں کہ کوئی محب وطن ہے،کوئی نہیں، پھر آپ کہتے ہیں انہیں کھلی چھٹی دے دیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ افواجِ پاکستان سے متعلق ایسا بیان دے کر کیا آپ ان کا مورال ڈائون کرنا چاہتے ہیں؟ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ افواجِ پاکستان میں کوئی محب وطن نہیں ہو گا اور وہ بھی جو آرمی چیف کے لئے دوڑمیں ہو، جو کچھ کل کہا گیا کیا اس کا کوئی جواز پیش کیا جاسکتا ہے؟، آپ چاہتے ہیں آپ ایسی باتیں کریں اور پھر پیمرا کنٹرول بھی نہ کرے؟، جب آپ پبلک میں کوئی بیان دیتے ہیں تو اس کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ افواج پاکستان اس وقت عوام کو ریسکیو کررہے ہیں، کیا کوئی اس بیان کی وضاحت کرسکتا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس طرح کے بیان سے آپ اپنے لیے مشکلات پیدا کریں گے، کیا تمام جرنیل محب وطن نہیں ہیں؟ آپ اپنے دشمنوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟۔عدالت نے عمران خان کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے بیانات کے بارے میں سوچیں، ایسے بیانات دے کر عدالتوں سے ریلیف کی توقع نہ کریں، فوج کے افسران اور جوان شہید ہو رہے ہیں اور آپ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیمرا کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تقاریر اور بیانات ریگولیٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے عمران خان کی درخواست نمٹا دی۔یاد رہے کہ پیمرا نے عمران خان کی براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی عائد کی تھی جسے چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔