سپریم کورٹ ، انٹرا کورٹ اپیلیں منظور، نیب ترامیم بحال ، 3رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار
انٹرا کورٹ اپیلوں پر 16 صفحات پر مشتمل تحریر کردہ فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ پڑھ کر سنایا
 ترامیم غیر آئینی ہونے سے متعلق قائل نہیں ہو سکے، ان ترامیم میں سے بہت سی ترامیم کے معمار بانی پی ٹی آئی خود تھے
چیف جسٹس اور ججز پارلیمنٹ کیلئے گیٹ کیپر نہیں ہوسکتے، پارلیمان اور عدلیہ کا آئین میں اپنا اپنا کردار واضح ہے
 تین رکنی بینچ کے اکثریتی ججز نے ترامیم کا آئین کے تناظر میں جائزہ نہیں لیا،تحریری فیصلہ

اسلام آباد ( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم بحال کر دیں، عدالت نے3رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قراردیدیا۔سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ 6 جون کو محفوظ کیا تھا۔نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر 16 صفحات پر مشتمل اپنا تحریر کردہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی تھی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ تھے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل مسترد کی، تاہم اکثریتی فیصلے سے اتفاق کیا، جسٹس اطہر من اللہ کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے بھی اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق لیکن وجوہات سے اختلاف کیا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ بعد میں جاری کیا جائے گا ۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ نیب قانون سابق آرمی چیف پرویزمشرف نے زبردستی اقتدار میں آنے کے 34 دن بعد بنایا، پرویز مشرف نے آئینی جمہوری آرڈر کو باہر پھینکا اور اپنے لیے قانون سازی کی، پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز کو ہٹایا جنہوں نے غیر آئینی اقدام کی توسیع نہیں کی۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں عدلیہ اور مقننہ کا کردار واضح ہے، عدلیہ اور مقننہ کو ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت پر نہایت احتیاط کرنی چاہیے، آئین میں دیئے گئے فرائض کی انجام دہی کے دوران بہتر ہے کہ ادارے عوام کی خدمت کریں، چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ ججز پارلیمنٹ کے گیٹ کیپرز نہیں،پارلیمان اور عدلیہ کا آئین میں اپنا اپنا کردار واضح ہے ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ کہتا ہے کہ مشرف دور میں بنائے گئے قانون کے دیباچہ میں لکھا گیا کہ نیب قانون کا مقصد کرپشن کا سدباب ہے، جن سیاستدانوں یا سیاسی جماعت نے پرویز مشرف کو جوائن کیا انہیں بری کر دیا گیا، نیب قانون کا اصل مقصد سیاستدانوں کو سیاسی انتقام یا سیاسی انجینئر نگ تھا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس پروسیجر قانون نیب ترامیم درخواست پر فیصلہ سے 5 ماہ پہلے بنایا گیا، نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر 5 رکنی بینچ بنانے کی استدعا کو مسترد کیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ نے نشاندہی کی نیب ترامیم پر پانچ رکنی بینچ بنایا جائے، جسٹس منصور خود کو الگ کر لیتے تو 2 ممبر نیب ترامیم کے خلاف درخواست سن سکتے نہ فیصلہ کر سکتے۔عدالتی فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کے بینچ نے پریکٹس پروسیجر قانون کے آپریشن کو معطل کیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو معطل کرنے کے بعد کیس دوبارہ نہیں سنا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف درخواستوں کو 100 دن تک نہیں سنا گیا، قانون کے خلاف درخواستوں پر 18 ستمبر 2023 کو سماعت ہوئی۔فیصلے کے مطابق نیب قانون میں تین ترامیم کی گئی، پہلا نیب ایکٹ 22 جون 2022 کو نافذ کیا گیا جبکہ نیب قانون میں دوسری ترمیم 22 اگست 2022 کو کی گئی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ کہتا ہے نیب قانون میں تیسری ترمیم 29 مئی 2023 کو کی گئی، جب نیب ترامیم کے خلاف مقدمے کی  6سماعتیں ہو چکی تھیں تو تیسری ترمیم لائی گئی، نیب قانون کی تیسری ترمیم کا سپریم کورٹ نے فیصلے میں جائزہ ہی نہیں لیا گیا، سپریم کورٹ کو قانون سازی کو جلد ختم کرنے کے بجائے اسے بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر کسی قانون کی 2 تشریحات ہوں تو قانون کے حق میں آنے والی تشریح کو تسلیم کیا جائے گا، درخواست اور سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ مقدمے میں بھی ترامیم غیر آئینی ہونے سے متعلق قائل نہیں ہو سکے، ان ترامیم میں سے بہت سی ترامیم کے معمار   بانی پی ٹی آئی خود تھے، بانی پی ٹی آئی نے نیک نیتی سے درخواست دائر نہیں کی، بانی پی ٹی آئی کی درخواست سپریم کورٹ میں قابل سماعت ہی نہیں تھی۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نیب فیصلے میں نہیں بتایاگیا کہ نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم کیسے ہیں، بانی پی ٹی آئی اور وکیل خواجہ حارث ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہونے پر مطمئن نہ کرسکے۔تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے، جب تک قانون کالعدم نہ ہوسپریم کورٹ اور دیگرعدالتیں قانون پر عمل کی پابند ہیں، جب تک قانون کالعدم نہ ہو اس کا احترام ہونا چاہیے، پارلیمنٹ آئین سے منافی قانون بنائے تو عدالت کا کالعدم کرنے کا اختیار ہے، تین رکنی بینچ کے اکثریتی ججز نے ترامیم کا آئین کے تناظر میں جائزہ نہیں لیا، قانون کو ججز کا اپنے کرائیٹیریا یا پیمانے سے پرکھنے کی آئین اجازت نہیں دیتا، ججز اپنے حلف کے مطابق آئین و قانون کے پابند ہیں۔