پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار: پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ بحال کر دیا۔

الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کوئی امتیازی رویہ نہیں اپنایا۔ تحریک انصاف کے سارے پارٹی عہدیدار اگر بلامقابلہ منتخب ہو گئے توپھر چمکنی میں جاکرمیٹنگ کیوں کی
کل کوکوئی آکر کہے کہ 326ارکان قومی اسمبلی بلامقابلہ منتخب ہوگئے تو میں توکم ازکم یہ نہیں مانوں گا  چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ بحال کر دیا۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان کیس کے فیصلے کے تحت پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ میں پشاور ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر دوسرے روز سماعت ہوئی جو شام 7 بجے کے بعد بھی جاری رہی، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جو اب سنا دیا گیا ہے۔

انتخابی نشان کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاخیر پر معذرت خواہ ہوں، فیصلے کی کاپی اپ لوڈ کریں گے، جس کے بعد چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کرانے کا نوٹس 2021ء میں کیا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022ء تک انتخابات کرانے کا وقت دیا۔

فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا کہا، بصورت دیگر انتخابی نشان لینے کا بتایا گیا، پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ 5 رکنی بینچ بنا جو زیر التوا ہے، پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کرا کر بھی لاہور ہائیکورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے 22 دسمبر تک پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ کرنے کو کہا، پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کرا کر بھی لاہور ہائیکورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔

فیصلے کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے 22 دسمبر تک پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ کرنے کو کہا، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو کہا پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہیں کرائے، الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ کرانے پر انتخابی نشان پی ٹی آئی سے لے لیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے سنگل جج نے 3 جنوری کو فیصلہ دیا، ایک معاملہ ایک ہائیکورٹ میں زیر التوا ہو تو دوسرے ہائیکورٹ میں نہیں چیلنج ہو سکتا۔

فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا، عدالتی استفسار پر بتایا گیا الیکشن کمیشن نے 13 جماعتوں کے انتخابی نشان لیے، الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کرائے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی کے 14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائیکورٹ نے مسترد کر دی کہ وہ ممبران ہی نہیں، فیصلے کے مطابق پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی، الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

انتخابی نشان کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل سینیٹر علی ظفر، حامد خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان سپریم کورٹ میں موجود تھے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے جس پر پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ فیصلہ پڑھا ہے، پشاور ہائی کورٹ نے بہترین فیصلہ لکھا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے بلے کا نشان دینے کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائر درخواست پر تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا ہے کل کو عمران خان باہر آکر کہہ سکتے ہیں میں نے علی گوہر خان کوپارٹی چیئرمین نامزدنہیں کیا۔الیکشن کمیشن نے کوئی امتیازی رویہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ نہیں اپنایا وہ توآپ سے کہہ رہے تھے انٹراپارٹی الیکشن کروادیں۔ سارے پارٹی عہدیدار اگر بلامقابلہ منتخب ہو گئے توپھر چمکنی میں جاکرمیٹنگ کیوں کی۔ اگر جمہوریت کی بات کریں گے تو پھر پارٹی میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے، بنیادی سوال ہے کہ ممبرز کو کاغذات نامزدگی جمع کروانے اورانتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا کہ نہیں۔ اداروں پر الزامات نہ لگائیں، انہیں بہتر بناسکتے ہیں، ہم الیکشن کمیشن کااختیار نہیںلے سکتے۔ یا تسلیم کرلیں ہمیں گھرمیںجمہوریت نہیں چاہیئے اور باہر جمہوریت چاہیئے۔ کل کوکوئی آکر کہے کہ 326ارکان قومی اسمبلی بلامقابلہ منتخب ہوگئے تو میں توکم ازکم یہ نہیں مانوں گا۔ ڈکٹیٹرشپ کاآغاز گھر سے ہوتا ہے بچے کی ناجائز بات گھر والے سنتے ہیں تو پھر وہ باہر بھی جاتی ہے۔ کاغذات نامزدگی کی فیس 50ہزار روپے ہے وہ کدھر ہے ، رسید کدھر ہے۔ آپ کاالیکشن شیڈول سرآنکھوں پر، اس کی تعمیل دکھادیں۔  یہ الیکشن کمیشن کی بدنیتی نہیں بلکہ بہادری ہے کہ حکومتی پارٹی ہونے کے باوجود شوکازنوٹس بھیج دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ جب لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں توپارٹی میں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیئے اورانہیں الیکشن میں حصہ لینا چاہیئے، پی ٹی آئی میں توسب سے زیادہ شفاف انتخابات ہونے چاہیںتھے۔ الیکشن کمیشن کا انٹراپارٹی انتخابات کے حوالہ سے کردار ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ جب بلامقابلہ انتخاب ہوا تو پھر چمکنی میں بہت سارے لوگ جمع کیوں ہوئے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے الیکشن آف کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو بلے کانشان دینے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائراپیل پر سماعت کی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو اس کے نامزدافراد کی جانب سے فریق بنایاگیا تھا۔ ہفتہ کے روز سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاپی ٹی آئی وکیل سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جس طرح مرضی دلائل دیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، ہمارے اوپر زیادہ بوجھ ہے کہ ہم نے حکم بھی لکھنا ہے۔ سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ نہ آئین اورنہ ہی الیکشن ایکٹ2017الیکشن کمیشن کو دائرہ اختیاردیتا ہے کہ انٹراپارٹی انتخابات کو سکروٹنائز کرے اور انہیں کالعدم قراردیں اور انتخابی نشان دینے سے انکار کرے، آئین کے آرٹیکل 17-2میں سیاسی جماعت بنانے کا حق دیا گیا ہے،پارٹیاں انتخابات میں متحدہ نشان پر حصہ لیتی ہیں، انتخابی نشان سے مبینہ بدانتظامیوں کی بنیاد پر انکار نہیں کرسکتا، ایسا کرنا غیر قانونی ہے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین کہتا ہے کہ الیکشن کورٹ آف لاء نہیں اوراگراس کے آرڈرآئین اور قانون کے خلاف ہیں توان پرعدالتی نظرثانی ہوسکتی ہے، بنیادی سوال ہے کہ پارٹی اورافراد کے سیاسی حقوق ہیں، آرٹیکل 10-Aکے تحت فیئر ٹرائل کا حق ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیںاس لئے 10-Aکے تحت فیئر ٹرائل نہیں دے سکتی۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کسی ممبر نے الیکشن چیلنج نہیں کیا، یہ معاملہ صرف سول کورٹ میں لے جایا جاسکتاہے، پی ٹی آئی لوگوں کی پرائیویٹ ایسوسی ایشن ہے، الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ازخوداختیار نہیں کہ وہ شکایت کندہ بنے، میرٹ پر پی ٹی آئی کے آئین پر عمل کرتے ہوئے انٹراپارٹی انتخابات کروائے۔علی ظفر کا کہنا تھا کہ پہلے پی ٹی آئی نے 8جون2022کوانٹراپارٹی انتخابات کروائے۔ ان کا کہناتھا کہ 23اکتوبر2023کو الیکشن کمیشن نے حکم دیا کہ یہ انتخابات کالعدم ہیں، 20دن میں نئے انتخابات کروائے جائیں، کہا گیا کہ پی ٹی آیہ کی کونسل درست نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 2دسمبر2023کو دوبارہ انٹراپارٹی انتخابات کروائے گئے جن پر سوال اٹھایا گیا، 14افراد جنہوں نے کہا کہ ہم ممبرز ہیں انہوں نے درخواست دی کہ ان انتخابات کو کالعدم قراردے کر نئے انتخابات کروائے جائیں۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ تاریخوں، دستخطوں اور فارمز پر الیکشن کمیشن نے اعتراض اٹھایا۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہم نے کہا کہ یہ ممبرز نہیں اورہم نے تحریری نہیں بلکہ زبانی بتایا کہ یہ ممبرزنہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ہم نے 32سوالات پوچھے جن کا ہم نے تحریری جواب دیا، ہمارے انٹراپارٹی انتخابات کو کالعدم قراردے دیا گیا، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ انتخابی نشان پی ٹی آئی کو نہیں دیا جائے گا۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا کہ فارم 65اوردیگر دستاویزات ہم نے جمع کروائیں، الیکشن کمیشن نے کہا کہ فیڈرل الیکشن کمیشن درست تشکیل نہیں دیا گیا، یہ انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، اس لئے ہم انتخابی نشان نہیں دیں گے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر جمہوریت کی بات کریں گے تو پھر پارٹی میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے، بنیادی سوال ہے کہ ممبرز کو کاغذات نامزدگی جمع کروانے اورانتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا کہ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 14ممبرز آئے اورانہوں نے کہا کہ وہ ممبرزہیں اورانہیں کہہ دینا کہ یہ ہمارے ممبرز نہیں یہ کافی نہیں ہو گا، یا کہیں کہ اکبر ایس بابر نے استعفیٰ دیا یا کسی دیگر پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں، وہ فائونڈنگ ممبر ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پشاور میں 2دسمبر کو انتخابات کروانے کااعلان کیا اور کوئی مقام نہیں بتایا گیا کہ کہاں انتخابات ہوں گے، کہاں کاغذات نامزدگی جمع ہوں گے کہاں سے فارم لئے جائیں گے ، کون الیکشن لڑسکتا تھا کون نہیں لڑسکتا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ جب لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں توپارٹی میں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیئے اورانہیں الیکشن میں حصہ لینا چاہیئے، پی ٹی آئی میں توسب سے زیادہ شفاف انتخابات ہونے چاہیںتھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب سیاسی جماعتیں واضح طور پر آگئیں تو پی پی پی سے تلوارکانشان واپس لے لیا گیا، پھر مسلم لیگ کو غیر جماعتی بنیاد پر انتخاب لڑنا پڑا، آج سے بہت مشکل حالات ماضی میں رہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اداروں پر الزامات نہ لگائیں، انہیں بہتر بناسکتے ہیں، ہم الیکشن کمیشن کااختیار نہیںلے سکتے۔ چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ بدنیتی کاالزام واپس لے رہے ہیں یا نہیں۔ اس پر علی ظفر نے الیکشن کمیشن پر لگایا گیا بدنیتی کاالزام واپس لے لیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر انتخابات درست ہوئے ہیں تو پھر انتخابی نشان ملنا چاہیئے، ایک نام ہوتا ہے، سیاسی جماعت ایک نام ہے لوگ ہوتے ہیں جواس کوکنٹرول کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یاتوکہیں کہ سیاسی جماعت انتخابات کروائے یا نہ کروائے یہ اس کی مرضی، یہ نہیں ہوسکتا کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں کہ انتخابات ہو گئے، موٹی موٹی باتیں بتائیں کہ کتنے لوگ آئے اورکاغذات لئے اور کتنوں نے حصہ لیا، پہلے پشاور کا کہا پھر چمکنی چلے گئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی آئین کے مطابق ہی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بنیادی سوال یہ تھا کہ الیکشن کیسے ہوئے، اکبر بابر کی اگر حمایت نہیں تھی تووہ ہارجاتے، فائونڈنگ ممبر جیل میں ٹرائل کاسامنا کررہے ہیں ہوسکتا ہے کل کو وہ باہر آکر کہیں کہ یہ لوگ کون ہیں، ساڑھے8لاکھ لوگوں پر بھروسہ کیوں نہیں کررہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کل کو اکبر بابر آپ کی پارٹی کے فارم پر آکراپنانام لکھ دیں کہ میں صدر ہوں توآپ کہیں گے کہ نہیں ہم نے انتخابات کروائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں فیکچوئل چیزیں بتادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک پارٹی ایک کاغذ کا ٹکڑا پیش کردے اوردوسرا دوسراٹکڑا پیش کردے توکون اس کا فیصلہ کرے گا۔ اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ سول کورٹ کرے گی۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہیں الیکشن کمیشن کرے گا۔ جسٹس محمد علی مظہرکا کہناتھا کہ الیکشن کمیشن کا انٹراپارٹی انتخابات کے حوالہ سے کردار ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ انتخابی نشان کا معاملہ ہمارے سامنے نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات صیح ہو گئے توانتخابی نشان مل جائے گا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے خط لکھ کر انٹراپارٹی انتخابات کروائیں وگرنہ ہم انتخابی نشان واپس لے لیں گے، آپ کی حکومت کے دور میںخط لکھا کہ یہ پاکستانی آئین اورآپ کی پارٹی آئین کے پی ٹی آئی نیانٹراپارٹی انتخابات کروانا ہیں، اس پر پی ٹی آئی نے کہا کہ کوروناآگیا ایک سال آگے کردیں ، پہلے آپ لاہور چلے گئے اورپھر پشاور چلے گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین بڑی چیز ہے اس پر کوئی دورائے نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا ایکٹ ہے کہ آپ پارٹی کے اندر جمہوریت لائیں، آئین میں دکھادیں کہ کہاں انتخابی نشان ملے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان الیکشن ایکٹ کے تحت ملے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یا توکہیں کہ میں سیاسی جماعت ہوں، الیکشن کروائوں یا نہ کروائوں میری مرضی، الیکشن کیشن پانچ سال سے کہہ رہا ہے کہ آپ انتخابات کروادیں، کمیشن کاایک ہی دکھڑا ہے کہ انتخابات کروائیں، 14لوگوں کو کیوں اجازت نہیں دی۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ سول کورٹ جاسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کی کیا تربت کی سول کورٹ انٹراپارٹی انتخابات کالعدم قراردے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یا تسلیم کرلیں ہمیں گھرمیں جموریت نہیں چاہیئے اور باہر جمہوریت چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں، سپریم کورٹ میںجمہوریت ہے ، اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن ذاتی دشمنی نہیںہوتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاست جمہوریت ہے یا کہیں ہمیں سیاست چاہیئے جمہوریت نہی چاہیئے۔ چیف جسٹس کا علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بیچ میں تشریح نہ کریں پوری شق پڑھیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہناتھا کہ ایک پیپر دے دیں کہ ہم نے الیکشن کروادیا تو کیا الیکشن کمیشن کااختیار نہیں کہ وہ پوچھے ہی نہ کہ الیکشن کروایا کہ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تشریح نہیں ہوسکتی کہ دولاکھ جرمانہ اداکرکے کبھی انتخابات ہی نہ کروائوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلی بات بتائیں کہ آپ کا پارٹی سربراہ کون ہے، چیئرمین کون ہے۔ اس پر علی ظفر نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر علی خان چیئرمیں ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ علی گوہر خود ہی لیٹر نہیں دے سکتے کہ میںپارٹی چیئرمین ہوں، ان کا خود الیکشن بھی سوالیہ نشان ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں دیا توکیا سپریم کورٹ کو دیا ہے یاکسی اورکودیا ہے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ کہیں لکھنے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ غیر منطقی بات ہے کہ آدھا اختیارالیکشن کمیشن کا ہے اورآدھا کسی اورکے پاس ہے، اگر اختیار نہیں تو پھر الیکشن کمیشن جرمانہ بھی نہیں لگاسکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت پی ٹی آئی آئین کے تحت الیکشن ہونے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی شق 209پر وعمل ہوا کہ نہیں یہ بات شق215میں آئے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی نے اپنے آئین کی خلاف ورزی کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کہاں ہے کہ کتنے ووٹ ڈالے گئے اور کس نے کتنے ووٹ حاصل کیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بڑے، بڑے پارٹی عہدوں پر احتراماً لوگ کھڑے نہیںہوتے تاہم چھوٹے عہدوں پر تو جنگ ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کل کوکوئی آکر کہے کہ 326ارکان قومی اسمبلی بلامقابلہ منتخب ہوگئے تو میں توکم ازکم یہ نہیں مانوں گا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ جب بلامقابلہ انتخاب ہوا تو پھر چمکنی میں بہت سارے لوگ جمع کیوں ہوئے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ عمران خان کے احترام کی وجہ سے ان کے نامزد امیدوارکے خلاف کوئی اور امیدوارکھڑا نہیں ہوا۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ جمہوریت نہیںبلکہ آمریت ہے ، 14لوگ ہمارے سامنے ہیں کہ انہیں الیکشن تولڑنے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کل کو سرکار سارے مخالف امیدواروںکو پکڑ لے اور 326ارکان کو بلامقابلہ کرلے تو میں تویہ نہیں مانوں گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم مکمل جمہوریت پر چلیں گے ، پارٹیوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ سے اکبر شیر بابر کارتبہ بڑا ہے۔ اس موقع پر علی گوہر خان نے بولنے کی کوشش کی توچیف جسٹس نیانہیں بات کرنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ علی گوہر خان پہلے کس پارٹی میں تھے۔ اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اکبر بابر نے کیا کبھی پارٹی بدلی۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہم نے 2018میں انہیں نکال دیا تھا۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہم نے پارٹی کی رابطہ ایپ بنائی ہوئی ہے جس میں سارے نمبرزآجائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر مجھے واضح جواب نہیں دیں گے توہم یہ سمجھیں گے کہ اکبر بار اور13دیگر پی ٹی آئی کے ممبرز ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ جمہوریت تولے آئیں گھر میں۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حلف پر پشاور ہائی کورٹ میں کہا کہ یہ ممبرز نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی ہیڈ ہدایات دے رہا ہے جو خود دوسال پہلے پارٹی میں آیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کاغذکے ٹکڑوں پر کچھ چلتا ہے کہ نہیں، اصلی چیز ہے کہ کوئی چیز ہوتی ہے کہ نہیں، بات کاغذکے ٹکڑے کی نہیں ہورہی، بنیادی حقوق اپنے ممبرز کو دے رہے ہیں کہ نہیں، کتنے ارکان نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور کتنے نے حصہ لیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈکٹیٹرشپ کاآغاز گھر سے ہوتا ہے بچے کی ناجائز بات گھر والے سنتے ہیں تو پھر وہ باہر بھی جاتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں بھی انٹراپارٹی انتخابات پر اعتراض ہوا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ فارم ویب سائٹ پر توموجود ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو ہدایت کی www.insaaf.pkچیک کریں کہ فارم موجود ہے کہ نہیں۔ اس پر عدالتی عملے نے بتایا کہ کوئی فارم موجود نہیں۔ چیف جسٹس کا علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ویب سائٹ پر کوئی فارم نہیں ہے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد فارم ویب سائٹ سے ہٹادیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم زبانی باتوں پر نہیں جاتے ، کوئی کاغذ کا ٹکڑادکھادیں، امیدوارکوئٹہ سیکرٹریٹ سے فارم لے گاتووہ جمع کہاں کروائے گا۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میںجمع کروائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیس کہاںجمع کروائی، بینک میں جمع کروائی یا کیش لیا۔ اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ کیس میں لئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کیش کیسے لے سکتی ہے پیسے بینک میں جمع ہوں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ قانون کے سوال پر بات کریں، پاکستان بار کونسل کے انتخابات ہوتے ہیں توکراچی، لاہور، کوئٹہ ، پشاور اوراسلام آباد میں پولنگ ہوتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کادائرہ اختیار نہیں۔ محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کوتمام پارٹیوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی کی فیس 50ہزار روپے ہے وہ کدھر ہے ، رسید کدھر ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کاالیکشن شیڈول سرآنکھوں پر، اس کی تعمیل دکھادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لیول پلینکگ فیلڈ سے کہیں پریفریشنل فیلڈ پر نہ آجائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن کی بدنیتی نہیں بلکہ بہادری ہے کہ حکومتی پارٹی ہونے کے باوجود شوکازنوٹس بھیج دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں جمہوریت میں دلچسپی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیس کا نیوکلیئس ہے کہ الیکشن کمیشن کادائرہ اختیار ہے کہ نہیں، پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں جبکہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215کے تحت الیکشن کمیشن کااختیار ہے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ الیکشن کروادیں بے شک کاغذکاٹکڑا جمع نہ کروئیں تومیرے خیال میں یہ ٹھیک ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ آپ کی پارٹی الیکشن سے کیوںگھبرارہی ہے، 2021سے الیکشن کمیشن آپ کے پیچھے پڑا ہے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ یاتوکہہ دیں ایک شخص جو کرے ٹھیک ہے یاتوقانون تبدیل کردیں، بنیادی چیز ہے پارٹی میں الیکشن کروادیں، فیس کہاںجمع کروائی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بے شک چھ دن دلائل دیتے ہیں پھرہم نے گزشتہ روز کہہ دیا تھا کہ ہمیں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنا پڑے گا، پھر ہم سے گلہ نہ کریں کہ فیصلہ معطل کردیا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ چیئرمین کاالیکشن دکھائیں، ہم آپ کو تکنیکی باتوں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے خود تصویر لگائی کہ اکبر بابر کاغذات نامزدگی لینے دفتر پہنچ گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ تفریح کے لئے تونہیں گئے ہوں گے، فیس لی ہوگی وہ کدھر ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ممبرشپ منسوخ کرنے کا ثبوت دکھادیں۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ اکبر بابر نے فارم لیا تاہم فیس نہیں دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے علی گوہرخان کو نامزدکرنے کا لیٹر کدھر ہے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ نیوز میں آیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس کو کیسے فرض کر لیں کہ انہیں نامزد کیا ہے،آپ پرانے ممبر ہیں آپ کو یاحامد خان فائونڈنگ ممبر ہیں ان کو کویں نامزد نہیں کیا،کل کو عمران خان باہر آکر کہہ سکتے ہیں میں نے علی گوہر کو نامزدنہیں کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنر نیازاللہ خان نیازی نے کب پی ٹی آئی میں شمولیت اخیتار کی۔ اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ 2009میں شمولیت اخیتار کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چارلوگوں نے بیٹھ کر پوری پارٹی بانٹ لی، کیا یہ جمہوریت کے خلاف نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ دستاویزات میں صرف عمرایوب خان کے پینل کے 13افراد کے نام ہیں۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ کل پانچ پینل لڑے ایک سینٹرل اورچارصوبوں کے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ ڈاکیومنٹیشن کے معاملہ میں پی ٹی آئی کمزورہے۔ اس موقع پر نیازاللہ نیازی روسٹرم پر آگئے اورچیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تین سال میں بطور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد آپ کے سامنے پیش ہوں ، آپ نے میرے ساتھ جوسلوک کیا وہ مجھے پتا ہے۔ نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے نے سپریم کورٹ میںلاء کلر ک کاانٹرویو دیا اوراس سے آپ نے پی ٹی آئی کے حوالہ سے سوالات کئے۔ چیف جسٹس کا علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا ہم نوٹس جاری کریں، آئی ایم سوری، کیا ہم ان کونوٹس جاری کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مجھے پتا ہی نہیں ان کا کوئی بیٹا ہے بھی یا نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ نامناسب ہے کہ مجھ پر مبہم الزام لگائیں،عدالتی کاروائی براہ راست دکھائی جاہی ہے ۔ تاہم دیگر پی ٹی آئی وکلاء کی جانب سے سمجھانے پر نیازاللہ نیازی روسٹرم سے ہٹ گئے ۔ اس پرچیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسی طرح کیس چلانا ہے توپھر ہم ختم کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم آدھے گھنٹے کا وقفہ کررہے ہیں اورلنچ کرکے واپس آتے ہیں۔وقفہ کے بعد دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن کو انتخابات کے وینیو کا بتایا تھا، الیکشن کمیشن نے لیٹر لکھا تھا اور مختلف چیزوں کے بار پوچھا تھا کہ کس جگہ انتخابات ہوں گے ، وقت کیا ہو گا۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر اکبر بابر کا پینل ہوتو ہی وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے تھے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پینل کی بات کدھر ہے، کہیں یہ لکھا ہے کہ ایک شخص نہیں لڑ سکتا اور پینل ہی لڑسکتا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک شخص نے بھی ووٹ نہیں ڈالا، یہ بات اگر تسلیم کرلیں کہ ایک ہی پینل آیا توپھربھی ووٹ توڈالنا ہوں گے۔ پی ٹی آئی آئین میں لکھا ہے کہ لوگ سیکرٹ رائے شمار ی کے زریعہ چیئرمین کے انتخاب میں ووٹ ڈالیں گے، ایک ممبرنے بھی ووٹ نہیں ڈالا، ایسی کوئی بات نہیں کہ کوئی اورحصہ نہیں لے سکتا توپھر بھی بغیر ووٹ ڈالے کوئی چیئرمین بن سکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ووٹ نہیں پڑیں گے تومنتخب نہیںہوسکتے، اگر ساڑھے 8لاکھ لوگوں میں 10ووٹ پڑتے توپھر اخلاقی جواز نہیں بنتا کہ میں چیئرمین منتخب ہو گیا ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگربلامقابلہ انتخاب کی بات کریں گے تویہ کوئی جمہوریت تونہ ہوئی، سیکرٹری جنرل، چیئرمین اوردیگر بھی بلامقابلہ ہی آگئے توپھر یہ الیکشن تونہ ہوئے، کیوں الیکشن نہیںکیا، مسئلہ کیا تھا، کہتے اکبر بابر صاحب آپ آجائیں، آپ بھی الیکشن لڑ لیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بڑی ، بڑی ہستیاں تو بلامقابلہ ہوسکتی ہیں لیکن بلوچستان اوردیگر جگہوں پر چھوٹے ، چھوٹے عہدیدار بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے ۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ پی ٹی آئی کا مسئلہ ایک زمانے سے چل رہا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک کون چلاتا ہے، لوگوں کو پتاتوہونا چاہیئے کہ پارٹی کے لوگ کون ہیں، جمہوریت کی خوبصورتی یہ ہے کہ لوگوں کے آپس میں تنازعات ہوتے ہیں،ہر آدمی ایک ہی بات کرے گااورآپ سننا ہی نہیں چاہتے ۔ پینل منتخب ہو گیا تولوگوں کوانتخابات والے دن جمع کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، لوگوں کو کہتے پینل منتخب ہو گئے آپ جائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پرانے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھیں کیونکہ انہیں تجربہ ہوتا ہے۔ اکبر بابر کی چھٹی کی وہ ہمیں دکھادیں، استعفیٰ دکھادیں ، ہمیں اخباری تراشے نہ دکھائیں، حامد خان کا زیادہ حق چیئرمین بننے کا ہے یا علی گوہر خان کا۔کچھ لوگوں پرندوں کی طرح ہوتے ہیں اور کچھ لوگ پارٹی کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ بنائی تھی اس کو الیکشن کمیشن نے اٹھا کرباہر پھینک دیا، سیکشن 202کے تحت ایک پارٹی کو الیکشن اٹھا کرباہر پھینک سکتا ہے، اس کا وجود بالکل ہی ختم کردیا۔ تکنیکی باتوں میں نہ جائیں، آپ زیادہ پھنسیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مخصوص سیٹوں کی بات 8فروری کو انتخابات کے بعد میچور ہو گی۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ہم پی ٹی آئی کو انتخابات لڑنے سے نہیں روک رہا۔علی ظفر کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان کے بغیر ہم آزاد حیثیت میں انتخابات لڑسکتے ہیں، اگر بلے کانشان دے دیں تومیں یہ درخواست واپس لے لیتا ہوں۔چیف جسٹس کا کوئی اورپی ٹی آئی پر قبضہ کر لے توکیا وہ پی ٹی آئی بن جائے گی، یہ سارے ہم مفروضوں پر جارہے ہیں، اگر کاغذات نامزدگی منظور ہو گئے ہیں تووہ آزاد الیکشن لڑسکتا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں اس کاتذکرہ نہیںہے کہاں سے دلائل دے رہے ہیں۔ علی گوہر خان کا روسٹرم پر آکر کہنا تھا کہ ابھی خبر آئی ہے کہ چارگاڑیوں میں لوگ آئے، میرے بھتیجے اوربیٹے کو مارا ہے اورمیرے گھر سے کاغذات اٹھا کر لے گئے۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحما ن کو بلا کر کہا اگر یہ ہورہا ہے تویہ نہیں ہونا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکا علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی درخواست پر ہی سینیٹ انتخابات میں ایک پارٹی کے لوگوں کوآزاد قراردے دیا گیا۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے کیس میں پہلی بار کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 17کے تحت نہ صرف جماعت تشکیل پائے گی بلکہ وہ فنگشن بھی کرے گی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے بار، بارکہا کہ پارٹی انتخابات کروالیں وگرنہ ہم پارٹی کاانتخابی نشان واپس لے لیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ گئے توپھر وہیں رہتے پھر پشاور کیوں گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات کروائے ہی نہیں۔ درخواست گزاروں نے الزام لگایا ہے کہ انتخابات نہیں ہوئے، اس کو ثابت کرنا پی ٹی آئی کی ذمہ دای ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سارے مسئلے آپ کی پارٹی کے لئے ہورہے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن ہوئے ہی نہیں اور بنیاد تقاضے پورے ہی نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ دوبارہ انتخابات کروالیں مسئلہ کیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر عدالتی وقفے کے بعد دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پی ٹی آئی وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کوئی امتیازی رویہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ نہیں اپنا وہ توآپ سے کہہ رہے تھے انٹراپارٹی الیکشن کروادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں آرڈر جاری کیا توپھر پشاور ہائی کورٹ کادائرہ اختیار تونہیں بنتا۔ چیف جسٹس کا حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ختم کریں، آپ کوختم کرنے کاکہتے ہوئے برالگتا ہے۔ حامد خان کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن ،پی ٹی آئی کے بلے کے نشان کو نشانہ بنارہا ہے اور پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کررہا ہے ، انتخابی نشان سے محروم کرنے کا مطب پی ٹی آئی کے کروڑوں ووٹرز کو اپنے امیدواروں سے محروم کرنا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ اکبر بابر کہہ رہے ہیںکہ قانون کے مطابق چلیں اور پارٹی الیکشن درست کروائیں، کسی ممبر کو نکالنے کاطریقہ کاردیاہوا ہے ، پارٹی سے نکالنے کاثبوت دکھادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی ممبر کونکالناہے تواس کو پارٹی آئین کے مطابق نکالیں، مسئلہ یہ کہ اکبربابر ہمارے سامنے کھڑے ہیں، وکیل کی جانب سے کہہ دینے سے کوئی پارٹی سے نہیں نکالا جاسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ اپنے ساڑھے 8لاکھ ووٹوں کو ووٹنگ کے حق سے محروم کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی وکلاء نے کہا کہ اکبر ایس بابر اوردیگر ممبرز کے حوالہ سے متضاز پوزیشنین لی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سارے پارٹی عہدیدار اگر بلامقابلہ منتخب ہو گئے توپھر چمکنی میں جاکرمیٹنگ کیوں کی۔ عدالت نے تمام فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ZS
#/S