قائمہ کمیٹی آبی وسائل میں اسلام آباد کے متعدد فلٹریشن پلانٹس، ٹیوب ویلز کا پانی صحت کے لئے غیر محفوظ ہونے کا انکشاف
5ٹیوب ویلز ،39واٹر فلٹریشن پلانٹس ،5واٹر ورکس کا پانی غیرمحفوظ۔بریفنگ
 41 رورل واٹر سپلائی میں 33 کا  پانی غیر محفوظ پایا گیا۔ پی سی آر ڈبلیو آر

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل میں بریفنگ کے دوران اسلام آباد میں کئی فلٹریشن پلانٹس اور ٹیوب ویلز کا پانی صحت کے لئے غیر محفوظ ہونے کا انکشاف ہوا،معاملے پر شدید تشویش کا اظہارقائمہ کمیٹی نے ڈی جی واٹر کوالٹی کو اسلام آباد کا پانی دوبارہ ٹیسٹ کرنے کی ہدایت کردی۔پیرکو قائمہ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر شہادت اعوان کی زیر صدارت پارلیمینٹ ہاؤس میں ہوا۔ حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ  جون 2024 میں پی سی آر ڈبلیو آر نے اسلام آباد میں پینے کے پانی کے ٹیسٹ کئے، 127 ٹیوب ویلز میں سے 105 کا پانی محفوظ اور 22 کا غیر محفوظ تھا،108 واٹر فلٹریشن پلانٹس میں میں سے69 کا پانی محفوظ اور 39 کا غیر محفوظ تھا، 12 واٹر ورکس میں سے 7 کا پانی محفوظ اور 5 کا غیر محفوظ تھا، 41 رورل واٹر سپلائی میں سے 8 کا پانی محفوظ اور 33 کا غیر محفوظ تھا۔ سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ یہ وفاقی دارالحکومت ہے یہاں یہ صورتحال ہے،اتنا غیر محفوظ پانی لوگوں پاس جارہا ہے،  بتایا جائے کہ اس رپورٹ کے بعد سی ڈی اے نے کیا کیا ہے؟چیئرمین کمیٹی  نے کہا کہ 22 ٹیوب ویلز کا پانی غیر محفوظ ہے اس کے باوجود وہ چل رہے ہیں، سی ڈی اے حکام نے غیرتسلی بخش جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس چار واٹر ورکس اور100 فلٹریشن پلانٹس ہیں۔سیکرٹری آبی وسائل نے کہا کہ  اسلام آباد کا واٹر انفراسٹرکچر بوسیدہ ہوچکا، واٹر انفراسٹرکچر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ھے۔وزارت آبی وسائل نے بلوچستان میں ٹیوب ویلز سولرائزیشن پالیسی پر تحفظات کا اظہار کر دیا  ہے ۔ کوئٹہ سمیت پانچ شہروں میں زیر زمین پانی کا لیول خطرناک حد تک گر چکا ہے  دو ہزارہ بارہ میں آسٹریلوی آبی ماہرین نے رپورٹ میں کوئٹہ کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی، سیکرٹری آبی وسائل نے مزید کہا کہ اگر زمین پانی کی صورتحال یہی رہی تو مستقبل میں درالحکومت کو کوئٹہ سے منتقل کرنا پڑے گا، حکومت سے کہا تھا کہ سولرائزیشن پالیسی کے ساتھ پالیسی بھی ترتیب دی جائے،سولر دیکر ہم نے پانی کھینچنے کی کھلی اجازت دے دی ہے،بلوچستان حکومت نئے  ٹیوب ویلز پر پابندی عائد کرنے کا وعدہ کرے ۔قلت والے شہروں میں اگر ڈیم بن بھی گیا تو پانی کی سطح تیس سال تک ٹھیک نہیں ہوگی ۔ بلوچستان میں آبی وسائل کی مخدوش صورت حال  پر بلوچستان میں زیر زمین پانی کی قلت کے حوالے سے اقدامات پربھی  بریفنگ دی گئی ۔ حکام نے بتایا کہ بلوچستان میں مجموعی طور پر 18  دریا Basinہیں،بلوچستان میں 2021 کے بعد پانی پر کوئی سروے نہیں ہوا، 2021 کے بعد وفاقی حکومت نے سروے کیلئے فنڈنگ کی ہے،کوئٹہ میں پانی کی قلت سب سے زیادہ ہے، بلوچستان میں زیر زمین پانی کی قلت کی وجہ ٹیوب ویلز بن رہے ہیں،  بلوچستان میں 46 ہزار رجسٹرڈ ٹیوب ویلز ہیں،حقیقت میں بلوچستان میں ٹیوب ویلز کی تعداد لاکھوں میں ہے، بلوچستان حکام کے مطابق بلوچستان میں ہزاروں ٹیوب ویلز غیر قانونی ہیں،غیر قانونی ٹیوب ویلز سے پانی حاصل کیا جارہا ہے اوربجلی بھی استعمال کر رہے ہیں، حکام نے مزید کہا کہ بلوچستان میں بجلی چوری کی بڑی وجہ بھی ٹیوب ویلز ہیں، ٹیوب ویلز کے حوالے سے 2015 کے بعد کوئی سروے نہیں ہوا۔اجلاس کی کاروائی کے دوران بلوچستان میں ڈیمز کے غلط اعدادو شمار پیش کرنے پر چیئرمین کمیٹی برہم ہوگئے کہ کبھی آپ کہتے ہیں 64 ڈیمز ہیں کبھی 200 ڈیمز بتاتے ہیں، چیئرمین کمیٹی شہادت اعوان نے مزید کہا کہ ایک جگہ آپ نے ڈیم کی تعداد 1500 لکھی ہوئی ، ایک جگہ 4100 ڈیمز لکھا ہے،حتمی طور پربتائیں بلوچستان میں کل کتنے ڈیمز ہیں۔ بلوچستان میں کل  1500 ڈیمز ہیں، کچھ پر کام جاری ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سرکاری حکام کو  لگتا ہے کسی نے پرانی فائل تھما دی ہے، ایک ماہ پہلے نوٹس دیا تھا لیکن آپ تیاری کرکے نہیں آئے۔سیکرٹری آبی وسائل نے کہا کہ  سرکاری ریکارڈ کے مطابق  پی ایس ڈی پی بلوچستان میں 41 پانی کے منصوبے مکمل کیے گئے ہیں، لاگت 45 ارب روپے ہے، بلوچستان میں 21 منصوبے جاری ہیں۔