ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں، سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا   چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
 باراور بینچ سے بہت کچھ سیکھا، اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام عملے کا مشکور ہوں ،فل کورٹ ریفرنس سے خطاب
اختیارات کی تقسیم کے اصول پر عمل ہو گا،میری پہلی ترجیح دوردراز علاقوں کی ضلعی عدلیہ ہوگی،فوری طورپردوردراز علاقوں کی ضلعی عدلیہ پر توجہ دیناہوگی،نامزد چیف جسٹس
 فل کورٹ ریفرنس میں سینئر6 جج جسٹس منصور علی شاہ رخصت پر ہونے کی وجہ سے   شریک نہیں ہوئے جبکہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے بھی  شرکت نہیں کی

اسلام آباد (ویب  نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں، سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے،باراور بینچ سے بہت کچھ سیکھا ۔فل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر ایک میں ساڑھے دس بجے شروع ہوا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججز جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس عرفان سعادت خان ،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عقیل عباسی شریک ہوئے ، چیف جسٹس کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور خاندان کے دیگر افراد ، سپریم کورٹ کے وکلا، عدالتی عملہ اور صحافی شریک ہوئے۔سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ رخصت پر ہونے کی وجہ سے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے بھی ریفرنس میں شرکت نہیں کی۔الوداعی ریفرنس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا گیاجس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تقریر کرتے ہوئے  کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین و قانون ،جمہوریت اور احتساب کے عمل میں غیر متزلزل رہے۔ چیف جسٹس بننے سے قبل بھی قاضی صاحب کا بطور وکیل نمایاں اور کامیاب کیرئیر رہا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تمام شرکا بالخصوص نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور دیگر ساتھی ججز، اٹارنی جنرل منصور اعوان، پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین فاروق ایچ نائیک اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت کا شکریہ ادا کیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکریہ جنہوں نے مناسب سمجھا کہ میں یہ منصب سنبھالوں، عوام کا شکریہ اور چوہدری افتخار صاحب کا شکریہ جنہوں نے میرا بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ انتخاب کیا۔انہوںنے کہا کہ جب میں بلوچستان ہائی کورٹ گیا تو میں واحد جج تھا، ملک میں آئینی بحران آ چکا تھا تو مجھے کسی سے سیکھنے کو نہیں ملا، وکلا نے مجھے سکھایا اور بلوچستان کے وکلا کی مدد سے آگے بڑھے، ججز کو تعینات کیا اور ایک غیرفعال عدالت عالیہ بلوچستان کا کام شروع ہوا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے چیزوں کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پشین میں رہنے والی میری دادی نے آج سے 100 سال قبل اپنے تینوں بیٹوں کو اس وقت کی بہترین تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا، ان کے سب سے بڑے بیٹے قاضی موسیٰ ایکسیٹر کالج گئے، اس کے بعد میرے والد قاضی محمد عیسیٰ انگلستان بار کی ڈگری لینے گئے اور سب سے چھوٹے بیٹے قاضی اسمعیل پائلٹ بنے۔ انہوں نے کہا کہ میرے اس وکالت کے پیشے اور اپنی اہلیہ سے وابستگی کو 42سال ہو چکے ہیں جنہوں نے میرا ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دیا، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے رجسٹرار کے ذریعے مجھے بلایا، مجھے لگا انہوں نے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے لئے بلایا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ آپ بلوچستان سنبھالیں کیونکہ وہاں کوئی جج نہیں رہا، میری زندگی میں میری بیوی کا ویٹو پاور ہے اور ان کی رضامندی کے بعد میں بلوچستان آ گیا اور راتوں رات میری زندگی بدل گئی۔انہوں نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بچے ہمیں سکھاتے ہیں، ایک دن صفیہ(نواسی)نے مجھے کہا کہ میرے دوست مجھ سے بہت ناراض ہیں کہ آپ نے مارگلہ ہل کی پہاڑی پر ریسٹورنٹس کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے، میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی صفیہ نے کہا کہ میں نے دوستوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جانور اور پرندوں کا بھی گھر تھا ان کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ماحول اچھا نہ رہا تو جانوروں کیا انسانوں کا بھی دنیا میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں میرا پہلا کام رجسٹرار کا انتخاب تھا جو درست ثابت ہوا۔ اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام عملے کا مشکور ہوں۔ کیس سنتے ہوئے اندازہ لگانا ہوتا ہے سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنی تعریف پر مبنی انگلینڈ سے ایک خاتون کا لکھا ہوا خط بھی پڑھ کر سنایا۔بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی سپریم کورٹ میں یادگار کے افتتاح کی تقریب میں پہنچ گئے۔ اس موقع پر نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی سمیت دیگر ججز نے بھی شرکت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تقریب میں کہا کہ سپریم کورٹ میں یہ جگہ خالی تھی۔ لوگ دور دراز کے شہروں سے یہاں آکر سڑک پر تصاویر بنواتے ہیں۔یہ یادگار عوام کے لیے ہے۔ جو آرکیٹیکٹ میرا مکان بنا رہا ہے، اس نے رضاکارانہ طور پر اس کام کے لیے رضامندی ظاہر کی۔انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والے عملے اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وکیل اور جج کی اہمیت پر بھی گفتگو کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم کیس سنتے ہیں تو کاغذ پر کچھ فقرے لکھے ہوتے ہیں، اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ کہاں سچ ہے اور کہاں جھوٹ ہے، ہو سکتا کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں کیونکہ کاغذ کے ٹکڑوں پر جو لکھا گیا ہے وہ ایک پارٹی کو فائدہ دیتا ہے اور دوسرے کو نہیں، سچ کیا ہے وہ تو اوپر والا جانتا ہے لیکن ہم کاغذوں اور قانون پر چلتے ہیں کہ جو کاغذ کی بنیاد پر کیس ثابت کر سکے۔چیف جسٹس نے خطاب کے آخر میں سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آزادی میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں۔چیف جسٹس کے خطاب کے اختتام کے ساتھ ہی فل کورٹ ریفرنس ختم ہو گیا ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس سے سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میرے اندر ملے جلے رجحانات ہیں۔ ایک طرف چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر دل اداس ہے تو دوسری طرف خوشی بھی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اچھی صحت کے ساتھ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو بہت اچھا انسان پایا۔ وہ بہت نرم مزاج انسان ہیں، اگر آپ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو اکسائیں گے تو پھر ان کے غصے سے بچنا مشکل ہے۔ میں نے بھی ایک مرتبہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے غصے کا سامنا کیا ہے۔ میرا یہ تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے جب کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے خطاب پر مسکراتے رہے۔نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے خواتین کے وراثتی جائیداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کئے ۔ ججز میں اختلاف رائے کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ  نے تحمل کیساتھ سنا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومتی خرچ پر ظہرانہ لینے سے انکار کیا۔ ظہرانے کے خرچ کا سارا بوجھ مجھ پر پڑا۔میں نے اپنے کچھ ساتھی ججز سے کہا آپ بھی شیئر کریں۔ ایسے دور دراز کے اضلاع بھی ہیں جو توجہ کے حقدار ہیں۔ اختیارات کی تقسیم کے اصولوں پر عمل ہوگا،میری پہلی ترجیح دوردراز علاقوں کی ضلعی عدلیہ ہوگی،فوری طورپردوردراز علاقوں کی ضلعی عدلیہ پر توجہ دیناہوگی ۔انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے پاکستان کے عوام کے لیے قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے گی، طاقت کی تقسیم کا اصول غالب رہے گا، جج کے وقار اور عدالت کی عظمت کو سختی سے یقینی بنایا جائے، چاہے چترال میں بیٹھا کوئی جج ہو یا میرے ساتھ سپریم کورٹ میں بیٹھا جج، بار کی شکایات کو بھی فوری طور پر حل کیا جائے گا۔نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ فوری طور پر بلوچستان کے ضلع جیوانی، خیبر پختونخوا میں ٹانک، سندھ میں گھوٹکی اور پنجاب میں صادق آباد جیسے دور دراز اضلاع پر فوری توجہ دی جائے گی کیونکہ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ ہائی کورٹ اور حکومت کی فوری توجہ حاصل کرتے ہیں لیکن ان دور دراز اضلاع کو اہماری توجہ کی ضرورت ہے اور یہاں بہترین ججز کو وہاں جانا چاہیے کیونکہ انہیں کسی اور جگہ سے زیادہ ان کی ضرورت ہے۔
#/S