حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے سول نافرمانی کا اعلان واپس لینے کا مطالبہ کر دیا
سیاسی جماعتوں میں رابطے کبھی ختم نہیں ہوتے، رابطے تو رہتے ہیں لیکن رابطے کو مذاکرات نہیں کہہ سکتے ہیں،رانا ثناء اللہ خان
گفتگو کے دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں،  سینیٹر علی ظفرکی سینیٹ میں اظہار خیال
اسلام آباد(ویب  نیوز)

حکومتی اراکین اور( ن) لیگ کے سینئر رہنمائوں نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کی مشروط رضامندی ظاہر کرتے ہوئے سول نافرمانی کا اعلان واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔ وزیر اعظم کے مشیر اورپاکستان مسلم لیگ (ن)پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ جب ہم نے مذاکرات کی پیشکش کی تو پی ٹی آئی نے جواب میں کہا کہ حکومت کی کوئی اوقات نہیں، سیاسی جماعت سے رابطے کا مطلب مذاکرات نہیں تاہم ایک میز پر بیٹھ کر ہی بات چیت سے حل نکالا جاسکتا ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں رابطے تو کبھی بھی ختم نہیں ہوتے، رابطے تو رہتے ہیں لیکن رابطے کو مذاکرات نہیں کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد آتے وقت تک پی ٹی آئی سے رابطے میں تھے مگر ان رابطوں کو مذاکرات نہیں کہا جا سکتا، جب ہم نے مذاکرات کا کہا کہ تو انہوں نے کہا کہ آپ کی اوقات  اور حیثیت کیا ہے جو مذاکرات کریں۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ وزیر اعظم نے ڈیڑھ مہینہ پہلے فلور آف دی ہائوس پر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی آفر کی اور کہا تھا کہ آئیں بیٹھ کر بات کریں،  اب ہم نے سنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ہم سے ہی مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے تاہم اس سے پہلے وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کر رہے تھے، مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھا جائے تو حل سامنے آتے ہیں۔  سینیٹ میں پی ٹی آئی رہنما سینیٹر سید علی ظفر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گفتگو کے دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں، اعتماد کی فضا ہوئی تو مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں اور حکومت اس فضا کو بڑھا سکتی ہے۔ سینیٹر طلال چوہدری نے مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ڈرامہ اور جھانسہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات فیض حمید کو بچانے کیلیے مذاکرات کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی نے ایک بار پھر خبردار کیا  ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور مذاکرات کرے، اگر حکومت نے مذاکرات میں پہل نہ کی تو 14 دسمبر سے سول نافرمانی کیلئے تیار ہوجائیں۔ انہوں نے  کہا کہ  آئی ایس پی آر پریس ریلیز میں نہیں کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی کو پراسیکویٹ کیا جائے گا، لیکن یہ بات ہے کہ فیض حمید 9مئی پر تشدد واقعات میں ملوث ہیں اور ان کا مذموم سیاسی عناصر سے رابطہ تھا، اگر سیاسی عناصر کی بات ہے تو پھر تو وہ سیاسی عناصر تو پی ٹی آئی ہی ہے لیکن فی الحال  پریس ریلیز میں بانی  پی ٹی آئی کا نام نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے گھروں  میں گھس کر آگ لگائی گئی ، حساس آلات کو اٹھایا گیا ۔  آرمی ایکٹ کے تحت مقدمے نہیں چلنے تو پھر وہ کیوں رکھا ہوا ہے ؟جو لوگ ملوث تھے اس کی پراسیکیوشن تو ہو سکتی ہے۔ ملٹری کورٹ کا یہ فائدہ ہے کہ 30 دن میں  فیصلہ ہو جانا ہے، اس کے بعد ہائی کورٹ میں پہلی  نظر ثانی درخواست کر سکتے ہیں ۔قصوروار ہیں تو سزا برقرار رہے گی ۔ کیا جرم ڈسپلن کا پابند ہوتا ہے؟ ادارے کا جو ڈسپلن ہیں وہ  تو ادارے کے ملازم پر ہی لاگو ہوگا، جو باہرسے آ کر جرم کرے گا  اس پر ڈسپلن  کا کیاتعلق؟۔