اساتذہ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ایمانداری، اخلاص کے ساتھ ملک کے بہتر مستقل کو مدنظر رکھتے ہوئے ادا کریں
عدالت نے کنوینس الائونس کاٹنے کے خلاف سروسز ٹربیونل خیبرپختونخوا کا فیصلہ کالعدم قراردینے کی استدعا مستردی کردی
اسلام آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ اساتذہ کو موسم گرما اور موسم سرما کی تعطیلات کے دوران کنوینس الائونس روکا نہیں جاسکتا، ایسا کرنا غیر قانونی اور امتیازی عمل ہے۔اساتذہ کے ساتھ امتیازی سلوک مکمل طور پر غیر منطقی، امتیازی اور غیر منصفانہ ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ بجائے یہ کہ آئین کے آرٹیکل 25کی روشنی میں اساتذہ کو مزید موزوں ماحول فراہم کیا جائے اوراس معزز پیشے کی حوصلہ افزائی کی جائے ، ان کا کنوینس الائونس بغیر وجہ، تحریری احکامات اور نوٹیفکیشن کاٹا جارہا تھا۔ عدالت نے قراردیا کہ اساتذہ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ایمانداری، اخلاص، دلجمعی اور پوری توجہ کے ساتھ ملک کے بہتر مستقل کو مدنظر رکھتے ہوئے ادا کریں۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ عوامی عہدیدا ر وں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہرقسم کے استحصال کو روکنے کے لئے اقدامات کریں۔عدالت نے قراردیا ہے کہ سول سرونٹس ایکٹ1973ء کے سیکشن 23کے تحت سرکاری ملازمین کی ملازمت کے قواعد وضوابط ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوسکتے۔ عدالت نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اساتذہ کا موسم گرما اور موسم سرما کی چھٹیوں کے دوران کنوینس الائونس کاٹنے کے خلاف سروسز ٹربیونل خیبرپختونخوا کا فیصلہ کالعدم قراردینے کی استدعا مستردی کردی۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قراردیا ہے کہ معزز خیبر پختونخوا سروسز ٹربیونل، پشاور کی جانب جاری حکم میں کوئی بے قاعد گی نہیں پائی گئی لہذ ا یہ سول پیٹیشنزناقابل سماعت قراردے کر مسترد کی جاتی ہیں ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے حکومت خیبر پختونخوا بوساطت چیف سیکرٹری، پشاور اور دیگر، (ان سی پی نمبرز 84-P،377/P2020،469-P&474-P/2021) ، اور حکومت خیبر پختونخوا بوساطت سیکرٹری ایلیمنٹری اینڈسیکنڈری ایجوکیشن ، پشاور ودیگر (ان سول پیٹیشن نمبر307-P/2021)، اور حکومت خیبر پختونخوا بوساطت سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ، آرکائیوز اینڈ لائبریریز ڈیپارٹمنٹ، پشاور اوردیگر (ان سول پیٹیشن نمبر479-P2021سے سی پی نمبر549-P.2021)نے مقصد حیات، غنی محمد ، عبدالسلام ، جلال الدین، محمد وقاص منصوری، سعدیہ عامر، بنیامین خان، عظمت اللہ، ڈاکٹر محمد جہانزیب خرم، انعام اللہ، مہرعلی، سید عابد حسین شاہ، محمد ظاہر شاہ، عبدالصمد خان، عنایت اللہ خان، میر عسکر خان، عبدالرئوف خان، محمد بلال، محمد آصف محمود ، قمر عباس اور ظفر عباس سمیت 76افراد کو فریقین بنایا گیا تھا۔درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز خیبر پختونخوا میاںشفقت جان اور زاہد یوسف قریشی پیش ہوئے جبکہ مدعا علیحان کی جانب سے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ محمد عامر ملک تمام کیسز میں پیش ہوئے ۔کیس کی سماعت سات جولائی 2022کو ہوئی تھی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے 10صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے یہ 76درخواستوںکے زریعہ سروسز ٹربیونل خیبر پختونخوا 11-11-2019،13-02-2020اور16-03-2021کے فیصلوں کے خلاف دائر کی گئی ہیں جو کہ سروسز ٹربیونل نے مختلف درخواستوںکو منظور کرتے ہوئے جاری کئے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ذاتی حیثیت میں پیش ہونے والے مدعا علیحان سرٹیفائیڈ ٹیچرز محکمہ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈر ایجوکیشن خیبر پختونخوا میں 15ویں گریڈ میں کام کررہے ہیں۔ پہلے انہیں کنوینس الائونس دیا جارہا تھا لیکن اب موسم گرما اور سرما کی تعطیلات میں دینا بند کردیا گیا ہے۔ مدعاعلیحان نے سروسز ٹربیونل خیبر پختونخوا میں اپیلیں دائر کیں جو کہ مخلف فیصلوں کی صورت میں منظور کر لی گئیں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے پیش ہو کر مئوقف اختیار کیا کہ سروسز ٹربیونل خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری کردہ فیصلے غیر قانونی اور حقیقت میں غلط ہیں۔ یہ فیصلے موسم گرماا ور موسم سرما کی چھٹیوں کے دوران کنوینس الائونس نہ دینے کے حوالے سے جاری نوٹیفکیشن کی خلاف ورزی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کے پی سروسز ٹربیونل نے صرف پشاور ہائی کورٹ کے رٹ پیٹیشن نمبر 3162-P.2019 کے فیصلے پر انحصار کیا جس میں عدالت نے قراردیا کہ آئین کے آرٹیکل 212کے تحت عدالت کا اس معاملہ میں کوئی دائر ہ اختیار نہیں اور مدعا علیحان کی رٹ پیٹیشن مستردکردی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے یہ بھی مئوقف اختیار کیا کہ کے پی سروسز ٹربیونل ریکارڈ کا جائزہ لینے میں ناکام رہا یا وہ کنوینس الائونس کی ادائیگی کی صورت میں مالیاتی مشکلات کو مد نظر رکھنے میں ناکام رہا، جو کہ محکمہ دست طور پر موسم گرما اور موسم سرماکی چھٹیوں کے دوران کا ٹ رہا تھا۔ جبکہ مدعا علیحان کے وکیل کا کہنا تھا کہ کنوینس الائونس تمام سول سرونٹس کو قابل واجب الادا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان قانون اوروضع کردہ رولز کے مطابق وصول کررہے تھے تاہم درخواست گزاروں نے غلط فہمی کی بنیاد پر کنوینس الائونس بند کردیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم کے ایک درخواست گزار نے 2016میں فیڈرل سروسز ٹربیونل اسلام آباد میںکنوینس الائونس کے حوالہ سے اپیل دائر کی جو کہ فیڈرل سروسز ٹربیونل نے 3-12-2018کومنظور کر لی ۔وکیل کا کہنا تھا کہ کنوینس الائونس کی ادائیگی سے انکار آئین کے آرٹیکل 4اور25کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ موسم گرما اور موسم سرما کی تعطیلات کے دوران کنوینس الائونس کی ادائیگی روکنے کے حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن ریکارڈ پر نہیں لایا گیا، مدعا علیحان میں سے 16نے کنوینس الائونس روکنے کے فیصلہ کے خلاف 2019میں پشاور ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی تاہم عدالت نے سرکاری ملازم ہونے کی بنیاد پر معاملہ کے پی سروسز ٹربیونل کو بھجوادیا۔ کے پی سروسز ٹربیونل نے فیڈرل سروس ٹربیونل کے 3-12-2018کے فیصلہ ، جس میں قراردیا گیا تھا کہ سول سرونٹس موسم گرما اور موسم سرما کی چھٹیوں کے حقدار ہیں اور اس ہدایت کے ساتھ کاٹی گئی رقم واپس ادا کی جائے جبکہ فیڈرل سروسز ٹربیونل نے اپنے 17-10-2017کے فیصلے پر انحصار کیا جس میںقراردیا گیا تھا کہ سرکاری ملازمین چھٹیوں کا کنوینس الائونس وصول کرنے کے حقدار ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ متذکرہ بالا فیڈرل سروسز ٹربیونل کے فیصلہ کو سیکرٹری خزانہ نے سول پیٹیشنز نمبر4957-4966/2017 سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھاتاہم عدالت نے 13-07-2018کو ان پیٹیشنز کو ناقابل سماعت قراردے کر مسترد کردیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ سول سرونتس ایکٹ 1973کے سیکشن 2کی دفعہ (بی)کے مطابق (pay) کی یہ تعریف ہے کہ جو ملاز م کو ماہانہ رقم ملتی ہے، جس میں ٹیکنیکل پے، سپیشل پے، ذاتی پے، یا متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے منظور کردہ فوائد شامل ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ فنڈامینٹل رول 28(b) کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو تعطیلات بھی ڈیوٹی میں ہی شمار ہوتی ہیں ، لہذا قانون میں کوئی پوزیشن نہیں ہے کہ جس کے تحت مدعا علیحان کا کنوینس الائونس روکا جاسکے یا واپس لیا جاسکے۔عدالت نے قراردیا ہے کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کوئی بھی دستاویز پیش کرنے یا شرائط وضوابط پیش کرنے میں رہے جس کسی جگہ لکھا گیا ہو کہ مدعا علیحان کو کنوینس الائونس کی ادائیگی مشروط طور پر کی جارہی ہے یا اتھارٹی کسی بھی صورت اس کو روکنے کا اختیاررکھتی ہے یا موسم گرما اور سرما کی چھٹیوں میں منہا کر سکتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ قانون کا تحفظ اور قانون کے مطابق سلوک ہر شہری کا ایسا بنیادی حق ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل4کے تحت کسی شخص کی زندگی اور آزادی کے منافی کوئی کام قانون میں دیئے گئے پراسیس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ موجود ہ کیس میں موسم گرما یا موسم سرما کی چھٹیوں کے دوران کنوینس الائونس کی عدم ادائیگی یا منہا کیا جانا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ اساتذہ کے ساتھ امتیازی سلوک مکمل طور پر غیر منطقی، امتیازی اور غیر منصفانہ ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ بجائے یہ کہ آئین کے آرٹیکل 25کی روشنی میں اساتذہ کو مزید موزوں ماحول فراہم کیا جائے اوراس معزز پیشے کی حوصلہ افزائی کی جائے ، ان کا کنوینس الائونس بغیر وجہ، تحریری احکامات اور نوٹیفکیشن کاٹا جارہا تھا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ طلباء کی زندگی میں اہم کرداراداکرتے ہیں اور انہیں اپنے کیریئر میں کامیاب بناتے ہیں ، اساتذہ قوم کے بہتر اور روشن مستقبل کے معمار تصور کئے جاتے ہیں ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ہر ملک کے مستقبل کی تعمیر وترقی اور بہتری اچھے ماہرین تعلیم پر منحصر ہے۔ عدالت نے قراردیا کہ اساتذہ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ایمانداری، اخلاص، دلجمعی اور پوری توجہ کے ساتھ ملک کے بہتر مستقل کو مدنظر رکھتے ہوئے ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپریل 1943میں این ڈبلیو ایف پی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ تعلیم کے بغیر مکمل اندھیرا جبکہ تعلیم کے ساتھ روشنی ہے ،تعلیم ہماری قوم کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔