الیکشن کمیشن کی 31 دسمبر کو اسلام آباد بلدیاتی انتخابات کرانے سے معذرت،عدالت نے حتمی تاریخ مانگ لی
اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن تحریری جواب دائر کریں، اب ہمیں اسے کنفیوز نہیں کرنا چاہیے، جمعہ کی صبح دوبارہ یہ کیس سن لیتے ہیں، عدالت
قانون کی غلط تشریح کی ہے، جب کوئی نوٹی فکیشن فیلڈ میں نہیں تو الیکشن کمیشن کیسے حلقہ بندیاں کر سکتا ہے؟جسٹس ارباب محمد طاہر
بہت سنجیدہ معاملہ ہے، الیکشن کمیشن جلد بازی میں کیوں چلتا ہے؟ حقیقت پسندانہ ٹائم لائن دیں یہ نہ ہو کہیں جون 2023 کو الیکشن ہوں
الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو جمعہ تک جواب جمع کرانے کی ہدایت، اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت جمعہ تک ملتوی کردی
اسلام آباد (ویب نیوز)
الیکشن کمیشن نے 31 دسمبر کو اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے سے معذرت کرلی جس پر عدالت نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کی حتمی تاریخ مانگ لی۔ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو ملتوی کرانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کی درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ لا افسران، اٹارنی جنرل اشترو اوصاف، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے کی۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن 31 دسمبر کو انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ مشکل ہے۔عدالت نے کہا کہ کیا آپ نے اس عدالت کو جو یقین دہانی کرائی تھی کہ الیکشن ملتوی کرنا اس کی خلاف ورزی نہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے اس عدالت کو مشروط یقین دہانی کرائی تھی۔ اشتراوصاف نے کہا کہ عدالت اس کیس میں عارضی ریلیف نہیں دے سکتی کیونکہ یہ تو پھر پٹیشن کا مکمل ریلیف ہوگا۔عدالت نے اشتر اوصاف کو ہدایت دی کہ کیا آپ نے کل کا آرڈر دیکھا ہے؟ اس پر معاونت کریں۔ اشتر اوصاف نے کہا کہ ڈی جی لا الیکشن کمیشن موجود ہیں ان سے پوچھیں الیکشن ملتوی کیوں ہوئے۔عدالت نے کہا کہ ڈی جی صاحب یہ تو آپ پر ڈال رہے ہیں اب آپ بتائیں، کیا الیکشن کمیشن 31 دسمبر کو الیکشن کرانے پر تیار ہے؟ اس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کے سامان کی ترسیل میں وقت لگے گا۔عدالت نے پوچھا کہ سامان کی ترسیل تو آپ کرچکے تھے کل آپ نے کہا تھا، اسلام آباد کے اندر ہی سامان کی ترسیل میں کتنا وقت لگے گا؟ یہ بتائیں، اس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ نئی صورتحال میں 31 دسمبر کو الیکشن ممکن نہیں تھے۔عدالت نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ عدالت میں کرائی گئی یقین دہانی کے منافی نہیں؟ آپ کے 101 یونین کونسلز کی حلقہ بندی کی پراسس مکمل کیا؟ ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا کہ ساٹھ دن کے اندر 125 یونین کونسلز میں حلقہ بندیاں ہونی ہیں۔عدالت نے کہا کہ حکومت کو یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں وجوہات کا ذکر ہم نے جواب میں کیا ہے، ڈی جی الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے بھی کہا اب بھی کہہ رہے ہیں الیکشن کے نزدیک حکومت کوئی ترمیم نہ کرے۔عدالت نے پوچھا کہ بلدیاتی انتخابات میں کتنے فنڈز استعمال ہوئے اس سے متعلق بتائیں؟ اشتر صاحب قومی خزانے کا اتنا نقصان کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس موقع پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات میں ہونے والے اخراجات کی تفصیل فراہم کرانے کا حکم دے دیا۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے ڈی جی لا الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ جو فنڈز الیکشن کمیشن کو فراہم کیے گئے وہ کن چیزوں پر خرچ ہوئے؟کیا اب تک پچاس ساٹھ کروڑ کی رقم خرچ نہیں ہوچکی؟ ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا کہ نہیں، ابھی اتنی رقم خرچ نہیں ہوئی، تحریری طور پر عدالت کو بتائیں گے۔عدالت نے پوچھا کہ اب تک الیکشن کمیشن کتنے فنڈز خرچ کر چکا ہے؟ تحریری طور پر بتائیں، ذہن نشین کرلیں یہ عدالت کسی صورت قومی خزانے کو نقصان نہیں پہنچانے دے گی، جو صورتحال ہے آپ اس سے آگاہ ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ جی بالکل معلوم ہے، میں اپنے دفتر میں بھی بجلی تک کی بچت کرتا ہوں۔عدالت نے کہا کہ اس وقت یونین کونسلز کی تعداد 125 ہوگئی ہے تو آپ کو حلقہ بندیوں میں کتنا وقت لگے گا؟ ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے لیے قانون کے مطابق 60 دن کا وقت درکار ہے، عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ 60 دنوں بعد الیکشن کرانے کی پوزیشن میں ہوں گے؟ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ گزشتہ روز بتایا تھا کہ پچاس سے ساٹھ کروڑ روپے خرچ ہوچکے مگر وہ اعداد و شمار غلط تھے، وہ بتانے میں غلطی ہوئی، 15 سے 16 کروڑ خرچ ہوئے ہوں گے، الیکشن کمیشن سمجھتا تھا کہ وفاقی حکومت شیڈول کے اعلان کے بعد یونین کونسلز نہیں بڑھا سکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی۔جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ آپ تو کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے اپنی درستی کرلی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پٹیشنر کا کون سا حق متاثر ہوا؟ وہ تو الیکشن میں امیدوار ہی نہیں، عدالت نے پوچھا کہ مگر وہ اسلام آباد کا شہری ہے اور ووٹ دینا اس کا حق ہے، اس پر اٹارنی جنرل بولے کہ پٹیشنر سے ووٹ دینے کا حق کبھی بھی نہیں چھینا گیا،اٹارنی جنرل نے پٹشنر سے سوال کیا کہ کیا یہ پراکسی پٹیشن ہے ؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل سردار تیمور نے کہا کہ یہ پٹیشن دائر کرنے کے لیے پی ٹی آئی نے اتھورائز کیا ہے ،اس پر اشتر اوصاف نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے یہ پٹیشن دائر کی ہے تو پھر یہ پراکسی پٹیشن ہے، پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ یہ پٹیشن علی نواز اعوان نے پی ٹی آئی کے حوالے سے فائل کی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کے بل کی صدر سے منظوری ہوچکی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بل پاس ہو چکا ہے، صدر کی منظوری کی ایک رسمی کارروائی باقی ہے۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ جب وہ حکومت میں تھے انہوں نے بھی دلچسپی نہیں لی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کوئی سیاسی کمنٹ نہیں کروں گا مگر کیا پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوگئے؟ اس پر عدالت نے کہا کہ وہاں کا معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیوں نہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا جائے؟ اس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے یونین کونسلز بڑھانے کا فیصلہ مسترد کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا، ہائیکورٹ نے ہمارا وہ آرڈر کالعدم قرار دیا تھا، ہائیکورٹ نے ہمیں فریقین کو دوبارہ سن کو فیصلہ کرنے کا کہا تو ہم نے فریقین کو سن کر ہی الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ دیا۔مکمل ریکارڈ ساتھ نہ لانے پر عدالت نے الیکشن کمیشن کے حکام پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو آج سارا ریکارڈ ساتھ لانا تھا، گزشتہ روز جاری کیے گئے نوٹس میں آپ کو مکمل ریکارڈ ساتھ لانے کا کہا گیا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں بطور اٹارنی جنرل کورٹ کے سامنے کھڑا ہوں کسی پارٹی کی طرف سے نہیں، مجھے اپنے علاج کے لیے بیرون ملک جانا تھا لیکن اس کیس کی وجہ سے رک گیا۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ آپ تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کر دیں۔ عدالت نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو جمعرات کے روز ہی تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کردی اور کہا کہ جب کوئی نوٹی فکیشن فیلڈ میں نہیں تو الیکشن کمیشن کیسے حلقہ بندیاں کر سکتا ہے؟ اس وقت کوئی نوٹی فکیشن فیلڈ میں موجود نہیں، الیکشن کمیشن نے قانون کی غلط تشریح کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلدیاتی قانون میں ترمیم کے تحت میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات براہ راست ہوں گے، نیا بلدیاتی قانون قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو چکا ہے، صدر مملکت کے دستخط باقی ہیں اب اس قانون میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، اگر الیکشن پہلے ہوجاتے تو باقی یونین کونسلز کے عوام محروم رہ جاتے۔جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ آپ تحریری طور پر عدالت میں اپنا جواب جمع کروا دیں، اشتر اوصاف نے کہا کہ مجھ سے ایسی یقین دہانی نہ کرائیں جو میں پوری نہ کر سکوں۔ اس پر جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن تحریری جواب دائر کریں، سادہ کیس ہے اب ہمیں اسے کنفیوز نہیں کرنا چاہیے، تحریری جواب جمع کرائیں جمعہ کی صبح دوبارہ یہ کیس سن لیتے ہیں، ڈی جی صاحب کیا الیکشن کمیشن نے بغیر کسی قانونی ترتیب کے کام کیا ہے، آپ کو اب جو جواب دینا ہے اس کو ذرا دیکھ کر لیجیے گا۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کام بہت جلد بازی میں نہیں کیا؟ اس پر اٹارنی جنرل بولے کہ اب اگر الیکشن ملتوی کرنے کا آرڈر کالعدم ہوا تو مسائل پیدا ہوں گے جب کہ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور حکومت کا الیکشن شیڈیول پر ہونے سے کون سا حق متاثر ہوگا؟ عدالت نے جمعہ کی صبح 10 بجے تک الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی اور کہا کہ کیس کی سماعت دو بجے کریں گے۔الیکشن کمیشن نے عدالت کے سامنے جواب دے دیا اور کہا کہ 31 دسمبر کو الیکشن نہیں کراسکتے اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ 27 دسمبر تک تو یہ تیار تھے آج 29 دسمبر کو کو کہہ رہے ہیں کہ الیکشن نہیں ہوسکتے۔ وکیل جماعت اسلامی نے کہا کہ 27 دسمبر کو تو یہ ڈیوٹیاں بھی تبدیل کر رہے تھے۔جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ آپ نے بلدیاتی الیکشن کرانے کا کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا، اپنے تحریری جواب میں آپ کو یہ بھی بتانا ہے، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے الیکشن کمیشن جلد بازی میں کیوں چلتا ہے؟ یہ لوگوں کے ووٹ کے حق کا معاملہ ہے، حقیقت پسندانہ ٹائم لائن دیں یہ نہ ہو کہیں جون 2023 کو الیکشن ہوں۔عدالت نے کیس کی مزیدجمعہ دن دو بجے تک ملتوی کردی۔