چیف جسٹس کے ون مین پاور شو کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی: سپریم کورٹ ججز
سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا
چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے ، عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی کو طے کرے
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے
ہائیکورٹ زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ کرے،پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات، ازخود نوٹس پر دو ججزکا 27 صفحات پر مشتمل اختلافی فیصلہ جاری
اسلا م آباد(ویب نیوز)
پنجاب اور کے پی الیکشن کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے لیے جانے والے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس کے حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا تفصیلی فیصلہ سامنے آگیا ہے۔27 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ ور جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ از خود نوٹس 4 ججز نے مسترد کیا، آرڈر آف کورٹ 3-4 کا فیصلہ ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کر دیا۔، ججز نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کو وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے، یہ درست وقت ہے کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور کے پی میں 90 روز میں انتخابات کے معاملے میں ازخود نوٹس لیا تھا، بعد ازاں کئی سماعتوں بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ نے یکم مارچ کو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، اس وقت کے لارجر بنچ میں شامل دو ججز نے فیصلے اور ازخود نوٹس پر اختلاف کیا تھا جن کا تحریری فیصلہ پیر کو سامنے آیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے پنجاب کے پی الیکشن سے متعلق تحریری فیصلے میں اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس از خود نوٹس لینے اور اسپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں جس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید ہوتی ہے اور اس کی عزت و تکریم میں کمی واقع ہوتی ہے یہ صحیح وقت ہے کہ ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔تفصیلی فیصلے میں ججز نے کہا ہے کہ ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بنچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں، دو معزز ججز نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے بنچ میں رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑادیا لیکن ان کا فیصلہ معاملے کے اختتامی حتمی فیصلے میں شامل ہے۔ججز نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پوری عدالت کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جاسکتا، عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی کو طے کرے۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی نہ کہ اس سے جڑے مفادات، ججز کی خواہش غالب آئے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے، عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو، ہائی کورٹس میں کیس زیر التوا ہونے کے باوجود سوموٹو لیا گیا۔ججز نے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ بہترین وقت ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ون مین شو سے لطف اٹھانے کے اختیارات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلہ کرنے کے اکیلے اختیارات پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات فل کورٹ کے بنائے گئے قوانین کے تحت ہونے چاہئیں،27 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا، اختلافی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیی آفریدی کے 23 فروری کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں، چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، پوری سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔اختلافی فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے، ہائیکورٹ زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ کرے ۔۔