فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا سپریم حکو مت کا بینچ دوبارہ ٹوٹ گیا

حکومت کے اعتراض پر جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد 6 رکنی بینچ نے سماعت کی

جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی عزیز مقدمہ میں درخواست گزار ہے، وفاقی حکومت کی ہدایات ہیں کہ مقدمہ نہ سنیں،اٹارنی جنرل

میں نے پہلی سماعت پر پوچھا تھا کسی کو اعتراض ہے تو بتا دیں، اب بینچ پر اعتراض کس کی طرف سے اٹھایا گیا،جسٹس منصورعلی شاہ

 کیا اس سب پر ہم وزیراعظم سے پوچھیں؟ایسے الزامات حکومت لگائے گی تو کیا ہوگا، عدالت کو بدنام مت کریں، آپ بینچ کے ایک جج پر جانبداری کا الزام لگا رہے ہیں،چیف جسٹس عمرعطابندیال

میرے خیال سے اعتراض کے بعد میں میرا اس بینچ میں شامل رہنا نہیں بنتا،کبھی اس بینچ میں نہیں بیٹھا جب مجھ پر جانبداری کا شبہ بھی ہو،جسٹس منصور علی شاہ

21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، فوج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے، چیف جسٹس

امید ہے کیس کی سماعت کے دوران کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا،دوران سماعت ریمارکس

کیس کی سماعت آج (منگل ) صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی

اسلام آباد (ویب  نیوز)

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض کے بعددوبارہ ٹوٹ گیا ۔پیر کوچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی عزیز اس مقدمہ میں درخواست گزار ہے، وفاقی حکومت کی ہدایات ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ یہ مقدمہ نہ سنے۔دوران سماعت، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں نے پہلی سماعت پر پوچھا تھا کسی کو اعتراض ہے تو بتا دیں، اب بینچ پر اعتراض کس کی طرف سے اٹھایا گیا۔ کوڈ آف کنڈیکٹ کا آرٹیکل 4 بڑا واضح ہے، کیا اعتراض ہے کھل کر بتائیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ،سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے رشتہ دار ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں بینچ سے خود کو الگ کرتا ہوں۔جسٹس منصور علی شاہ وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد بینچ سے علیحدہ ہوگئے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے پہلے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، عدالت کے فیصلوں پر عمل اخلاقی ذمہ داری ہے اور ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں البتہ بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن انکی اخلاقی اتھارٹی کیا ہے۔ لوگ عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، بینچ میں شامل رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ جج صاحب خود کریں گے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے خیال سے اعتراض کے بعد میرا اس بینچ میں شامل رہنا نہیں بنتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس سب پر ہم وزیراعظم سے پوچھیں؟ اگر ایسے الزامات حکومت لگائے گی تو کیا ہوگا، عدالت کو بدنام مت کریں، آپ بینچ کے ایک جج پر جانبداری کا الزام لگا رہے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں کبھی اس بینچ میں نہیں بیٹھا جب مجھ پر جانبداری کا شبہ بھی ہو۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جج صاحب پر جانبداری کا کہہ رہے ہیں یا مفادات کے ٹکرائو کا؟ آپ کس بنیاد پر اعتراض کر رہے ہیں، آپ ایک قابل وکیل ہیں، آپ اچھے کردار اور اقدار کے حامل وکیل ہیں، ہماری حکومت ہمیشہ بینچز کی تشکیل پر بات کرتی ہے، کبھی کہا جاتا ہے بینچ درست نہیں بنایا گیا، آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں، آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آج عدالتی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کا کیس ہے، بینچ پر اعتراض نہیں بنتا، جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پرنظرثانی کریں۔جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں، کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے میں پھر کبھی اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب معزز جج  خود ہی معذرت کرچکے ہیں۔درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبا سے مذاق میں ایک بات کہی تھی،انہوں نے کہا تھا کہ کیس ہارنے لگو تو بینچ پر اعتراض کردو، وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم ابھی اٹھ رہے ہیں، آپس میں مشاورت کے بعد آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ سپریم کورٹ کے ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلے گئے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد 6 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کردیا۔

بینچ بھی ٹوٹ گیا اور 6 رکنی بینچ نے سماعت جاری  رکھی ….

فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا جس کے بعد کیس کی سماعت کرنے والا 7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا اور 6 رکنی بینچ نے سماعت کا سلسلہ آگے بڑھایا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے 9 رکنی بینچ نے 22 جون کو سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تھا۔مذکورہ درخواستوں پر پیر کو سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھادیا، جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کا 6 رکنی بینچ سماعت کی۔6 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔سماعت کے آغاز پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے ہر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کر کے آرہے ہیں۔چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید ریمارکس دیے کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعائیں کر رکھی ہیں۔حامد خان نے کہا کہ میں اِن میں سے صرف ملٹری کورٹ والی استدعا پر فوکس کروں گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔دریں اثنا درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ایف پی ایل ای کے ساتھ اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے؟ اپنے پہلے دن کے سوال پر جاوں گی کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا افواج کے افسران کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ برطانیہ اور امریکا میں مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ آرمی آفیشلز کے ٹرائل پر تھا۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک آرمی آفیسر کا بھی ملٹری کوٹس میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر کسی عدالت میں ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے، بینکنگ کورٹ یا اے ٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل شروع ہوا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہو گا تو یوں ہوگا، ایسے تو کل ملٹری افسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گی، ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے، متعلقہ بات ہی کریں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ آرٹیکل 175 کی شق 3 کو بنیادی انسانی حقوق سے کیسے جوڑ رہے ہیں، اس کا اطلاق تو پھر فوجی عدالتوں پر بھی ہوگا، 175 کی شق 3 کا یہاں کیا تعلق ہے؟سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ آرٹیکل 175 کی شق 3 شفاف ٹرائل کی دی گئی ضمانتوں کے آرٹیکل 9 اور 10 کے ذریعے مثر ہوتا ہے، کسی شخص کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کوئی عدالتی نظیر دکھا دیں، 175 کیسے ملٹری ایکٹ سے منسلک ہے، ایک گھڑی ہے جسے گرینڈ کومپلیکیشن (Grand Complication) کہتے ہیں، آپ گرینڈ کومپلکیشن نہ بنائیں، آپ اپنے دلائل مختصر اور صرف کیس سے متعلق دیں۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایف بی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا، جو اس سے مطابقت نہیں رکھتا، کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ آپ آرمی ایکٹ کی شقیں چیلنج کر رہے ہیں لیکن وجوہات نہیں بتا رہے۔سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ایک کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جوڈیشل امور جوڈیشری ہی چلا سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، آپ جو بات کر رہے ہیں وہ فوجیوں کے حق میں جاتی ہے، ہم بہت سادہ لوگ ہیں، ہمیں سادہ الفاظ میں بتائیں، جو باتیں یہاں کرر ہے ہیں ہارورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔سلمان اکرام راجا نے کہا کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا، میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو ہمیں یہ ہی بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ سلمان اکرا راجا نے جواب دیا کہ کسی پر الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا، سویلینز کی 2 اقسام ہیں، ایک وہ سویلین ہیں جو آرمڈ فورسز کو کوئی سروسز فراہم کرتے ہیں، فورسز کو سروسز فراہم کرنے والے سویلین ملٹری ڈسپلن کے پابند ہیں، دوسرے سویلینز وہ ہیں جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں، جو مکمل طور پر سویلینز ہیں ان کا ٹرائل 175/3 کے تحت تعینات جج ہی کرے گا۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایسی کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175/3 سے تعلق نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں ہو سکتے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ آرمی چیف کے سامنے یا ان کی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہو، یہ کہنا کہ ملٹری کورٹس ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرح ہو تو کیس کا دائرہ کار وسیع کر دے گا، ہم آسٹریلیا یا جرمنی کی مثالوں ہر نہیں چل سکتے۔جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ ایک متوازی نظام ہے،جیسے عدالت نہیں کہہ سکتے؟ سلمان اکرام راجا نے جواب دیا کہ جی میں یہ ہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے، آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے، سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دے کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ سویلین کی حد تک ہی ٹرائل چیلنج کر رہے ہیں نا؟ آپ آرمی آفیشل کے ٹرائل تو چیلنج نہیں کر رہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ نہیں میں آرمی آفیشلز کے ٹرائل چیلنج نہیں کر رہا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ امریکی قانون ان عام شہریوں کے بارے میں کیا کہتا ہے جو ریاست کے خلاف ڈٹ جائیں؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ امریکا میں عام شہریوں کی غیر ریاستی سرگرمیوں پر بھی ٹرائل سول عدالتوں میں ہی ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا تھا دنیا میں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہوتا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا ہمارے خطے میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ بھارت میں ایسا نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔دریں اثنا عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر جاری سماعت میں سوا 2 بجے تک وقفہ کر دیا۔سویلین کے فوجی ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو گئی، جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا دلائل دے رہے ہیں۔وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کو اس لیے چیلنج کیا کہ اس کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، میرے مکل جنید رزاق کو اٹھا لیا گیا۔وکیل سلمان کا کہنا تھا کہ جنید رزاق کے بیٹے ارزم رزاق کو ایک الزام لگا کر اٹھایا گیا۔وکیل چیئرمین پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہو، اگر کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیئے۔ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں۔چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ صرف قانون کی بات کریں۔وکیل عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ کھلی عدالت میں ٹرائل ہو۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امید ہے کہ اس کیس کی سماعت کے دوران کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا، جو افراد گرفتار کیے گئے ان کی مکمل تفصیلات بھی فراہم کریں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 102 زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملنے کی اجازت دی جائے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حراست افراد کے کھانے کی بھی شکایت آئیں ہیں، زیر حراست افراد کو ریڈنگ میٹیریل بھی فراہم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ خاندان کو کیوں قیدی بنایا گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار جنید رزاق کی فیملی کب سے قید میں ہے۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 9 مئی سے ارم رزاق و دیگر کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اتنے دن گزر گئے ابھی تک کچھ پتہ نہیں، اٹارنی جنرل آپ اس معاملے کو دیکھیں، ان کو خاندان سے ملنے کی اجازت دیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ شکایت کس کی جانب سے تھی، خاندانوں کو کیوں اٹھایا ہے؟ مجھے توقع ہے کہ عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک کوئی ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو کوئی شکایت ہے تو نام بتادیں میں متعلقہ حکام سے بات کرنے کی کوشش کروں گا۔وکیل لطیف خان کھوسہ نے بتایا کہ وکیلوں تک رسائی بھی نہیں دی جارہی، نہ خاندان کو ملنے دیا جا رہا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے نام بتا دیں تو میں اگے بات کروں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھیں۔بعد ازاں، عدالت نے سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔

#/S