کراچی: (ویب نیوز)
سندھ بار کونسل نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
سندھ بار کونسل نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 2023ء کالعدم قرار دینے کی استدعا کی، سندھ بار کونسل نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف بھی درخواست دائر کی، درخواست میں مؤقف اختیارکیا گیا فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو بھی خلاف آئین قرار دیا جائے۔
سندھ بار کونسل نے بیرسٹر صلاح الدین کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔
اسلام آباد(ویب نیوز)صدر مملکت عارف علوی کے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہ کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔سپریم کورٹ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل معاملے کی تحقیقات کے لئے درخواست دائر کر دی گئی۔درخواست ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے دائر کی اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ معاملے کی تحقیقات کے لئے حکومت کو 10 دن میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے۔درخواست کے زیر التوا ہونے تک آفیشل سیکرٹ اور آرمی ایکٹ پر عملدرآمد روک دیا جائے۔درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ صدر مملکت کے بیان کے بعد قانون سازی پر سوالات اٹھ رہے ہیں، آفیشل سیکرٹ اور آرمی ترمیمی ایکٹ سے براہ راست عوام کے حقوق وابستہ ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ان خیالات کااظہار صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اتوار کے روز ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں کیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں۔ تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔اللہ سب جانتا ہے، وہ انشا اللہ معاف کر دے گا۔ لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔
پاکستان کی وزارت قانون اور انصاف نے صدر پاکستان کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر نے دانستہ طور پر بل کی منظوری میں تاخیر کی۔وزارت قانون اور انصاف نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت جب صدر کو کوئی بل منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو ان کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں۔ یا تو وہ اسے منظور کریں یا اسے اپنے اعتراض کے ساتھ پارلیمان کو بھیج دیں۔ آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔اس فوری نوعیت کے معاملے میں کسی بھی اختیار پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ صدر مملکت نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی۔بلوں کو تحفظات یا منظوری کے بغیر واپس کرنے کا اختیار آئین میں نہیں دیا گیا، ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔اگر صدر مملکت کے بل پر تحفظات تھے تو وہ اپنے تحفظات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسے کہ انہوں نے ماضی قریب اور ماضی میں کیا، وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔یہ تشویشناک امر ہے کہ صدر مملکت نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا۔ صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہئے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن نہیں دیتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوں کو تحفظات یا منظوری کے بغیر واپس کرنے کا اختیار آئین میں نہیں دیا گیا، ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔صدر مملکت کے بل پر تحفظات تھے تو وہ اپنے تحفظات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسا کہ انہوں نے ماضی قریب اور ماضی میں کیا، وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔وزارت قانون نے مزید کہا ہے کہ یہ تشویشناک امر ہے کہ صدر نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا۔ صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اتوار کو آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے عملے نے ان کے حکم کے خلاف کام کیا۔اتوار کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں صدر عارف علوی نے لکھا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔بقول صدر مملکت: میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں، تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔