پرویز مشرف مرحوم کو سزا سنانے والی خصوصی عدالت لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں تھی۔ سپریم کورٹ
لاہور ہائی کورٹ نے غیر آئینی قراردے کر درخواست گزار کو وہ ریلیف فراہم کیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا۔ چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں پرویز مشرف مرحوم کو خصوصی عدالت سے سزائے موت کے مقدمے کی سماعت منگل تک ملتوی
اسلام آباد( ویب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے سابق مرحوم صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کوسزاسنانے والی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قراردے کر درخواست گزار کو وہ ریلیف فراہم کیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا اور خصوصی عدالت کو ہی اکھاڑ کر پھینگ دیا۔ اگر صوبہ پنجاب کی حدود میں کوئی کام کیا جارہا ہوتو پھر لاہور ہائی کورٹ کی حدود بنتی ہے، خصوصی عدالت اسلام آباد میں کام کررہی تھی، وفاقی حکومت یا خصوصی عدالت اسلام آباد میں کام کررہی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بنتاہے، کیسے لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بنتا ہے۔ حیران کن اور پریشان کن طور پر لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو ہی اکھاڑ پھینکااورحکم جاری کیا اصل میں تو لاہور ہائی کورٹ کے تین ججز کے خلاف حکم جاری ہونا چاہیئے تھا۔جبکہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ کیس کا فیصلہ کرنے کے لئے دائرہ اختیار ہونا چاہیئے۔جبکہ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم اس فیصلے کو یہ کہہ کر کالعدم قراردے دیں گے کہ عدالت کا یہ دائرہ اختیار نہیں تھا۔ خصوصی عدالت کی تشکیل کانوٹیفیکیشن ہی چینلنج نہیں کیا گیا تو پھر فیصلے میں مصطفیٰ امپیکس کیسے آگیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اورجسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل چار رکنی لارجر بینچ نے سابق مرحوم صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے غداری کیس میں دی جانے والی سزائے موت اور لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے خصوصی عدالت کو ہی غیر آئینی قراردینے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ منگل کے روز تک ملتوی کردی۔ دوران سماعت لاہور ہائی کورٹ بارایسوسی راولپنڈی کے سابق صدر توفیق آصف کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے۔ چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیس کے میرٹس پر نہ جائیں بلکہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے حوالہ سے کیس پر فوکس کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پرویز مشرف کو مفرور نہ کہیں اورخصوصی عدالت کے فیصلے کے حوالہ سے کچھ نہ کہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر فوکس کریں۔ ٹرائل کیسے ہوااس کو اپیل میں سنیں گے، ابھی ہم لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے حوالہ سے معاملہ کو سن رہے ہیں۔ حامد خان کا دلائل میں کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے احکامات کو کالعدم قراردیا ۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن میاں نذیر احمد کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔بیان حلفی پرویز مشرف کا لگایا گیا اوربتایا گیا کہ پرویز مشرف اوتھ کمشنرکے سامنے پیش ہوئے حالانکہ پرویز مشرف اس وقت بیرون ملک تھے۔ عدالت کے استفسار پر بتایا گیا کہ اوتھ کمشنر کا نام میاں خالد محمود جوئیہ تھا جنہوں نے 23نومبر 2019کو بیان حلفی کی تصدیق کی۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف 18مارچ 2016کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ای سی ایل سے نام نکالنے اور سپریم کورٹ کی اجازت سے بیرون ملک گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اور پھر پرویز دبئی میں وفات پاگئے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے درخواست پر اعتراض لگایا گیا تھا کہ خصوصی عدالت بھی اسلام آباد میں ہے اور سیکرٹری داخلہ بھی اسلام آباد میں ہیں اس لئے لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار نہیںبنتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مصطفی امپیکس کیا فیصلہ کب آیا۔ اس پر حامد خان نے بتایا کہ یہ فیصلہ 18ستمبر2016کو آیا تھا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو کالعدم قراردینے کے حوالہ سے فیصلہ 13جنوری2020کو دیا جبکہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سزادینے کا فیصلہ 19نومبر2019کو دیا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست پر وہ ریلیف فراہم کیا گیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا اور خصوصی عدالت کو ہی اکھاڑ کر پھینگ دیا۔ چیف جسٹس نے حامد خان سے استفار کیا کہ خصوصی عدالت کو ختم کرنے کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ نہیں۔ اس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ نہیں کی گئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی جانب سے بیماری کی وجہ سے ریلیف مانگا گیا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے پاس وہ پاورز ہیں جو سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 187کے تحت مکمل انصاف فراہم کے لئے استعمال کرسکتی ہے، ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار کیا ہے، کیا درخواست گزار کو خصوصی عدالت کے فیصلہ کے خلاف کوئی دیگر ریمیڈی حاصل تھی۔ اس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ درخواست گزارکوسزا کے خلاف اپیل کااختیار حاصل تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر صوبہ پنجاب کی حدود میں کوئی کام کیا جارہا ہوتو پھر لاہور ہائی کورٹ کی حدود بنتی ہے، خصوصی عدالت اسلام آباد میں کام کررہی تھی، وفاقی حکومت یا خصوصی عدالت اسلام آباد میں کام کررہی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بنتاہے، کیسے لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بنتا ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کادائرہ اختیار نہیں بنتا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حیران کن اور پریشان کن طور پر لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو ہی اکھاڑ پھینکااوررٹ جاری کی، اصل میں تو لاہور ہائی کورٹ کے تین ججز کے خلاف رٹ جاری ہونی چاہیئے تھی۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ کیا درخواست میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ ان بنیادوں پر لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بنتا ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب لوگ ایک پییج پر تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرائن آف ون پیچ کیا قانونی دلیل ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں سید علی ظفر عدالتی معاون تھے کیا وہ بھی ایک پیچ پر تھے اورنہوں نے اپنی کوئی رائے نہیں دی۔ چیف جسٹس نے حامد خان سے کہا کہ ججمنٹ کی تعریف کہاں لکھی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیشن جج کیس کو پھانسی سزادینے کا حکم دے سکتا ہے لیکن کیا وہ کوئی فیملی کورٹ کا کیس سن سکتا ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں بلکہ یہ ایک تھیسز کا ٹکڑا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ہم چاروں جج بیٹھ کر کوئی فیملی کورٹ کا کیس سنیں توکیا یہ ہمارا دائرہ اختیارہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں بلکہ یہ فیملی کورٹ کا دائرہ اختیار ہے، ہمارا فیصلہ کاغذ کا ٹکڑا ہوگا۔کیا ہائی کورٹ کا اوریجنل دائرہ اختیار تھا جب خصوصی عدالت اس کیس کو سن رہی تھی۔حامد خان نے بتایا کہ انہیں دلائل مکمل کرنے لئے 20منٹ مزید درکارہو ں گے اس پر عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ منگل کے روز تک ملتوی کردی اورقراردیا کہ مرحوم پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے پرویز مشرف کے لواحقین سے رابطہ اور جواب جمع کروانے کے ایک ہفتے کا وقت مانگا ہے اس لیئے ایک ہفتے تک سماعت ملتوی کررہے ہیں۔