سپریم کورٹ کی ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کارروائی مکمل، اپنی رائے محفوظ کر لی
عدالت جلد ریفرنس پر اپنی مختصر رائے دے گی، تفصیلی رائے بعد میں دی جائے گی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 186کے تحت سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کیس پرفیصلہ پر نظرثانی کے لئے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس پر کارروائی مکمل کرنے کے بعد اپنی رائے محفوظ کر لی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ایک بینچ میں شامل ایک جج ریٹائرڈ ہورہے ہیں اس لئے جلد عدالت ریفرنس پر اپنی مختصر رائے دے گی جبکہ تفصیلی رائے بعد میں دی جائے گی۔ مختصر رائے دینے کے حوالہ سے وقت اوردن کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ہم اپنا کام کریں اوردوسرے اپنا کام کریں۔ یہ تودورائے نہیں قتل توہوا ہے۔ ہم سب نے غلطیاں کی ہیں، قانون سازوں نے ہمیں آئین کے آرٹیکل 186کے تحت اپنی رائے دینے کااختیاردیا ہے، ہم اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ جبکہ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کو سیشن کورٹ سے جب کیس منتقل ہواتو پھر ہائی کورٹ سیشن کورٹ بن گیا، ہائی کورٹ نے ریفرنس بنا کربھیجنا تھا،جب کوئی ریفرنس نہیں تھا توپھر سزاکیسے دی گئی۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ دنیا نے ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کی مذمت کی۔ عدالت نے میاں رضا ربانی، نوابزادہ احمد رضا خان قصوری اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کے دلائل سننے کے بعد ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 9رکنی لارجر بینچ نے ذولفقار علی بھٹو کیس کے فیصلہ پر نظرثانی کے حوالہ سے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ صنم بھٹو، آصفہ بھٹو زرداری اور بختاور بھٹو زرداری کے وکیل سینیٹر میاں رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ ایف ایس ایف کے اہلکاروں انسپیکٹر رانا افتخار، ارشد اور صوفی غلام مصطفی پر نوابزادہ محمد رضا قصوری کو قتل کرنے کا الزام تھا۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ سیشن کورٹ سے کیس ہائی کورٹ منتقل کرنے کی کوئی وجہ بتائی گئی تھی کہ نہیں۔اس پررضاربانی کا کہنا تھا کہ کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 187کے تحت یہ معاملہ ہمارے سامنے زیر التوانہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 187کے تحت عدالت حکم جاری کرے گی نہ کہ اپنی رائے دے گی۔میاںرضا ربانی نے کہا کہ جب بھٹو کے خلاف کیس چلایا گیا اس وقت لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لا نافذ تھا، اس وقت بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، اس وقت استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیا تھے، اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے الیکشن کیلئے معاملات طے ہو چکے تھے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا؟ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ معاہدے پر دستخط ہونے باقی تھے لیکن پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا،24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبال جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لا دور میں زیر افراد ان افراد کے بیانات لیے گئے، جسٹس اسلم ریاض حسین بیک وقت سپریم کورٹ کے جج اور پنجاب کے قائم مقام گورنر بھی تھے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مارشل لا آرڈر کے تحت تو کچھ بھی ہو سکتا تھا، مارشل دور میں تو گورنر ٹرائل بھی چلا سکتے تھے۔رضا ربانی نے کہا کہ وہ تو بادشاہ تھے مارشل لا میں جو مرضی کریں، بیگم نصرت بھٹو نے پیپلز پارٹی کے رہنماں کی گرفتاریاں سپریم کورٹ میں چیلنج کیں، جسٹس یعقوب اس وقت چیف جسٹس تھے، جسٹس یعقوب نے جیسے ہی درخواست سماعت کیلئے منظور کی انہیں بطور چیف جسٹس پاکستان ہٹا دیا گیا، جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس پاکستان بنا دیا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰنے کہا کہ کیا سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس میں مختصر رائے بھی دے سکتی ہے؟ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ عدالت ایسا کر سکتی ہے سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کیلئے آرٹیکل 187 کا استعمال کر سکتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ہم نے آرٹیکل 187 کا استعمال کیا تو وہ رائے کے بجائے فیصلہ ہو جائے گا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ ہمیں پھانسی کے بعد میں منظر عام پر آنے والے تعصب کے حقائق کی تفصیلات تحریری طور پر دے دیں۔رضا ربانی نے کہا کہ مارشل لا ریگولیشن کے تحت ججوں نے حلف لے رکھاتھا، ان کے حلف میں سے آئین کا لفظ حذف کر دیا گیا تھا، اس وقت ججز آئین پاکستان کے تحت ججز ہی نہیں تھے، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بھی اس وقت آئین کے تحت کام نہیں کر رہی تھیں، بھٹو کیس میں فئیر ٹرائل کے پراسیس پر عمل نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم آج بھٹو ریفرنس پر کارروائی مکمل کریں گے۔ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ جنرل ضیا کا تعصب بھی موجود تھا، احمد رضا قصوری پر حملوں کے 1972 سے 1976 تک چھ مقدمات درج ہوئے کسی ایف آئی آر میں بھٹو کو نامزد نہیں کیا گیا۔ بعدازاں میاں رضا ربانی کے دلائل مکمل ہوگئے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے محمود مسعود کے بارے میں پوچھا تھا اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم ریکارڈ ڈھونڈ رہے ہیں، نادرا کے پاس بھی پرانا ریکارڈ نہیں ہے، تین وزارتوں کو ہم نے ریکارڈ کے حصول کیلئے لکھا ہے۔ اس کے بعد احمد رضاقصوری نے دلائل کاآغاز کیا۔ چیف جسٹس نے احمد رضا قصوری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آیئے قصوری صاحب!جی آیئے قصوری صاحب! احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ شکایت کی 45سالہ کاپی موجود نہیں۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ملزم بااثر تھا اس لئے میں نے کیس سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ منتقل کرنے کی درخواست کی تھی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پرائیویٹ شکایت کب درج کروائی۔اس پر احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ 31جولائی1977کو درج کروائی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ قتل 1974 کا تھاشکایت درج کروانے میں آپ نے اتنا وقت کیوں لیا؟پرائیویٹ شکایت درج کروانے میں تین سال کیوں لگے۔ اس پر احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ذولفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم تھے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کے اور کتنے بہن بھائی موجود تھے 1974 میں؟ اس پراحمد رضا قصوری نے کہا کہ ہم چھ بھائی تھے کوئی بہن نہیں ہے، اب میرے علاوہ سب بھائی فوت ہوچکے ہیں۔احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ان کے ایک بھائی ایم این اے رہے، ایک بھائی سکرٹری ریٹائرڈ ہوئے اورایک بھائی فوج میں افسر رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا خاندان ایک اچھے اثر و رسوخ، تعلقات اور وسائل والا خاندان تھا، آپ جیسا بااثر خاندان کیسے کمپلینٹ فائل کرنے میں دبائو قبول کرتا رہا؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ نے انکوائری بند ہونے کا آرڈر بھی چیلنج نہیں کیا تھا؟اس پر احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ڈی ایس پی وارث کی رپورٹ پر سابق آئی جی پنجاب پولیس رائو خورشید نے کیس بند کردیا تھا۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ میں پاکستان پیپلز پارٹی میں بڑا مضبوط آدمی تھا، ذولفقار علی بھی میرے بغیر ایک انچ بھی حرکت نہیں کرتے تھے، جب میرے والد کا قتل ہواتومیں نے کہا بہت ہوگیا اس کے بعد میں نے ذولفقار علی بھٹو کو ایف آئی آر میں نامزد کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر نے ایڈوائزری رائے مانگی ہے۔احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ میں واحد رکن اسمبلی تھا جو ڈھاکہ میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لئے گیا، اگروہ اجلاس ہوجاتا توآج ہنستا بستا پاکستان ہوتا، فوجیں نہ ہارتیں، ہزاروں لوگ مارے نہ جاتے اورپاکستان نہ ٹوٹتا۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ بھٹو کیس کافیصلہ لکھنے والے سابق چیف جسٹس شیخ انوارالحق نے جنرل ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے ا نکارکردیا تھا اوراختلاف رائے کرنے والے جسٹس محمد حلیم بعد میں چیف جسٹس بن گئے اور وہ آٹھ سال چیف جسٹس رہے۔ احمد رضا قصوری نے سابق چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کے جیو نیوز کے اینکرپرسن افتخار احمد کو دیئے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لوگ افتخار احمد کو افتخار فتنہ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر خدانخواستہ افتخاراحمد کو کچھ ہو گیاتوذمہ دارآپ ہوں گے۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ بات صرف آپ سے سنی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صاحبزدہ محمد رضا قصوری کو قتل کرنے کے لئے جانے والے ایف ایس ایف کے لوگ لاہور تعینات تھے یا وہ اسلام آباد یاروالپنڈی سے بھیجے گئے تھے۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ایف ایس ایف نے جائے وقوعہ کے قریب ہی ایک ریسٹ ہائوس لیا ہواتھا۔ جسٹس یحییٰ خان آفرید ی نے احمد رضا قصوری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں کے زیادہ قریب آپ تھے نہ کہ آپ کے والد۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ باس کو جاکررپورٹ دینا تھا قاتل تصدیق کرکے جاتے کس کوقتل کیا۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ واقعہ رات سوا12بجے پیش آیا تھا، واقعہ شادمان شاہ جمال پر رائونڈ ابائوٹ پر پیش آیا اوراس وقت میں ماڈل ٹائون میں رہتا تھا۔ چیف جسٹس نے احمد رضا قصوری سے سوال کیا کہ ان کے والد قتل ہوئے ان کی عمر کیا تھی۔ اس پر احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ان کے والد کی عمر 72سال تھی اورمیری اس وقت عمر 36سال تھی، میری والدہ اورآنٹی گاڑی میں پیچھے بیٹھی ہوئی تھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تودورائے نہیں قتل توہوا ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں الزام نہیں لگایا کہ بھٹو نے مروایا۔ اس پر احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ پنجاب میں عمران خان کی حکومت تھی وہ چیختارہا اورایف آئی آر درج نہیں کرواسکا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ شکایت درج کروانے میں تین سال کیوں لگے۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ آج کے زمانہ میں کسی کوکوئی نشان نہیں دیتا اورکچھ اور نہیں دیتا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کو سیشن کورٹ جب کیس منتقل ہواتو پھر ہائی کورٹ سیشن کورٹ بن گیا، ہائی کورٹ نے ریفرنس بنا کربھیجنا تھا،جب کوئی ریفرنس نہیں تھا توپھر سزاکیسے دی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جنہوں نے قانون بنایا انہوں نے کبھی نہیں سوچاہوگا کہ ہائی کورٹ قتل کیس بھی چلائے گی۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ کیس جاتا ہے اور پھر لارجر بینچ کے پاس جاتا ہے کیس نے درخواست دی تھی۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ذولفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے۔ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کے لئے الگ قانون ہے اور عام آدمی کے لئے الگ قانون ہے، قانون سب کے لئے برابرہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ ذولفقار علی بھٹو کو دو مواقع سے محروم کیا گیا، اپیل اورریفرنس، دورکنی بینچ بنایا جاسکتا تھا ، پانچ رکنی بینچ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ دنیا نے ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کی مذمت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کار میں موجود کسی اورگواہ کو پیش کیا گیا۔ اس پر احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ نہیں پیش کیا گیا، ہمارے گھر کی خواتین عدالتوں میں نہیں جاتیں۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 186کے تحت بھٹو کیس دوبارہ نہیں کھولاجاسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے احمد رضا قصوری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی عدالت نے بھٹو کیس کا فیصلہ بطورریفرنس قبول کیا۔ اس پر احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ میں بھٹو کیس کا فیصلہ بطورریفرنس پیش کرتا ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سب نے غلطیاں کی ہیں، قانون سازوں نے ہمیں آئین کے آرٹیکل 186کے تحت اپنی رائے دینے کااختیاردیا ہے، ہم اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنی لکھی ہوئی کتاب فراہم کرنے پر احمد رضا قصوری کا شکریہ اداکیا اور کہا کہ پاکستان میں جو بھی کتاب لکھتا ہے اس کی تعریف کی جانی چاہیئے۔ احمد رضا قصوری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈیشل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان دلائل دینے روسٹرم پر آئے۔ ایڈیشل اتارنی جنرل نے عدالتی معاون یاسر قریشی کے جواب کے ایک پیراگراف کا حوالہ دیا اورکہا کہ وہ عدالتی معاون جسٹس (ر)منظور احمد ملک کے دالائل اپناتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مختصر دلائل میں کہا کہ بھٹوکیس میں تفتیش مجسٹریٹ آرڈر سے بند ہوگئی تھی، کوئی بھی نیا جوڈیشل آرڈر لئے بغیر دوبارہ تفتیش کی گئی، پورا ٹرائل ایسی تفتیش پر چلا جو قانونی نہیں تھی، بظاہر لگتا ہے اس وقت سرکار کی مداخلت موجود تھی، غیر قانونی تفتیش کے اوپر کیس چلایا گیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا حکومت ارادہ رکھتی ہے کہ ایسی مداخلت کوروکنے کے لئے کوئی اقدامات کرے۔ اس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آف کورس ہم تو عدلیہ کی آزادی کے ہمیشہ داعی رہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ آپ اقدامات کیا کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ اب نئی حکومت آ رہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ہم اپنا کام کریںاوردوسرے اپنا کام کریں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے ایک ساتھی ریٹائرڈ ہورہے ہیں اوراس سے پہلے جلد ہم اپنی مختصر رائے سنائیں گے آج تو نہیں مگر شاید دوبارہ ہم ڈسکس کرنے کے بعد رائے سنانے بیٹھیں۔