ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس ،ادارہ نہیں بلکہ افراد مارشل لاء لگاتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ

 کیاذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پرفیصلہ کے ذریعہ سپریم کورٹ اور اداروں کی عزت میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا؟

کیا ہم نیا سفر شروع کرسکتے ہیں، ہم ماضی میں رہ رہے ہیں اور مستقبل کا نہیں سوچ رہے،کیا اس سے قوم کے زخموں کو بھراجاسکتا ہے؟

کیا اس حوالہ سے ہمیں فیصلہ کرنا چاہیئے یا یہ سیاسی دائرہ کار میں آتا ہے؟ہم نہیں چاہتے کہ اس فیصلہ کے تناظر میں نظرثانی کا دروازہ کھولیں، ریمارکس

ہم ابھی آئین کے آرٹیکل 186کا دروازہ کھولنے کامعاملہ دیکھ رہے ہیں، ہم نے سوال کاجواب دینا ہے شواہد میں نہیں جائیں گے،جسٹس سید منصورعلی شاہ

 کیا مواد ہے کہ ججز پر دبائو تھا، جسٹس سیدنسیم حسن شاہ کا جنرل انٹرویو ہے اس کیس کے حوالہ سے نہیں، ریمارکس

اگر عدالت بھٹو کیس کو عدالتی قتل قراردے دیتی ہے توپھر کیا بلاول بھٹو زرداری اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر قصاص کا مطالبہ کرنے کی اجازت دے گی،جسٹس مسرت ہلالی

سپریم کورٹ نے ریفرنس پر سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی

اسلام آباد( ویب   نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا ہے کہ ادارہ نہیں بلکہ افراد مارشل لاء لگاتے ہیں، کیاذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پرفیصلہ کے ذریعہ سپریم کورٹ اور اداروں کی عزت میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا؟ کیا ہم نیا سفر شروع کرسکتے ہیں، ہم ماضی میں رہ رہے ہیں اور مستقبل کا نہیں سوچ رہے،کیا اس سے قوم کے زخموں کو بھراجاسکتا ہے، کیا اس حوالہ سے ہمیں فیصلہ کرنا چاہیئے یا یہ سیاسی دائرہ کار میں آتا ہے؟ ہم نہیں چاہتے کہ اس فیصلہ کے تناظر میں نظرثانی کا دروازہ کھولیں۔ جبکہ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ ہم ابھی آئین کے آرٹیکل 186کا دروازہ کھولنے کامعاملہ دیکھ رہے ہیں، ہم نے سوال کاجواب دینا ہے اورشواہد میں نہیں جائیں گے۔ کیا مواد ہے کہ ججز پر دبائو تھا، جسٹس سیدنسیم حسن شاہ کا جنرل انٹرویو ہے اس کیس کے حوالہ سے نہیں۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ یہ جج کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کرے۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ اگر عدالت بھٹو کیس کو عدالتی قتل قراردے دیتی ہے توپھر کیا بلاول بھٹو زرداری اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر قصاص کا مطالبہ کرنے کی اجازت دے گی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردارطارق مسعود، جسٹس سید منصور عل شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 9رکنی لارجر بینچ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کیس فیصلہ کے حوالہ دے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ دوران سماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، سینیٹر شیری رحمان، سید نوید قمر شاہ، سید خورشید احمد شاہ، سید مراد علی شاہ، شازیہ عطامری، سینٹر میاں رضاربانی، فرحت اللہ بابر، چوہدری قمرزمان کائرہ، ندیم افضل چن، سید نیئر حسین بخاری، میر سرفرازخان بگٹی، سینیٹر شہادت اعوان، سینیٹر فاروق ایچ نائیک اوردیگر پی پی رہنما بھی موجود تھے۔ جبکہ عدالتی معاونین مخدوم علی خان، بیرسٹر صلاح الدین بھی پیش ہوئے۔ جبکہ صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری اورفاطمہ بھٹو اورذولفقار بھتو جونیئر زاہد فخرالدین جی ابراہیم بھی دوران سماعت پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پہلے عدالتی معاونین کو سننا چاہیں گے۔ عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل کاآغاز کرتے ہوئے کہا کہ سوال ہے کہ کیا یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 4پر پورااترتاہے کہ نہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ سوال پراسیس کا ہے کہ وہ درست تھا کہ نہیں۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں تعصب کا سوال بھی اٹھایا گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس نظر کااختیار ہے اوردوسری نظرثانی کا کوئی تصور نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا ایڈمیشن کا معاملہ ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم ابھی آئین کے آرٹیکل 186کا دروازہ کھولنے کامعاملہ دیکھ رہے ہیں، ہم نے سوال کاجواب دینا ہے اورشواہد میں نہیں جائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ایک جج کی اکثریت سے فیصلہ ہوا لہذا اس کیس میں ایک جج کی رائے کی بھی اہمیت ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا مارشل لاء کے معاملہ کونظرانداز کردیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ کیا ججز نے اس وقت پی سی اوکاحلف اٹھایا تھا۔ اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ 4مارچ1981کو ججز نے پی سی اوکا حلف اٹھایا تھا۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ پانچ، صفر سے کیا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم مخدوم علی خان کو زیادہ آئینی معاملات پر سننا چاہتے ہیں۔ مخدو م علی خان کا کہنا تھا کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیئے بلکہ ہوتا ہوانظر بھی آنا چاہیئے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے بینچ کے اقلیتی فیصلہ دینے والے ججز کون تھے۔ اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ان کے نام جسٹس محمد حلیم، غلام صفدر شاہ اور جسٹس دراب پٹیل تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جج کو بینچ میں بیٹھنے کے لئے کوئی مجبور تونہیں کرسکتا، جج خود کو بینچ سے الگ بھی کرسکتا تھا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار سے جسٹس مولوی مشتاق حسین نارض تھے تواس کی سزا مئوکل کوتونہیںملنی چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ پہلا کیس ہے جو ہائی کورٹ نے بطور ٹرائل کورٹ سنا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سزائے موت کے کیسز میں یہ جج کی ذمہ داری ہے کہ وہ سزاکم کرنے کے پہلے کو بھی مدنظر رکھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہ جج کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کرے۔ چیف جسٹس کا مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ مارشل لاء کی زیادہ بات نہیں کررہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا اس بنیاد پر ہرکیس دوبارہ کھولا جاسکتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ اگر عدالت بھٹو کیس کو عدالتی قتل قراردے دیتی ہے توپھر کیا بلاول بھٹو زرداری اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر قصاص کا مطالبہ کرنے کی اجازت دے گی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ریفرنس صرف رائے کے لئے ہے ہم ٹرائل کورٹ، ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کے فیصلہ میں تبدیلی نہیں کرسکتے۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ڈیو پراسیس پر عمل نہیں کیا گیا اور فیئر ٹرائل کو مشکل بنایا گیا، غیرجانبدارانہ انداز میں کسی بھی کیس کا فیصلہ ہونا چاہیئے۔جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا مواد ہے کہ ججز پر دبائو تھا، جسٹس سیدنسیم حسن شاہ کا جنرل انٹرویو ہے اس کیس کے حوالہ سے نہیں۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ جسٹس صمدانی نے ذوالفقار علی بھٹو کو ضمانت دی تھی اور جسٹس مولوی مشتاق حسین نے ضمانت منسوخ کی۔ چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے پوچھا کہ وہ دلائل دینے میں مزید کتنا وقت لیں گے۔ اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وہ 30سے40منٹ لیں گے۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوگیا، عدالتی معاون مخدوم علی خان کے دلائل جاری ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 187 کے اختیار کو استعمال کر کے بھٹو کیس کا فیصلہ کر سکتی ہے، بھٹو کیس میں ججز کی جانبداری ثابت کرنے کے لیے جسٹس نسیم حسن، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس اسلم ریاض کے انٹرویوز موجود ہیں، ججز کی جانبداری ثابت کرنے کے لیے سلیم بیگ اور جنرل(ر)فیض چشتی کی کتاب اور اس وقت کے اٹارنی جنرل کا خط بھی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ کیا جن صاحبان پر جانبداری کا الزام لگ رہا ہے ان کو سنا نہیں جانا چاہیے؟ بعد ازاں سپریم کورٹ نے ریفرنس پر سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی۔ ZS

#/S