جب مارشل لا لگتے ہیں سب ہتھیارپھینک دیتے ہیں،پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آجاتا ہے ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اس کمرے میں بہت سی تصاویرلگی ہیں جو مارشل لا آنے پر حلف بھول جاتے ہیں، اس عدالت نے کئی بار مارشل لا کی توثیق کی ہے،ریمارکس

  درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے ہم بہت آگے نکل چکے ہیں،جسٹس اعجازالاحسن

سماعت کے دورا ن وکیل اکرام چوہدری نے سابق وزیراعظم سے متعلق خبر پڑھ کر سنائی

قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کا حق سلب کیا،چیف جسٹس فائز عیسیٰ

میرے قانون کی رسائی کا حق متاثر ہوگا،کل کو سماجی و معاشی اثرات  ہوں گے،وکیل حسن عرفان

 اگر انصاف تک پارلیمنٹ نے رسائی دینی ہو تو کیا قانون سازی نہیں کرسکتی،جسٹس محمد علی مظہر

 پارلیمنٹ ایکٹ پاس کرسکتی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے پروسیجر کو ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت سے قبل فریقین نے تحریری جوابات جمع کرا دیئے

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کے خلاف دائر 10درخواستوں پر سماعت 9اکتوبر تک ملتوی

ہمیں یہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہو گا، آئین کبھی بھی معطل نہیں ہوسکتا،چیف جسٹس کے ریمارکس

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ  نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کے خلاف دائر 10درخواستوں پر سماعت 9اکتوبر تک ملتوی کردی۔منگل کے روز تین درخواست گزاروں کے وکلاء اکرام چوہدری، حسن عرفان اور عزیز کرامت بھنڈاری نے دلائل دیئے۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میرے دونوں طرف جو دو فرشتے بیٹھے ہیں وہ مجھ پر نظررکھیں گے۔ ہم کتنے آرام سے یہ بات کردیتے ہیں کہ آئین معطل تھا، ہمیں یہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہو گا، آئین کبھی بھی معطل نہیں ہوسکتا، ۔ کیا پاکستان تحریک انصاف کے وکیل آج یہ کمٹمنٹ کررہے ہیں کہ جب کل کو ان کی سیاسی جماعت الیکشن جیت جاتی ہے تو پہلا بل آپ پارلیمنٹ میں اس کومنسوخ کروانے کا ڈالیں گے۔ اس پرپی ٹی آئی وکیل عزیز کرامت بھنڈاری کا کہنا تھا کہ میں یہ کمٹمنٹ نہیں دے سکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اتنا بُرا قانون ہے اس کو فوری منسوخ کروالیجئے گا، اتنا بُرا قانون ہے مگر میں یہ کمٹمنٹ نہیں دوں گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںتمام موجودہ 15ججز پر مشتمل رکنی فل کورٹ نے سماعت کی۔اس وقت سپریم کورٹ میں ججز کی دوآسامیاں خالی ہیں۔ فل کورٹ سماعت کی کاروائی پی ٹی وی کی جانب سے براہ راست دکھائی گئی۔ عدالت کی کاروائی براہ راست دکھانے کے لئے کل چارکیمرے لگائے گئے تھے۔ تین کیمرے گیلری میں جبکہ ایک کیمرہ کمرہ عدالت میں لگایا گیا تھا۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184-3کے تحت سیدھا سپریم کورٹ آجائیں باقی عدالتیں بند کریں، وقت بھی بچے گا ، لوگوں کے پیسے بھی بچیں گے، سول کورٹ جائیں، پھر ڈسٹرکٹ کورٹ جائیں، پھر ہائی کورٹ جائیں ، پھر سپریم کورٹ آئیں، ساری عدالتوں کو ختم کریں ہم ہی سارے فیصلے کرلیتے ہیں، کیوں ہم اتنے پیسے خرچ کررہے ہیں،دنیا میں کہیں سے بھی ایک مثال دکھا دیں کہ ایک عدالت ایک فیصلہ کرے اوراس کے خلاف کوئی بھی اپیل نہیں ہے۔ہماری اورامریکہ کی سپریم کورٹ میں بنیادی فرق ہے ، امریکہ میں دو، تین، چار اورپانچ کے بینچ نہیں بیٹھتے، وہاں پر پوری سپریم کورٹ بیٹھتی ہے، امریکہ کا سسٹم ہمارے سے بالکل مختلف ہے۔اگرامریکہ کو ہم نے ہر چیز کرنا ہے توپھر وہاں تو غلامی بھی تھی، ہمارے ہاں تویہ چیزیںنہیںہیں، برصغیرمیںخواتین کو ووٹ کا حق پہلے ملااور امریکہ نے بعد میں دیا، وہاں سے اتنے متاثر کیوں ہورہے ہیں۔ فرض کریں کہ اگر یہ قانون وجود نہیں رکھتا توکیا سپریم کورٹ خودآئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت اپیل کا حق فراہم کرسکتی ہے۔ اووررول کرنااوربات ہے ، اپیل کا حق مختلف چیز ہے، تشریح کااخیتار یا غلطیوں سے سیکھنا اورسمجھداربننا مختلف چیز ہے۔ چیف جسٹس نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل عزیز کرامت بھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اپیل کاحق ملنے سے اتنی گھبراہٹ کیوں ہورہی ہے، ہوسکتا ہے ، بطورسیاسی جماعت آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ہوسکتا ہے آپ کو اورکسی کیسز میں فائدے میںہوں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ مجھے ہدایات ہیں کہ میں یہ کہوں،ہم یہ بالکل تسلیم نہیں کریں گے، اس قسم کی نوعیت کے کیسز میں وکیل کسی ہدایات کے تابع نہیں ، وکیل عدالت کی معاونت کے لئے پیش ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اسلام کی بات تو کرتے ہیں لیکن حیران کن طور پر کسی ایک شخص نے بھی یہاں پر اسلام کاذکر نہیں کیا۔ اس بات کا جواب دیں کہ میرے غیر معمولی کنڈکٹ کوہم کیسے چیک کرسکتے ہیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ امریکہ میں ازخود نوٹس بھی نہیںہے، یہاں توازخود نوٹس میں بہت کچھ ہوا، پھر اس کی اپیل بھی نہ ہو، پہلے کمپیٹینس کا ایشوحل کر لیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے کنڈکٹ کو چھوڑیں فرض کریں اگر فل کورٹ بیٹھ کر فیصلہ رول بناتی ہے کہ ہم ہفتے میں صرف دودن کیس سنیں گے اورصرف11بجے تک کام کریں گے ،اورچھ ماہ چھٹیاں کریں گے، کیا ایسا کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ہمیں کوئی چھو نہیں سکتا،پارلیمنٹ جو کہ عوام کی نمائندہ ہے کیا وہ آکر یہ نہیں کہہ سکتی کہ سرآپ یہ کیا کررہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی وکیل عزیز کرامت بھنڈاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک سیاسی جماعت کی نمائندگی کررہے ہیں ، ہوسکتا ہے یہ جماعت کل کو پارلیمنٹ میں اکثریت میں ہو، پی ٹی آئی وکیل نے پارلیمنٹ پر اعتماد کااظہار نہیں کیا،وکیل کی جانب سے کہاگیا ہے کہ یہ بہت اچھا قانون ہے تاہم پارلیمنٹ کے خلاف خدشات کااظہار کیا گیا ہے، کیا یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت اٹھایا جانا چاہیئے تھا، کیا وکیل کسی بھی دائرہ اختیا ر میں کوئی ایک حوالہ بھی دیں گے جہاں پر ایک اچھا قانون جو کہ حقیقت میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہو، کو کسی عدالت کی جانب سے کالعدم قراردیا گیا ہو ۔ اس پر وکیل عزیر کرامت بھنڈاری کا کہنا تھا کہ بھارت میں آئینی ترمیم کوعدلیہ کی آزادی کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قراردیا گیا تھا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں یہ قانون عدلیہ کی آزادی کو مزید آگے بڑھا رہا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے ساتھ سپریم کورٹ کے دوسینئر ججز ہیں اس میں باہر والا کون ہے۔ پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھاکہ میں مطلق العنان چیف جسٹس کے حق میں نہیں ہوں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ2023 سے متعلق دائر 10 درخواستوں پر سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب مارشل لاء لگتے ہیں توسب ہتھیارپھینک دیتے ہیں، جب مارشل لاء لگتے ہیں تو ججز اپنا حلف بھول جاتے ہیں اور یہاں اس کمرہ عدالت میں ایسے ججوں کی کتنی تصویریں لگی ہیں اور ہم سب انکو بھول جاتے ہیں اورپارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آجاتا ہے، مارشل لا کے خلاف بھی تب درخواستیں لایاکریں، وہاں کیوں نہیں آتے؟  اس عدالت نے کئی بار مارشل لا کی توثیق کی ہے۔ظفر علی شاہ کیس میں ایک فرد واحد کو سپریم کورٹ نے اختیار دے دیا ، کیا درخواست گزار اس کی حمایت کرتے ہیں؟ مولوی تمیز الدین، دوسو، نصرت بھٹو اور ظفر علی شاہ کے کیسز میں ایک شخص کو اختیار دے دیا کہ آئین سے جو مرضی کھلواڑ کریں ۔ ہم پاکستان کے ساتھ یہ کھلواڑ نہیں کرسکتے، پارلیمان کی قدر کرنی چاہیئے۔ فرد واحد نے ہی اس ملک کی تباہی کی ہے چاہے وہ مارشل لاء ڈکٹیٹر ہو یا کوئی اورہو۔ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت ہمیں جو غیر معمولی اختیارات دیئے گئے ہیں یہ دنیا میں اورکہیں نہیں دیئے گئے، میرے اختیارات کم ہورہے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے اختیارات بڑھ رہے ہیں۔ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہیں بلکہ آئین اور قانون کی بالادستی کا حلف اٹھا رکھا ہے، میں نہیں سمجھتا اس قانون کے تحت ہمارے اختیارات چھینے گئے ہیں۔ پارلیمان کہہ رہی ہے کہ ہم سپریم کورٹ کو مزید اختیاردے رہے ہیں، آئین کے آرٹیکل 184-3میں ہم الیکشن کے معاملات اورچینی کی قیمتوں کے معاملات میں چلے گئے، 184-3کے تحت کے کسی کے خلاف فیصلہ آجائے تواس کے پاس اپیل کا حق نہیں حالانکہ دنیا بھر میں اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔اس قانون سے کون سی بنیادی شق کی خلاف ورزی ہورہی ہے، ہماراغیر تحریری آئین نہیں، کیوں ہمت نہیں پکڑتے اور کہتے کہ ماضی میں سپریم کورٹ غلط تھی، کبھی سپریم کورٹ نے کہا مارشل لاء غلط تھا اورکبھی کہا ٹھیک تھا، کیا ہم جنگل کے بادشاہ ہیں کہ جب چاہیں انڈے دیں اور جب چاہیں بچے دیں۔ اس بل کا کوئی اورنام بھی ہوسکتا تھا اس میں اپیل کاحق بھی دیا گیاہے۔ ہم امریکی آئین سے متاثر ہو گئے ہیں ہمارا اپنا تحریری آئین موجود ہے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق دائر 10درخواستو ں پر سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی۔بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر، مسز جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مس مسرت ہلالی شامل تھے۔ سماعت کے آغاز پراٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان روسٹرم پر آگئے اور استدعا کی کہ انہیں پہلے دلائل دینے کی اجازت دی جائے اور درخواست گزاروں اوردیگر فریقین کے وکلاء بعد میں دلائل دے دیں تاہم درخواست گزاروں کے وکلاء کی جانب سے اعتراض کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے درخواست گزاروں کے وکلاء دلائل دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی آج کیس کا اختتام کریں، ایک کیس کو ہی لیکر نہیں بیٹھ سکتے، سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیس زیر التوا ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر آئین بنانے والے چاہتے تو آئین کے آرٹیکل 184-3کے خلاف آئین کے آرٹیکل 185میں آسانی سے اپیل کا حق دیا جاسکتا تھا جبکہ جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ اگر انصاف تک پارلیمنٹ نے رسائی دینی ہو تو کیا قانون سازی نہیں کرسکتی، کیا اس کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی، اس قانون کے تحت بھی رولز بنائے جاسکتے ہیں، یہ تشریح کا مسئلہ ہے۔ سپریم کورٹ کہاں سے بنا ہے، میری سمجھ میں اس قانون کے بعد رولز بناسکتے ہیں، 1973کے قانون کے تحت بتائیں کہ کیا قانون سازی پارلیمنٹ کرسکتی ہے اور کیا نہیں کرسکتی، کہاں یہ آئین کی شقوں کے تحت غلط ہے، کیس عوام کے مفاد میں انصاف کی فراہمی کے لئے پارلیمنٹ قانون بناسکتی ہے کہ نہیں، چیف جسٹس نے کیس جج کو اپنا اختیار تفویض نہیں کیا بلکہ قانون کے تحت دوسینئر ججوں کے ساتھ مل کر بینچز بنانے ہیں جبکہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ ایکٹ پاس کرسکتی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے پروسیجر کو ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے  جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کے وکیل حسن عرفان سے سوال کیا کہ کیا دنیا کے کسی بھی قانون سے یہ مثال دے سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون سے بالا کوئی رولز ہوسکتے ہیں جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے روزلز کے قانون نہیں بن سکتا ، کیاآئین نے ایسی کوئی پابندی لگائی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اس قانون کا اثربالخصوص چیف جسٹس اور دو سینئر ججزپرہوگا، اختیارات کوکم نہیں بانٹا جارہا ہے، اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسز پر بھی ہوگا،جنگ کا لفظ بہت معنی خیز ہے، چیف جسٹس کا اختیار اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں، کچھ ججز سمجھتے ہیں پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ایسانہیں سمجھتے۔کوشش ہے کہ آج اس کیس کو ختم کر لیں ، اگر ایک کیس کو لے کر بیٹھ جائیں گے تو پھر سپریم کورٹ میں کیسز بڑھتے جائیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سب نے اپنے جوابات قلمبند کر دیئے ہیں، ہمارے سامنے اٹارنی جنرل اور سینئر وکلا ہیں، سب کوسنیں گے۔سماعت کے دورا ن وکیل اکرام چوہدری نے سابق وزیراعظم سے متعلق خبر پڑھ کر سنائی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ خبریں نا پڑھیں جن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، عدالت کو سیاسی بحث کے لیے استعمال نہ کریں،یہاں سیاسی تقریر نہ کریں،سیاسی تقریر کرنی ہے تو میڈیا موجود ہے اس کے سامنے جا کرکریں، قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کا حق سلب کیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ لوگوں کا بھی خیال ہے اس قانون سے سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آگئے، میں لفظ جنگ استعمال نہیں کرونگا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اب قانون بن چکا ہے، حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتا تھا یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت جب آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہے توبات ختم ہوگئی، آپ کی دلیل ہے کہ آئینی ترمیم سے یہ قانون بن جائے توٹھیک ہے، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں توکیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یالوگوں کے لیے ہے؟ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لئے  ہے کہ اس کا ہرصورت دفاع کرناہے؟ عدالت کی آزادی لوگوں کے لئے نہیں ہے؟ اس بات پر روشنی ڈالیں، اگرکل پارلیمنٹ قانون بناتی ہے کہ بیوائوں کے کیسزکو ترجیح دیں، کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثرہوگی؟ ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون سازی انصاف دینے کا راستہ ہموار اور دشوارکررہی ہے تویہ بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اورسے بھی ہے؟اگر ،کوئی چیز لوگوں کو انصاف دینے کاراستہ ہموار کررہی ہے تو کیا یہ غلط ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں، اگر آپ نے اپنی معلومات تک رسائی کے حق کے تحت کارروائی کی درخواست نہیں کی تویہ دلیل مت دیں، آپ نے خود سپیکرکو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں پوری سپریم کورٹ بیٹھ کربے بنیاد دلیل سنے۔دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انصاف تک رسائی کے لیے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، پہلے بتائیں ایکٹ سے انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوتا ہے، درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے ہم بہت آگے نکل چکے ہیں۔سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب مارشل لاء لگتے ہیں سب ہتھیارپھینک دیتے ہیں، اس کمرے میں بہت سی تصاویرلگی ہیں جو مارشل لا آنے پر حلف بھول جاتے ہیں، مارشل لا ئلگے تو حلف بھلا دیا جاتا ہے، پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آجاتا ہے، مارشل لا کے خلاف بھی تب درخواستیں لایاکریں، وہاں کیوں نہیں آتے؟  اس عدالت نے کئی بار مارشل لا کی توثیق کی ہے، پارلیمنٹ نے کہا سپریم کورٹ کا اختیاربڑھادیا گیا، پارلیمنٹ کہتی ہے ،انہوں نے ٹھیک قانون سازی کی، سپریم کورٹ کے 184 تین کے استعمال سے ماضی میں لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ نظرثانی میں اپیل کاحق ملنے سے آپ کوکیا تکلیف ہے؟ اس پر وکیل حسن عرفان نے کہا کہ میرے قانون کی رسائی کا حق متاثر ہوگا،کل کو سماجی و معاشی اثرات  ہوں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں،مولوی تمیزالدین سے شروع کریں یا نصرت بھٹو سے،  انہوں نے کہا آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کرنا چاہو کرو، پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہونے نہیں دے سکتے، پارلیمنٹ کی قدر کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فرد واحد نے اس ملک کی تباہی کی ہے، فرد واحد میں چاہے مارشل لا ہو یا کوئی بھی، ہمیں آپس میں فیصلہ کرناہے، ججز سے آپ کو کیا مسئلہ ہے، ایک چیف جسٹس نے فیصلہ کیا،وہ ٹھیک ہے زیادہ کریں توغلط ہے، یہ قانون ایک شخص کے لئے کیسے ہے، یہ بھی سمجھ نہیں آیا، سب بس پارلیمنٹ پر حملہ کر رہے ہیں، یہ دیکھیں قانون عوام کے لئے بہتر ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت سے قبل فریقین نے سپریم کورٹ میں تحریری جوابات جمع کرا دیئے ، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ (ن)اور مسلم لیگ (ق)نے ایکٹ کو برقرار رکھنے جب کہ درخواست گزاروں اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنے اپنے تحریری جوابات میں ایکٹ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے ججز کے سوالات پر مبنی اپنے جواب میں کہا کہ 8 رکنی بینچ کی جانب سے قانون کو معطل کرنا غیر آئینی تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے، قانون سے عدالتی معاملات میں شفافیت اور بینچز کی تشکیل میں بہتری آئے گی، مفروضے کی بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مسلم لیگ (ن)اور (ق)نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، سپریم کورٹ رولز 1980 کی موجودگی میں عدالت عظمیٰ سے متعلق پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی۔درخواست گزاروں کے وکیل خواجہ طارق رحیم اور امتیاز صدیقی نے درخواستیں منظور کرکے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔ ZS

#/S