پنجاب میں سیلاب نے تباہی مچادی،1769گائوں زیر آب، 14لاکھ افراد متاثر، فصلیں تباہ،28جاں بحق
لاہور ( ویب نیوز)
بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے اور شدید بارشوں کے باعث دریائے راوی، چناب اور ستلج بپھر گئے جس کے باعث سیلاب نے پنجاب میں تباہی مچا دی، کئی اضلاع کے 1470سے زائد گائوں زیر آب آگئے، 14لاکھ افراد متاثر ہوئے، کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں مال مویشی سیلاب کی نذر ہوگئے، 28افراد جاں بحق ہوگئے۔پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق جھنگ شہر کو بچانے کے لیے دریائے چناب میں سیلاب کے پیش نظر رواز پل کے قریب شگاف ڈال دیا گیا۔ریلیف کمشنر پنجاب نبیل جاوید کے مطابق دریائے چناب کے پاٹ سے شہریوں کے انخلا کو یقینی بنا لیا گیا ہے۔ فیصل آباد اور جھنگ انتظامیہ الرٹ رہے اور تمام افسران فیلڈ میں موجود رہیں۔ دوسری جانب دریائے راوی کے بھپرنے سے لاہور کے اطراف کئی دیہات زیر آب آگئے جبکہ چند مضافاتی علاقوں میں بھی پانی داخل ہوا۔ تھیم پارک، موہلنوال، مرید وال، فرخ آباد، شفیق آباد، افغان کالونی، نیو میٹر سٹی اور چوہنگ ایریا سے محفوظ انخلا مکمل کر لیا گیا۔ طلعت پارک بابو صابو میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن تیزی سے جاری ہے۔ پارک ویو ہائوسنگ سوسائٹی کے چار بلاکس میں پانی داخل ہوا تاہم رہائشیوں کو بروقت نکال لیا گیا۔ لاچیوالی اسکول کے ریلیف کیمپ میں 70سے زائد افراد مقیم ہیں۔ بیشتر متاثرین چوہنگ اور ٹھوکر ریلیف کیمپ میں مقیم ہیں، قیام و طعام کی بہترین سہولتیں میسر کی گئی ہیں۔ پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق دریائے چناب میں بڑا سیلابی ریلا چنیوٹ، جھنگ اور تریموں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دریائے چناب مرالہ کے مقام پر پانی کا بہائو 1 لاکھ 16ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا اور خانکی ہیڈ ورکس کے مقام پہ پانی کا بہائو 1 لاکھ 84ہزار کیوسک ہے۔ قادر آباد کے مقام پر پانی کا بہا ئو لاکھ 85ہزار کیوسک ہے۔چنیوٹ برج پر بڑا سیلابی ریلا گزر رہا ہے، دریائے چناب میں چنیوٹ برج کے مقام پر پانی کا بہائو8لاکھ 55 ہزار کیوسک ہے۔ہیڈ تریمو کے مقام پر پانی کا بہائو 1لاکھ 29ہزار کیوسک ہے اور مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دریائے راوی جسر کے مقام پر پانی کا بہائو 84ہزار کیوسک ہے۔ شادرہ کے مقام پر پانی کا بہا ئو1لاکھ 84ہزار کیوسک ہے اور بہائو میں کمی آ رہی ہے۔بلوکی ہیڈ ورکس پر پانی کا بہائو 1لاکھ 64ہزار کیوسک ہے اور اضافہ ہو رہا ہے۔ راوی ہیڈ سدھنائی کے مقام پر پانی کا بہائو 29ہزار کیوسک ہے۔ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کا بہائو 3لاکھ 3ہزار کیوسک ہے اور بہائو میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سلیمانکی کے مقام پہ پانی کا بہائو 1لاکھ 18 ہزار کیوسک ہے۔صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے کہا ہے کہ لاہور میں دریائے راوی کے مقام شاہدرہ سے گزرنے والا دو لاکھ 20 ہزار کیوسک کا ریلا 1988ء کے بعد سب سے بڑا تھا، تاہم خوش قسمتی سے شہر میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ان کے مطابق اب شاہدرہ کے مقام پر پانی کی سطح بتدریج کم ہو رہی ہے اور آئندہ چند گھنٹوں میں مزید کمی متوقع ہے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ لاہور میں سیلابی پانی 9مقامات پر داخل ہوا، جہاں متاثرہ افراد کو بروقت ریسکیو کر لیا گیا۔ اس وقت بلوکی کے مقام پر ایک لاکھ 47ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے اور یہ پانی ڈائون اسٹریم سے آگے دریائے راوی میں شامل ہوگا۔ حکومت نے دریا کے گزرگاہوں میں بسنے والے لوگوں کو سختی سے انخلا کا حکم دیا ہے اور بعض مقامات پر طاقت کا استعمال کرکے بھی انخلا کروایا گیا ہے۔ عرفان کاٹھیا نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے مادھوپور ہیڈ ورکس سے مسلسل 80ہزار کیوسک پانی آرہا ہے، جو لاہور شاہدرہ سے گزر کر آگے چنیوٹ اور پھر ریواز برج تک پہنچے گا۔ ان کے مطابق ریواز برج اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑی تشویش ہے اور اس مقام پر بند توڑنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے تاکہ جھنگ کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اسی طرح تریمیمو کے بعد پانی ہیڈ محمد والا اور پھر ملتان کے نظام میں شامل ہوگا۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق پچھلے چار روز سے قصور کے قریب دریائے ستلج میں دو لاکھ سے زائد کیوسک پانی کا بہائو جاری ہے، جس کے باعث سلیمانکی کے مقام پر صورتحال خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ صوبے میں اب تک ایک ہزار سات سو انہتر مواضعات زیر آب آچکے ہیں، چودہ ہزار سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں جبکہ چار ہزار سے زیادہ لوگ کیمپوں میں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک چار لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب میں سیلاب کے باعث اب تک 20اموات ہوچکی ہیں اور خدشہ ہے کہ متاثرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ پانی سندھ میں داخل نہیں ہوتا پنجاب ہائی الرٹ پر ہے اور سندھ حکومت کو پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ کوہ سلیمان پر بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہو رہا ہے جس سے رود کوہیوں میں پانی کا بہائو بڑھے گا۔ ان کے مطابق بھارت نے پانی کے اخراج کے بارے میں بروقت معلومات فراہم نہیں کیں جس سے نقصان میں اضافہ ہوا، اور اسی تاخیر پر بین الاقوامی میڈیا نے بھی بھارت پر تنقید کی ہے۔انہوں نے کہا کہ فلڈ پلان ایکٹ کے تحت اب آبی گزرگاہوں میں موجود تمام غیرقانونی تعمیرات کو خالی کرایا جائے گا تاکہ مستقبل میں بڑے نقصانات سے بچا جاسکے۔ شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ فوری طور پر دریا کے راستوں کو خالی کردیں تاکہ ریسکیو اور ریلیف کے اقدامات موثر انداز میں جاری رکھے جا سکیں۔ ملتان میں دریائے چناب کی بپھری موجوں کے باعث اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے، جس کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے ہنگامی حفاظتی اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر وسیم حامد کے مطابق، شہری آبادی کو ممکنہ تباہی سے بچانے کے لیے ہیڈ محمد والا کے مقام پر کنٹرولڈ شگاف ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ سیلابی دبائو کو کم کیا جا سکے۔ ان کے مطابق متاثرہ علاقوں سے اب تک 60 فیصد تک آبادی کا انخلا مکمل کر لیا گیا ہے، جبکہ باقی افراد کو نکالنے کے لیے بھی ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ این ای او سی کے مطابق 31اگست کو ہیڈ تریمو پر پانی کا بہائو 7سے 8 لاکھ کیوسک تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جو جھنگ اور گرد و نواح کے علاقوں کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔3ستمبر تک سیلابی ریلا پنجند تک پہنچے گا، جہاں 6.5 سے 7 لاکھ کیوسک کے درمیان بہائو متوقع ہے۔ پنجاب میں حالیہ سیلاب کے باعث متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیاں بھرپور انداز میں جاری ہیں۔ دریائے چناب، راوی، ستلج، جہلم اور سندھ سے ملحقہ علاقوں سے 3 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے، جبکہ مجموعی طور پر صوبے بھر سے 45 ہزار سے زائد افراد کا انخلا ممکن بنایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں گجرات، گجرانوالہ، منڈی بہائوالدین، حافظ آباد، نارووال، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، قصور، اوکاڑہ اور پاکپتن شامل ہیں۔ پنجاب کے 30اضلاع میں جاری ٹرانسپورٹیشن آپریشن میں 669بوٹس اور 2861ریسکیورز شریک ہیں۔ منڈی بہائوالدین کے علاقے کالا شیدیاں سے 816اور حافظ آباد کی تحصیل پنڈی بھٹیاں سے گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران 625افراد کو ریسکیو کیا گیا۔ننکانہ صاحب میں 1553افراد کو سیلابی پانی سے بحفاظت نکالا گیا، جن میں 568 خواتین اور 318 بچے بھی شامل ہیں۔متاثرہ دیہاتوں سے 2392مویشیوں کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ ننکانہ صاحب میں ریسکیو آپریشن کے لیے 14بوٹس، 93 ریسکیو ورکرز اور 122 رضاکار سرگرم عمل رہے۔سیلاب متاثرین کے لیے قائم 7 فلڈ ریلیف اور شیلٹر کیمپس میں وزیراعلی مریم نواز شریف کی ہدایت پر علاج، خوراک اور دیگر سہولیات کے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں تاکہ متاثرین کو ہر ممکن ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق وزیراعلی مریم نواز شریف کے تجاوزات کے خلاف بروقت آپریشن کا فائدہ سیلاب کی شدید صورتحال میں عوام کو جانی نقصانات سے بچانے میں ہوا ہے۔چناب، ستلج اور راوی میں سیلاب سے پنجاب کے کل 1ہزار 432موضع جات کے 12لاکھ 36ہزار 824شہری متاثر ہوئے۔دریائے چناب کے کنارے آباد 991موضع جات اور 7لاکھ 69ہزار 281شہری متاثر ہوئے۔ دریائے راوی کے کنارے آباد 80 موضع جات اور 74 ہزار 775 شہری متاثر ہوئے۔ دریائے ستلج کے کنارے آباد 361موضع جات اور 3لاکھ 92ہزار 768شہری متاثر ہوئے۔سیلاب کے باعث 2 لاکھ 48 ہزار 86 لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑا، جنہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ ایک لاکھ 48 ہزار سے زائد مال مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، 234 جانوروں کے علاج کے کیمپ بھی کام کر رہے ہیں۔ غیر معمولی سیلاب میں ایک بھی شہری کا جاں بحق نہ ہونا مینجمنٹ کی اعلی مثال ہے، 694 ریلیف کیمپ اور 265 میڈیکل کیمپس فیلڈ میں کام کر رہے ہیں۔ریلیف کمشنر پنجاب نبیل جاوید نے کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کو فیلڈ میں موجود رہنے کی ہدایات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اے صوبے بھر میں مسلسل کوآرڈینیشن کو یقینی بنا رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنرز اور دیگر افسران فیلڈ میں موجود رہیں۔ریلیف کمشنر پنجاب کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کے انخلا کو جلد از جلد یقینی بنائیں، عوام کے جان و مال کی حفاظت اولین ترجیح اور ذمہ داری ہے۔ تمام متعلقہ ریسکیو و ریلیف ادارے ہائی الرٹ رہیں، کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ستلج دریا میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر غیر معمولی سطح کا سیلاب آگیا، جی ایس والا کے مقام پر بہائو تین لاکھ 85ہزار کیوسک سے تجاوز کرگیا، بارشوں اور بھارت کی جانب ممکنہ سیلابی ریلوں کے اخراج سے صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے، قصور اور ملحقہ علاقوں میں انتظامیہ اور ریسکیو ادارے کو ہائی الرٹ کردیا گیا۔ اس حوالے سے ریلیف کمشنر پنجاب نبیل جاوید اور ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی نے پریس کانفرنس بھی کہی۔ عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ دریائے ستلج 2 لاکھ 61ہزار کیوسک پر چل رہا تھا اب ساڑھے تین لاکھ کیوسک سے زائد ہوگیا جس میں اضافہ ہورہا ہے، 1955 میں اتنا بڑا ریلا یہاں سے گزرا تھا، قصور شہر کو بچانے کے لیے آر ار اے ون کو توڑنا پڑرہا ہے، جن آبادیوں میں پانی جاسکتا ہے وہاں سے مقامی لوگوں کا انخلا کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہیڈسلیمانیکی کے مقام پر بھی پانی کا بہائو بڑھ رہا ہے، آئندہ دو روز میں وہاں پانی کی سطح مزید بلند ہوگی، شاہدرہ کے مقام پر پانی کی سطح کم اور ہیڈ بلوکی کے مقام پر بڑھ رہی ہے، اوکاڑہ، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ انتظامیہ نے دریا کے نشیبی علاقوں سے لوگوں کا انخلا مکمل کرلیا ہے، چناب میں اس کی تاریخ کے اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلابی پانی منڈی بہائوالدین کے 30سے 40دیہات سے گزرتا ہوا واپس دریا میں جائے گا، جھنگ شہر کو بچانے کے لیے ریواز ریلوے برج کو توڑا گیا ہے اس سے ڈیڑھ لاکھ کیوسک تک پانی کی کمی آئی، ہیڈ تریموں پر پانی کا بہائو کم ہورہا ہے لیکن ڈائون اسٹریم پر پانی کی سطح بلند ہوگی، این ایچ اے جھنگ شور کوٹ روڈ کو بھی توڑا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے تین بڑے دریا سپر فلڈ کی لپیٹ میں ہیں اور تاحال صوبے میں ابھی تک 28اموات رپورٹ ہوئی ہیں، زیادہ اموات گوجرانوالہ ڈویژن میں فلیش اور اربن فلڈنگ کے دوران ہوئیں، اب تمام توجہ ستلج پر مرکوز ہیں، آنیوالے چند گھنٹے قصور اور اس سے ملحقہ علاقوں کے لیے اہم ہیں۔ آئندہ چند گھنٹوں میں خانیوال، ملتان، بہاولنگر، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، چولستان، بارکھان، موسی خیل، لورالائی، خضدار، آواران میں تیز ہواں /آندھی اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔ بارش کا سبب بننے والا ایک نظام جنوب مشرقی سندھ میں بھی تشکیل پا رہا ہے جس کے باعث آئندہ 2 سے 4 گھنٹوں کے دوران تھرپارکر، عمرکوٹ، سانگھڑ، مٹھی، بدین، گھوٹکی اور گردونواح میں بھی چند مقامات پر تیز ہوائوں ،آندھی ،گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔ میٹ آفس اسلام آباد نے کہا ہے کہ عوام کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ موسمی صورتحال کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور باخبر رہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق ہٹیاں بالا دریائے جہلم مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولا کے سرحدی قصبہ اوڑی سے آزاد کشمیر کے سرحدی قصبہ چکوٹھی، چناری میں داخل ہوتا ہے، چکوٹھی سے آزاد کشمیر میں داخل ہونے والے دریائے جہلم کے پانی میں آج دوسری مرتبہ تقریبا سات فٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ ریسکیو 1122کے مطابق دریائے جہلم میں پانی کا ریلا ایک بار پھر دارالحکومت مظفرآباد کی طرف رواں دواں ہے، چناری اور گردونواح میں مرد، خواتین اور بچے دریا کے کنارے جانوں کو خطروں میں ڈال کر اس وقت بھی لکڑیاں پکڑنے میں مصروف ہیں۔





