وزیراعظم عمران خان نے تمام صوبوں سے درخواست کی ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کھول دیں، امریکا اور یورپ میں ہلاکتوں کے باوجود ٹرانسپورٹ اور ائیرٹریفک بند نہیں کی تو ہم نے کیوں کی ہوئی ہے؟ موثر ضابطہ کار کے تحت ملک میں بند تمام کاروبار کو کھولا جائے گا ہماری صحت کی سہولیات جون کے آخر تک کورونا کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے۔ جب تک عوام احتیاط نہیں کرینگے، حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔ ٹائیگر فورس کی سب سے بڑی ذمہ داری لوگوں کو احساس دلانا ہے ہمارا اندازہ تھا کہ 14مئی تک 92ہزار 695کیسز ہونگے، اموات کا اندازہ ایک ہزار 324 لگایا تھا۔ لیکن حکومتی اقدامت کی وجہ سے ملکی حالات کنٹرول میں ہیں۔ جمعہ کو کرونا کی صورتحال سے ملک بھر کے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میری حکومت کو پوری طرح سے لوگوں کی مشکلات کا احساس ہے۔ ہمیں ایک طرف کورونا کو جبکہ دوسری طرف اس کے معاشرے پر اثرات کو بھی دیکھنا ہے۔ ایس او پیز کے تحت تمام کاروبار کھولیں گے۔ دکاندار حضرات حکومتی ہدایات پر عملدرآمد کریں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آج میں طبی عملے سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں، انھیں فکر تھی کہ اگر لاک ڈاؤن کھولا گیا تو ہسپتالوں پر پریشر بڑھے گا۔ لیکن کیا لاک ڈان سے وائرس ختم ہو جائے گا۔ دنیا بھر کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اس سال کوئی ویکسین نہیں آ سکتی۔ ہمیں اس وائرس کیساتھ رہنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں جہاں لاک ڈان کیا گیا وہاں دوبارہ سے کورونا وائرس کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ چینی شہر ووہان، سنگاپور اور کوریا اس کی مثالیں ہیں۔ میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ ہم چین، امریکا اور یورپ کی طرح لاک ڈان نہیں کر سکتے۔ ہم لاک ڈاؤن یا کاروبار کیسے بند کر سکتے ہیں؟ ہماری لیبر فورس کے مطابق اڑھائی کروڑ مزدور صرف اپنے دن یا ہفتے کی تنخواہ پر اکتفا کرتے ہیں، یہی اڑھائی کروڑ لوگ لاک ڈان سے متاثر ہوئے اور ان لوگوں کے متاثر ہونے سے ملک کے دیگر 15 کروڑ عوام متاثر ہوئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اگر لوگوں کو روزگار نہ دیا تو کورونا سے زیادہ لوگ بھوک سے مریں گے۔ میں بطور وزیراعظم سوچتا ہوں سفید پوش کیسے گزاراکر رہے ہونگے؟۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارا اندازہ تھا کہ 14 مئی تک 92 ہزار 695 کیسز ہونگے لیکن حکومتی اقدامت کی وجہ سے ملکی حالات کنٹرول میں ہیں۔ تاہم ابھی کیسوں میں اضافہ ہونا ہے، ہم اس کیلئے ذہنی طور پر مکمل تیار ہیں۔ ہو سکتا ہے جہاں کیسز بڑھیں، ان علاقوں کو لاک ڈاؤن کرنا پڑے۔وزیراعظم نے بتایا کہ پبلک ٹرانسپورٹ غریب آدمی کی ٹرانسپورٹ ہے تاہم اس حوالے سے ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا۔ ہم تمام فیصلے مشاورت سے کرتے ہیں۔ ہمارے کئی صوبوں میں خطرہ ہے ٹرانسپورٹ کھولنے سے کورونا تیزی سے پھیلے گا۔ ہماری صحت کی سہولیات جون کے آخر تک کورونا کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے۔ جب تک عوام احتیاط نہیں کرینگے، حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔ ٹائیگر فورس کی سب سے بڑی ذمہ داری لوگوں کو احساس دلانا ہے۔انھوں نے کہا کہ جب تک ویکسین نہیں آجاتی اس وقت تک وائرس کنٹرول نہیں ہوگا، اب ہمیں اس وائرس کے ساتھ رہنا ہے اور مزید لاک ڈان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کھولنے کے فیصلے پرطبی عملے کی فکر تھی کہ اسپتالوں پر دباؤ بڑھے گا، ہمیں طبی عملے کی پریشانیوں کا پوری طرح احساس ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کے جمع ہونے پرکورونا تیزی سے پھیلتا ہے، جب تک ویکسین نہیں آجاتی اس وقت تک وائرس کنٹرول نہیں ہوگا، اب ہمیں اس وائرس کے ساتھ رہنا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وائرس کے ساتھ گزارا کیسے کرنا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی 2 مہینے کا لاک ڈاؤن ہوچکا ہے، کیا ہم لاک ڈاؤن کے مزید متحمل ہوسکتے ہیں دیکھنا ہوگا؟ پاکستان میں مشکل سے 8 ارب ڈالر کا ریلیف پیکج دیا اور امریکا نے 2 ہزار ارب ڈالر کا پیکج دیا ہے، کیا ہم لاک ڈاؤن کرکے بزنس بند کرسکتے ہیں؟ ہم وہ لاک ڈاؤن نہیں کرسکتے جو یورپ، امریکا اور چین نے کیا، ان ملکوں میں وہ غربت نہیں جو پاکستان میں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ہاں مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ ہے، لاک ڈان سے 15 کروڑ لوگ پاکستان بھر میں متاثر ہیں اور یہ 12 ہزار روپے کتنی دیرتک ایک خاندان کیلئے کافی رہیں گے؟ ابھی ملک میں کورونا کیسز اور بڑھنے ہیں، آج اگر لوگوں کو روزگار نہ دیا تو بھوک سے مرنے کا مسئلہ زیادہ ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ میں 10 دفعہ سوچتا ہوں کہ سفید پوش لوگ کیسے گزارا کررہے ہوں گے، ہم اپنے لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بچا رہے ہیں۔ حالات کنٹرول میں ہیں، 14 مئی تک ہماری پروجیکشن کے مطابق کورونا کے مثبت کیسز کا اندازہ 92 ہزار695 اور اموات کا اندازہ ایک ہزار 324 لگایا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے لیکن ہماری منصوبہ بندی کے مطابق جون کے آخر تک اسپتالوں میں سہولیات مزید بڑھ جائیں گی۔انہوں نے اپیل کہ کہ دکانوں اور مارکیٹوں کے مالکان حکومت کی طے کردہ ضابطہ کار پر عمل درآمد کریں، عوام بھی احتیاط کریں تاکہ کاروبار کو کھولا جائے، جب تک عوام خود احتیاط نہیں کریں گے تو حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔عمران خان کا کہنا ہے کہ سارے فیصلے سے مشاورت سے ہوتے ہیں اور ٹرانسپورٹ پر پوری طرح فیصلہ نہیں ہوسکا کہ کھولیں یا نہیں کیونکہ ایک دو صوبوں کو اعتراض ہے، کورونا وائرس سے جو مشکل میں ہے وہ غریب طبقہ ہے اور غریب آدمی کو کہیں جانا ہو تو اس کو پبلک ٹرانسپورٹ چاہیے، ٹرانسپورٹ بند کرتے ہیں تو سب سے زیادہ نقصان غریب کو ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کھول دیں، امریکا اور یورپ میں ہلاکتوں کے باوجود ٹرانسپورٹ اور ائیرٹریفک بند نہیں کی تو ہم نے کیوں کی ہوئی ہے؟ ہمارے لوگ بیروزگار ہوئے ہیں، ویب سائٹ پر بیروزگار ہونے کا بتانے والوں کو پرائم منسٹر ریلیف فنڈ سے پیر سے پیسے ٹرانسفر کریں گے۔ ہمارے فیصلوں سے ایسی صورتحال نہیں پیدا ہوگی کہ اسپتالوں کا نظام مفلوج ہوتا نظر آئے۔اس موقع پر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ کورونا آگاہی میں زبردست کردار ادا کیا اور عوام میں کورونا سے متعلق مثر پیغام پہنچایا، ہم ایک مربوط حکمت عملی کے تحت آگے چل رہے ہیں اور ہم ٹیسٹنگ کی صلاحیت کو بھی بتدریج بڑھا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ این سی او سی کے اجلاس میں صورتحال کا جائزہ لیا ہے اور ہم اگلے 6 ہفتوں کا بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے فیصلوں سے ایسی صورتحال نہیں پیدا ہوگی کہ اسپتالوں کا نظام مفلوج ہوتا نظر آئے۔
اسلام آباد (صباح نیوز)