سیاسی جماعتیں نئے صوبوں کے قیا م میں ناکام ہو گئیں..ہزارہ اور جنوبی پنجاب صوبوں کا بل نئی اسمبلیاں آنے تک موخر کر دیاگیا

پی ٹی آئی اور جے یو آئی ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دینے کی تجویز پر متفق ہو گئیں

موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت کو نئے صوبوں کا وزن نہیں اٹھانا چاہیے سینیٹر کامران مرتضی

دونوں ہاؤسز کی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے بڑی جماعتوں کی قیادت کا مشاورتی اجلاس ہوناچاہیے۔ حکومتی اتحادی

انتخابی سال ہے یہ معاملہ نومبر 2023ء میں آنے والی قومی وصوبائی اسمبلیوں پر چھوڑ دیا جائے، فاروق ایچ نائیک

بھارت میں تین بار ریاستی تشکیل نو پر کام ہو چکا ہے سندھ میں بھی نیا صوبہ بن سکتا ہے۔ولید اقبال

کب تک آنکھیں بند کیے رکھیں گے۔ ہزارہ صوبے کے بل کے  محرک سینیٹر پیر صابر شاہ کا موقف

سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون وانصاف کا مزید وقت کے لیئے چیئرمین سینٹ سے رابطے کا فیصلہ

اسلام آباد(ویب  نیوز)

حکومت اپوزیشن سیاسی جماعتیں نئے صوبوں کے قیام کے بارے میں عوام سے کیے گئے وعدے کی پاسداری میں ناکام ہو گئیں۔سینٹ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف میں ہزارہ اور جنوبی پنجاب صوبوں کا بل نئی اسمبلیاں آنے تک موخر کر دیاگیا۔پی ٹی آئی اور جے یو آئی ملک کے ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دینے کی تجویز پر متفق ہو گئیں۔دو صوبوں کی مجوزہ آئینی ترمیمی بلز کوملک کے دیگر صوبوں میں نئی وفاقی یونٹ بنانے کی بنیاد تصور کیا جائیگا۔منگل کو قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین سینیٹر علی ظفر کی صدارت میں ہوا۔قومی اسمبلی کی تحلیل کا وقت قریب  آنے پر اس معاملے پر کمیٹی نے تجاویز کا جائزہ لیا جبکہ یہ بلز جنوری 2022ء میں سینٹ میں پیش کیے گئے تھے 18 ماہ کے دوران کابینہ،بین الصوبائی رابطہ،خزانہ ،پارلیمانی امور کی وزارتیں بلز پر اپنی رائے نہ دے سکیں یہ کام وزارت قانون کے سپرد کیا گیا تھا اجلاس کے دوران پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹر علی ظفر نے حیران کن موقف اختیار کیا کہ اب جب کہ ملکی وسائل محدود ہیں بھاری قرضے بڑھ رہے ہیں نئے وفاقی یونٹ کیا متحمل ہو سکتے ہیں جبکہ لسانی بنیاد پر کوئی یونٹ بنانا خطرناک ہوگا۔خدمات کے لیے وسائل ،پانی کی تقسیم،این ایف سی ایوارڈ اور سینٹ نشستوں کے حوالے سے نئے صوبوں کے معاملات اہم ہیںاگر پنجاب دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے تو کیا دو پنجاب کی سینٹ میں نشستوں سے دیگر صوبوں میں احساس محرومی نہیں پیدا ہوگا؟ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ اس پارلیمنٹ اور حکومت کو نئے صوبوں کا وزن نہیں اٹھانا چاہیے دونوں ہاؤسز کی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے بڑی جماعتوں کی قیادت کا مشاورتی اجلاس ہوناچاہیے۔سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ انتخابی سال ہے یہ معاملہ نومبر 2023ء میں آنے والی قومی وصوبائی اسمبلیوں پر چھوڑ دیا جائے۔سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ صوبوں کی تعداد بڑھنی چاہیے۔بھارت میں تین بار ریاستی تشکیل نو پر کام ہو چکا ہے اور ممالک نے بھی وفاقی ڈھانچے کا جائزہ لیا۔سندھ میں بھی نیا صوبہ بن سکتا ہے ہزارہ صوبے کے بل کے  محرک سینیٹر پیر صابر شاہ نے کہا کہ کب تک آنکھیں بند کیے رکھیں گے۔ایسا ملکی سالمیت  کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا جب محروم طبقات کی آواز نہیں سنتے  تو مخالفانہ آوازیں سنائی دیکھتی ہیں۔سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ ہم نئے صوبوں کے مخالف نہیں ہیں ملک کے تمام ڈویژنوں کو صوبوں کا درجہ دے دیا جائے مگر وسائل اور فنڈز کہاں سے لائیں گے۔قیادت کو بیٹھنا چاہیے ورنہ ہمارا یہ کام نئی اسمبلیاں آنے سے قبل لیپس ہو جائے گا۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عجلت میں بنایا گیا قانون ناکام ہو جاتا ہے چاروں صوبوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے حکومت کی مدت ختم ہونے والی ہے اور کوئی آئینی ترمیم حکومتی مرضی کے بغیر منظور نہیں ہو سکتی جبکہ موجودہ قومی اسمبلی تو ویسے بھی دو تہائی اکثریت سے محروم ہے۔رانا مقبول نے بھی ان کی حمایت کی جنوبی پنجاب کے  محرک رانا محمود الحسن نے کہا کہ میں نے بل 17 جنوری 2022ء کو سینٹ میں پیش کیا بھارتی پنجاب ہریانہ سمیت دیگر صوبوں میں تقسیم ہو چکا ہے کیا جالندھر نیا وفاقی یونٹ نہیں بن گیا۔ہم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی داستان کس کو سنائیں۔ایڑھیاں اٹھا اٹھا کر لاہور کو دیکھتے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔رونے بھی نہیں دیتے۔کیا یہ کمیٹیاں اسلام آباد کے لیے ہیں ہزارہ ،ملتان،بہاولپور میں اس کے اجلاس کیوں نہیں ہو

سکتے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ انتخابات قریب ہیں بحث کے لیے مزید وقت درکار ہے چیئرمین سینٹ کو رپورٹ کی تیاری کی مدت میں مزید توسیع کا خط لکھ دوں گا۔فاروق ایچ نائیک نے اصرار کیا کہ نئی اسمبلی کا انتظار کیا جائے بھارت اور امریکہ میں نئے صوبے بنانے کے لیے آئینی میں ترامیم کی ضرورت پیش نہیں آتی۔آئین و قانون جذبات نہیں دیکھتے قانون اندھا ہوتا ہے۔آنے والی حکومت کے لیے معاملہ چھوڑ دیں۔اراکین نے استفسار پر وزارت قانون وانصاف کے حکام نے بتایا کہ نجی بلز کو وزارتیں سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔اسی لیے اب تک وہاں سے رائے نہ آ سکی۔رانا مقبول اور ولید اقبال نے کہا کہ اب تو حکومت بھی تبدیل ہو گئی نئی موجودہ نہ سابقہ کسی میں بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔سینیٹر پیر صابر شاہ نے کہا کہ سیکرٹری وزارت قانون کا بیان میری اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ وزارتیں ہمارے بلز کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔18 ماہ ہو گئے ہیں کسی نے کوئی رائے نہیں دی۔سیکرٹری نے ہاؤس کی توہین کی جس پر سیکرٹری کو معذرت کرنا پڑی جس پر انہیں دو ہفتوں میں صوبوں اور دیگر شراکت داروں سے نئے صوبوں کے بارے میں نئی تجاویز حاصل کر کے کمیٹی  کو  بھجوانے کی ہدایت کر دی گئی۔قانون و انصاف کی کمیٹی دوسری بات نئے صوبوں کی رپورٹ کی تیاری کے لیے مدت میں توسیع حاصل کرے گی اور چیئرمین سینٹ سے  ملاقات کی جائے گی۔

qa.aa.mz