اسلام آباد(صباح نیوز)
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مخصوص شعبوں کے علاوہ سب کچھ ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے کھول دیا جائے گا، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا حکومتیں ایس او پیز بنا کرسیاحتی شعبہ کھولیں گی،ہمارے خیال میں سیاحت کھولنا اس لیے ضروری ہے کہ وہ علاقے صرف تین چار مہینے گرمیوں کے ہوتے ہیں اور ان کا روزگار ہی سیاحت کی وجہ سے ہوتا ہے اور اگر یہ دو تین چار مہینے چلے گئے تو ان علاقوں میں مزید غربت بڑھ جائے گی۔ ہمیں ایک ذمے دار قوم بننا پڑے گا اگر ہمیں لوگوں کو غربت سے بچانا ہے اور ساتھ ساتھ وبا کے پھیلا کو بھی کم کرنا ہے کیونکہ اگر یہ وبا آہستہ آہستہ پھیلے گی تو ہمارے ہسپتالوں پر دبا نہیں پڑے گا اور اس عروج گزرجائے گا اور ہمارا معاشرہ بھی برے اثرات سے بچ جائے گا۔ سمندر پارپاکستانیوں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے، ، ویکسین کی تیاری تک کورونا وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں لگ رہا، زیادہ نقصان سے بچنے کیلئے عوام کو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا، وزیر اعظم قومی رابطہ کمیٹی اجلاس کے بعدبریفنگ دے رہے تھے۔ اجلاس میں صوبائی وزراء اعلیٰ ، چیف سیکرٹریز نے شرکت کی۔وزیراعظم نے کہاکہ جیسے ہی کورونا کیسز کا علم ہوا ہم نے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں پاکستان میں لاک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا اس وقت ہمارے حالات چین یورپ اور امریکہ سے مختلف ہیں ہمارے 5 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ اڑھائی کروڑ افراد دیہاڑی دار ہیں۔مکمل اور سخت لاک ڈائون کی صورت میں دیہاڑی دار اور غریب افراد زیادہ متاثرہوئے ۔ لہذا جزوی لاک ڈائون کا فیصلہ کیا جزوی لاک ڈائون کا مقصد وائرس کے پھیلائو کو کم کرنا تھا ۔ امیر اور غریب افراد کیلئے لاک ڈائون کے اثرات مختلف ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں روزانہ کی بنیاد پراجلاس ہورہے ہیں۔ ہماری صورتحال پر گہری نظر ہے۔ ہمیں ایک طرف لوگوںکو وائرس اور دوسری طرف بھوک اور افلاس سے بچانا ہے۔ میں سخت لاک ڈائون نہیںچاہتا تھا مگر صوبے خود مختار ہیں ان کو وباء پھیلنے کا خدشہ تھا بدقسمتی سے جس طرح کا لاک ڈائون ہوا اس نے ہمارے نچلے طبقے کو بڑی تکلیف پہنچائی ہے۔ اگر ہم تعلیمی ادارے شادی ہال اور دیگر وہ جگہیں جہاں زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں انہیں بند کردیتے مگر میں کاروبار نہ روکتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے ایک فہرست بنائی ہے اور مخصوص شعبوں کے علاوہ سب کچھ ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے کھول دیا جائے گا، اس میں ان شعبوں کا ذکر ہے جن کو ہمیں بند کرنا ہے اور باقی ہم نے کھول دیے ہیں البتہ جہاں خطرہ زیادہ ہے وہ ابھی بھی ہم نے بند رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جب تک ویکسین نہیں بنتی کورونا وائرس ختم نہیں ہوگا تب تک ہمیں اس وائرس کے ساتھ گزارا کرنا ہے امریکہ میں اب تک تقریباً ایک لاکھ لوگ وفات پا چکے ہیں ۔امریکہ نے کورونا کے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے 3 ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ ہم اب تک لوگوں کو 8 ارب ڈالر دے چکے ہیں اور مزید مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب امیر ترین ملکوں نے بھی لاک ڈائون کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ کوئی بھی یہ گارنٹی نہیں دے سکتا کہ لاک ڈائون کھولنے کے بعد وائرس نہیں پھیلے گی۔بعض ممالک میں وائرس کم ہونے کے بعد دوبارہ پھیل گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ وائرس مزید پھیلے گی اگر ہم نے اس سے کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے تو احتیاطی تدابیر اختیار کرنا عوام کی ذمہ داری ہے اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو ہم اپنا نقصان کریں گے ۔ اگر ہمیں مخصوص علاقے بند کرنا پڑے جہاں وباء تیزی سے پھیل رہی ہے تو وہاں کاروبار بند ہو جائیں گے اس سے ملک اور عوام دونوں کا نقصان ہوگا اس لئے سب سے درخواست ہے کہ وہ ایس او پیز پر عمل کریں ہم نے وہ شعبے جہاں وائرس پھیلنے کا زیادہ خطرہ ہے وہ بند رکھے ہیں باقی تمام شعبے کھول دئیے ہیں میں سیاحت کے شعبے کو کھولنے کے حق میں ہوں کیونکہ ٹورازم کیلئے گرمیوں کے صرف 3 چار ماہ ہیں اس کیلئے گلگت بلتستان اور پختونخوا حکومتیں ایس او پیز بنا کر سیاحتی شعبہ کھولیں گی اگر ہم نے لوگوں کو غربت اور وباء سے بچانا ہے تو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ اگر ہم نے زیادہ نقصان سے بچنا ہے تو حکومتی ایس او پیز پر عمل کرنا ہوگا۔ بھارت میں لاک ڈائون کی وجہ سے لوگوںکا غربت اور بھوک سے برا حال ہے اور اس کے باوجود وہاں وباء تیزی سے پھیل رہی ہے اب بھارت لاک ڈائون کھولنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ساری دنیا فیصلہ کرچکی ہے کہ کم ازکم ہمیں اس سال کورونا وائرس کے ساتھ ہی رہنا ہوگا۔ اس کے اثرات سے صرف احتیاطی تدابیر سے ہی بچا جاسکتا ہے ۔مجھے پہلے دن سے ہی غریب طبقے کی فکر ہے ہمیں اپنے ڈاکٹروں اورنرسز کی فکر ہے ہم ہمیشہ سوچتے ہیں کہ ہم ان کی کیسے مدد کرسکتے ہیں۔ کورونا سے ہمارے 13 سے 15 کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں جن کے حالات برے ہیں۔ ہم نے کچھ کو پیسے دے دئیے ہیں اور باقیوں کو بھی دینے کی کوشش کررہے ہیں ہمارے حالات بھی اتنے نہیں ہیںکہ ہم لوگوں کو پیسے دیتے رہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ٹائیگر فورس کی تیاری کا مقصد بھی لوگوں میں کورونا سے بچائو کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ وائرس سے ہماری معیشت پر بہت برا اثر پڑا ہے ہمارے ٹیکس 30 فیصد کم ہوچکے ہیں ہماری برآمدات گر گئی ہیں ۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوگئے ہیں ۔ سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ مجھے اوورسیز پاکستانیوں کا بھی بہت احساس ہے جو محنت کش بیرون ملک پھنسے ہوئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہمارا ملک چلتا ہے ہم ہر اجلاس میں سوچتے ہیں کہ اوورسیز کو کیسے پاکستان لایا جائے شروع میں ہمارے ہاں 80 سے 90 فیصد کیسز باہر سے آئے باہر سے آنے والوں کو چیک کرنے کی ہمارے پاس اتنی سہولیات ہی نہیں تھیں اس لئے باہر سے لوگوں کو لانا کم کردیا اور زیادہ لوگ باہر پھنس گئے صوبوں کو خدشہ تھا کہ باہر سے آنے والوں سے وباء کے مزید پھیلنے کا خدشہ ہے لیکن باہر سے زیادہ لوگوں کو اس وقت تک نہیں لے سکتے جب تک ان کا صحیح چیک اپ نہ ہو جائے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم ان کو آنے دیں گے اور ٹیسٹ کے بعد گھروں کوجانے دیں گے جس کا ٹیسٹ پازیٹو نکلا ان سے کہا جائے گا کہ گھروں میں کورنٹائن کریں ۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرون ملک پھنسے لوگوں کوواپس لایا جائے اگلے چند دنوں میں اوورسیز کو پاکستان لانے کیلئے زیادہ فلائٹس آپریشنل ہو جائیں گے میں پھر کہتا ہوں کہ یہ وائرس مزید پھیلے گا اور اس سے اموات بھی بڑھیں گی اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ احتیاطی تدابیر پر جتنا عمل کریں گے اتنا ہی اس کے اثرات سے بچیں گے بوڑھیوں اور بیمار لوگوں کو اس سے زیادہ خطرہ ہے ان کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہم ایک پروگرام کے تحت روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو بتائیں گے کہ کس شہر کے کس ہسپتال میں وینٹی لیٹر دستیاب ہیں ابھی بھی ہر شہر میں 50 فیصدوینٹی لیٹر دستیاب ہیں ۔ ہم وینٹی لیٹر کی تعداد بھی بڑھاتے جارہے ہیں۔