مشرقی لداخ میں پیپلز لبریشن آرمی گلوان میں آٹھ کلو میٹر اندر آ گئی ہے
چین کے ساتھ کشیدگی میں بھارت نے بری ، بحری اور ہوائی فوج کو ہائی الرٹ کر دیا
 آرٹیلری اور اضافی فوجی دستے  لداخ روانہ،بھارتی ایر فورس کی غیر معمولی پروازیں
جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے ہیں وادی گلوان میں موبائل سروس بند کردی گئی
کشیدگی کے باعث لداخ میں رہائشی پذیر لوگوں میں خوف ودہشت کی لہر دوڑ گئی  ہے
لیہ لداخ(کے پی آئی) مشرقی لداخ میں پیپلز لبریشن آرمی گلوان میں آٹھ کلو میٹر اندر آ گئی ہے۔چین کے ساتھ کشیدگی میں بھارت نے بری ، بحری اور ہوائی فوج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے جبکہ آرٹیلری اور اضافی فوجی دستے  لداخ روانہ کر دیے ہیں۔ لیہ سرینگر شاہراہ سونہ مرگ سے آگے صرف فوجی گاڑیوں کے لیے مختص ہے ۔ اس شاہرہ  پر بھارتی فوجی کانوائے  لداخ کی طرف رواں دواں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور جموں میں بھارتی ایر فورس کی غیر معمولی پروازیں بھی  دیکھی گئی ہیں۔مشرقی لداخ میں گلوان ندی کے نزدیک دوسرے روز بھی بھارت چین افواج کے درمیان شدید کشیدگی کا ماحول دیکھا گیا۔ دوسری طرف چین کی طرف سے بھی  سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں۔لیہ سرینگر شاہراہ  پردن بھر فوجی کانوائے کے ذریعے آرٹیلری اور اضافی فوجی اہلکاروں کو لداخ کی طرف بھیجا گیا ہے ۔   لہیہ سرینگر شاہراہ پر گاڑیوں کی آمدرفت  پر کوئی پابندی عائد نہیں تاہم نجی گاڑیوں کو سونہ مرگ تک ہی جانے کی اجازت ہے اس کے بعد صرف فوجی گاڑیاں ہی لہیہ شاہراہ پر رواں دواں نظر آرہی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث لداخ میں رہائشی پذیر لوگوں میں خوف ودہشت کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ لداخ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر چین اور بھارتی افواج کے درمیان صلح  نہ ہوئی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے لہذا دونوں ممالک کو صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔لداخ کے دارالحکومت لیہہ سے کانگریس پارٹی کے سینیئر لیڈر رگزن سپلبار نے برطانوی اخبار کو بتایا  ہم رفتہ رفتہ اپنی زمین کھوتے جارہے ہیں اور اس بار چینی فوج وادی گلوان میں آٹھ کلو میٹر اندر آچکی ہے۔’ہم بارڈر پر رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں سب پتہ ہے۔ 1962 میں حقیقی کنٹرول لائن کہاں تھی اور آج کہاں ہے آپ وہ دیکھ لیں۔ چین نے تو وہاں پر اپنی سڑک بھی بنا لی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اصل زمینی صورت حال ہائی کمان تک نہیں جاتی ہے۔ سب اپنی معیاد گزارنے کے چکر میں نظر آتے ہیں۔’سرحدوں کے نزدیک موجودہ صورت حال اور مقامی لوگوں کی رائے سے متعلق سوال کے جواب میں رگزن سپلبار کا کہنا تھا: ‘فوج اور ہتھیار وہاں پر تیار حالت میں رکھے گئے ہیں۔ وادی گلوان اور اس کے مضافات میں دور دور تک کوئی آبادی نہیں ہے۔”ہم ان چیزوں کے عادی بن چکے ہیں۔ ملکی سطح پر ہمارے لیڈر ایسے ہیں کہ پاکستان کے خلاف بولنا ہو تو خوب بولتے ہیں۔ چین کی باری آئے تو خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ چین کبھی بھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا ہے۔ اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔’بھارتی نیوز چینل نیوز 18 کی ایک رپورٹ میں چینی حملے میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد 23 بتائی گئی ہے تاہم منگل کی شام دیر گئے بھارتی فوج کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 20 بتائی گئی تھی۔اسی رپورٹ میں ایک فوجی افسر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ چینی فوجیوں کے حملے میں زخمی ہونے والے بھارتی فوجی اہلکاروں کی تعداد 100 سے زائد ہے، جن میں سے دو درجن کے قریب افراد کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔بھارتی اخبار ‘انڈین ایکسپریس’ نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ چین نے کچھ بھارتی فوجیوں کو اسیر بنایا تھا لیکن انہیں بعد ازاں میجر جنرل سطح کی میٹنگ کے بعد رہا کردیا گیا۔لداخ کے ایک صحافی نے برطانوی  بتایا کہ لداخ میں چین کے ساتھ ملحقہ سرحد کی صورت حال کشیدہ ہے اور لوگوں میں بھی سخت خوف و ہراس ہے۔’میری اطلاعات کے مطابق سرحد کے نزدیک جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے ہیں۔ وادی گلوان اور اس کے تمام مضافاتی علاقوں میں موبائل سروس بند کردی گئی ہے، جس کی وجہ سے اطلاعات کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔ جو کچھ بھی سامنے آرہا ہے وہ سرکاری ذرائع کے حوالے سے ہی سامنے آرہا ہے۔’