90روز کے اندر انتخابات،الیکشن کمیشن ،وفاق کو نوٹسز جاری ،جواب طلب

 دو درخواست گزاروں کوصدر مملکت کا نام مدعا علیہان کی فہرست سے نکال کرترمیم شدہ درخواستیں دائر کرنے کی ہدایت

 کیس میں ویڈیو لنک کی سہولت موجود نہیں ہو گی لہذا درخواست گزاروں کے وکلاء ااسلام آباد آکر دلائل دیں،عدالت

 درخواست کب دائر کی اور ابتک سماعت کیلئے مقرر کیوں نہیں ہوئی،چیف جسٹس کا وکیل عابد زبیری سے استفسار

 اگست میں درخواست دائر کی مگر کیس سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوا،وکیل عابد زبیر ی

کہ ہمیں عدالتی سٹاف نے نوٹ دیا کہ آپ نے جلد سماعت کی کوئی درخواست نہیں دی، یہ تو فوری نوعیت کا معاملہ تھا،چیف جسٹس

اسلام آباد( ویب  نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اورجسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 90روز کے اندر انتخابات منعقد کرانے کے حوالے سے دائر درخواستوںپر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وفاق پاکستان کو نوٹسز جاری کرکے جواب طلب کر لیا۔عدالت نے دو درخواست گزاروں کوصدر مملکت کا نام مدعا علیہان کی فہرست سے نکال کرترمیم شدہ درخواستیں دائر کرنے کی ہدایت کردی۔عدالت نے کیس کی سماعت دو نومبر دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ اس کیس میں ویڈیو لنک کی سہولت موجود نہیں ہو گی لہذا درخواست گزاروں کے وکلاء ااسلام آباد آکر دلائل دیں۔ تمام درخواست گزاروں نے اپنی دیگر تمام استدعائیں ختم کرتے ہوئے فوری طور پر انتخابات کروانے کی یک نکاتی استدعا پر اتفاق کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان، پاکستان تحریک انصاف، منیر احمد اورسابق جج لاہور ہائی کورٹ عبادالرحمان لودھی کی جانب سے90روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالہ سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے وکیل بیرسٹرعلی ظفر اور منیر احمد کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کی درخواست پر تو رجسٹرار آفس کے اعتراضات کیخلاف اپیل ہے، یہ اپیل تو چیمبرمیں لگتی ہے، کھلی عدالت میں کیسے لگی؟ عابد زبیری صاحب آپ اپنی درخواست میں کیا مانگ رہے ہیں، آپ نے درخواست کب دائر کی اپنی استدعا پر آئیں۔سپریم کورٹ بارکے سیکرٹری جنرل کی جانب سے دائر درخواست پر وکیل عابد شاہد زبیری نے عدالت کے سامنے اپنی درخواست پڑھی۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ رجسٹرار نے آئینی درخواست پر اعتراض عائد کیا تھا، ایک درخواست گزار نے کہا کہ میری اپیلیں کیوں مقرر نہیں ہوئیں اس کا علم نہیں،لاہور ہاوئی کورٹ کے سابق جج عباد الرحمان لودھی نے بھی عدالت کو بتایا کہ میری درخواست پربھی اعتراضات لگے ہیں، چیمبر میں سماعت نہیں ہوئی۔صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے 5 اگست کو مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ چیلنج کیا۔چیف جسٹس نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ درخواست کب دائر کی اور ابتک سماعت کیلئے مقرر کیوں نہیں ہوئی؟ جس پر وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ اگست میں درخواست دائر کی مگر کیس سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں عدالتی سٹاف نے نوٹ دیا کہ آپ نے جلد سماعت کی کوئی درخواست نہیں دی، یہ تو فوری نوعیت کا معاملہ تھا۔وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو جلد سماعت کی درخواست دی تھی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بروقت درخواست مقرر ہوتی تو ابھی تک فیصلہ ہوچکا ہوتا۔عابد زبیری نے کہا کہ درخواست میں استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات یقینی بنانے کا حکم دیا جائے، مشترکہ مفادات کونسل کا مردم شماری کا ریکارڈ شائع کرنے کا آرڈر کالعدم قرار دیا جائے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مردم شماری شروع اور ختم کب ہوئی؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ یہ میرے علم میں نہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ آرٹیکل 19 کے تحت ایک خط لکھ کر پوچھ لیتے، وکیل نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دینے کی پریس ریلیز بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا مردم شماری سے متعلق آئین میں کچھ لکھا ہے کہ کب ضروری ہو گی؟ کیا مردم شماری کا انتخابات سے تعلق ہے یا کسی اور مقصد کیلئے ہوتی ہے، مردم شماری کیلئے آئین کا مینڈیٹ کیا ہے؟، وکیل عابد زبیری نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی صرف پالیسی بنانے کا ذکرہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مردم شماری آئینی ضرورت ہے؟ اس سے پہلے مردم شماری کب ہوئی؟ جسٹس اطہر من اللہ نے بھی کہا کہ اگلا سوال پھر وہی ہوگا کہ مردم شماری کب ہو گی؟وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اس سے پہلے مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں تو لکھا تھا کہ وہ ایک عبوری مردم شماری تھی، کیا اس کے بعد کوئی حتمی مردم شماری بھی ہوئی؟ کیا اس مردم شماری پر حتمی ہونے کا کوئی ٹھپہ لگا؟، وکیل نے کہا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات 90 دن کے اندر ہونا لازمی ہیں۔چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں عام انتخابات 2017 کی مردم شماری پر ہوں؟ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ نئی مردم شماری اور حلقہ بندی کو بنیاد بنا کر انتخابات میں تاخیر ممکن نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لیں تو شاید انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔عدالت نے 11بجے 90 روز میں عام انتخابات کروانے کے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔وقفے کے بعد درخواست پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے دلائل کا دوبارہ آغازکیا۔ چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ ہمیں کیا دستاویزات دے رہے ہیں؟ جس پر وکیل عابد زبیری نے کہا کہ میں 2017 کی مردم شماری کی دستاویزات دے رہا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2017 کے بعد مردم شماری کا آغازکرنے میں کتنے سال لگے؟ 2021 میں مردم شماری کا دوبارہ آغاز ہوا، آپ دوسری بارغلط بیانی کر رہے ہیں، آپ عدالت کو غلط حقائق بتا رہے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک چیز منسوخ ہو گئی تو اس کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے، 2017 میں فیصلہ ہوا تو مردم شماری کا عمل 6 سال بعد کیوں شروع نہ ہوا، کس نے مردم شماری کا آغاز تاخیر سے کیا، آپ حقائق پر مقدمہ نہیں چلا رہے، بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا تھے۔وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اپریل 2022 میں ایک حکومت ختم ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو اتنی تشویش تھی تو 2017 سے 2021 تک درخواست دائر کیوں نہیں کی؟ اب جب مردم شماری ہو گئی تو آپ کہہ رہے مردم شماری غلط ہوئی ہے۔عابد زبیری نے جواب دیا کہ میرا کہنا یہ نہیں کہ 2023 کی مردم شماری غلط ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2017 سے 2021 تک مردم شماری کی منظوری میں 4 سال لگ گئے، 2021 کی مردم شماری کا آغاز بھی سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہوا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جو بھی مردم شماری میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں انہیں ذمہ دارٹھہرایا جائے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ انتخابات کروائے جائیں؟ جس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی بالکل ہم اتنی ہی بات چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کی ساری استدعا مردم شماری کے بارے میں ہے، کیا آپ آئین کے آرٹیکل 224 کی عملداری مانگ رہے ہیں؟ جس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت سے میری یہی استدعا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل سے استفسار کیا کہ 90 دن کب پورے ہو رہے ہیں؟ جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ 3 نومبر 2023 کو 90 دن پورے ہوجائیں گے۔چیف جسٹس نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ اگر آج ہم 90 دنوں میں انتخابات کا حکم دیں تو کیا انتخابات ہو سکتے ہیں؟ جس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ اگر آج عدالت حکم دے تو 3 نومبر کو انتخابات نہیں ہو سکتے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر اپنی درخواست میں ترامیم کر لیں۔کیا ہم صدر مملکت کو تاریخ نہ دینے پر نوٹس دیں؟ چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار سے استفسار کیا کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ نہیں دی تو ہم کیا کریں، کیا ہم صدر مملکت کو تاریخ نہ دینے پر نوٹس دیں۔وکیل عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت کواستثنیٰ حاصل ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر مملکت کیخلاف ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اپنی رٹ بحال کرنے کیلئے حکم جاری کرسکتے ہیں، اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کررہا ہے تو آرٹیکل 6 لگے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوکل گورنمنٹ انتخابات کیس میں سپریم کورٹ کے کہنے پر مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا، ہم تاریخ کو فراموش نہیں کر سکتے، گزشتہ حکومت نے مردم شماری کرانے کے فیصلے کیلئے 4 سال لگا دیئے۔وکیل عابد زبیری نے کہا کہ خیبرپختونخوااور پنجاب میں انتخابات کے احکامات کا حکم بھی اسی عدالت نے دیا تھا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا لیکن کیا دو صوبوں میں انتخابات کا کیس زیر سماعت ہے؟ آپ وکیل ہیں لے آئیں ناں کوئی توہین عدالت کی درخواست، کس نے روکا ہے، جب میں بلوچستان کا چیف جسٹس تھا صرف بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، تاریخ دینے کے حوالے سے قانون میں ترمیم ہو گئی تھی، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم آئین کےآرٹیکل 48 سے متصادم ہے؟ الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ انتخابات میں تاخیر چاہتے ہیں؟، انتخابات تو ہونے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدرمملکت کو ایک وکیل نے خط لکھا اس کا کیا جواب ملا؟چیف جسٹس کے سوال پردرخواستگزار منیر احمد کے وکیل انور منصور خان نے جواب دیا کہ صدر مملکت نے کوئی جواب نہیں دیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ تو تاخیرکا ذمہ دار صدر مملکت کو ٹھہرا رہے ہیں۔عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ اپریل 2021 کو مشترکہ مفادات کونسل نے 2017 کی مردم شماری کی منظوری دی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس وقت کس کی حکومت تھی؟ وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر مردم شماری منظور ہونے میں 4 سال کیوں لگ گئے؟ آپ مردم شماری میں تاخیر کے ذمہ دار کا نام بتائیں۔عابد زبیری نے کہا کہ مردم شماری کا نوٹیفکیشن منسوخ ہو گیا تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2017 کی مردم شماری منظور ہو گئی تو کہا گیا جلد ازجلد نئی مردم شماری ہو پھر کیوں نہ کرائی گئی، آپ آدھی سچائی کیوں بیان کرتے ہیں، گزشتہ حکومت نے مردم شماری نہیں کرائی جب نئی حکومت نے کرا دی تو کہتے ہیں غلط ہے، آپ نے اس وقت مردم شماری کے فیصلے کوچیلنج کیوں نہیں کیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اردو میں کہتے ہیں دیرآئے درست آئے مگرآپ کہتے ہیں غلط ہے، مردم شماری کرانا مشکل کام ہے مگر اس کی منظوری کیلئے وزرائے اعلی کو بلانا ہوتا ہے، آپ کہتے ہیں 2023 کی مردم شماری منظور کرنے والے دوممبرز نہیں تھے، 2017 کی مردم شماری میں بھی سندھ نے خلاف ووٹ دیا تھا، یا تو آپ کہہ دیں کہ ہم الیکشن نہیں چاہتے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر تو انتخابات کے انعقاد کیلئے مردم شماری آئینی ضرورت ہے تو انتخابات کا التوا سمجھ میں آتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار منیر احمد نے بھی جلد سماعت کی درخواست نہیں دی، میڈیا پر انتخابات کیس پر لمبی لمبی بحث ہوتی ہے، ہم کیس لگائیں توالزام، کیس نہ لگائیں تو بھی الزام، یہ ایسا مقدمہ ہے جو ہرصورت لگنا چاہیے تھا، آج وکلا کے پاس مقدمے کی فائل ہی نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے کے بعد ہم نے اہم مقدمات لگانا شروع کر دیئے، میڈیا پر لمبی لمبی تقریریں اور کمرہ عدالت میں وکیل کے پاس کچھ نہیں ہوتا، اگر ہم نے تاخیر کرنا ہوتی تو خصوصی عدالتوں کے کیس میں نیا بنچ بنا دیتے، میڈیا ہم پر انگلی اٹھائے اگر ہم غلطی پر ہیں، کیس عدالت میں چلانا ہے یا ٹی وی پر چلانا ہے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ اپنا مقدمہ صرف 90 دن میں انتخابات تک رکھیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 90 دنوں والی بات ممکن نہیں وہ بات بتائیں جو ممکن ہو۔جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال اٹھایا کہ اگر صدر پاکستان نے آئین کی خلاف ورزی کی توعدالت کو بتائیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم اب صدر پاکستان کے ٹوئٹس پر فیصلے کریں گے، کیا سپریم کورٹ ٹوئٹس پر فیصلے کرے گی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدرعارف علوی کا ٹوئٹ کمرہ عدالت میں پڑھ کرسنایا اور کہا کہ یہ ٹوئٹ مان بھی لیں تو صدر نے الیکشن کمیشن سے رائے مانگی ہے۔چیف جسٹس نے انور منصور خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اسی صدر مملکت کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، صدر پاکستان بہت اچھے اخلاق والے ہیں، آپ انہیں فون کر لیتے، انور منصور صاحب آپ رابطہ کرتے تو صدر آپ کو ضرور خط دیتے، یہ عدالت توئٹس پر نہیں بلکہ دستاویز پرچلے گی، اگر خط مان لیں تو صدر پاکستان نے 6 نومبر کی تاریخ دیکر خود خلاف ورزی کی، عابد زبیری کے مطابق انتخابات 90 روزکے اندر 3 نومبرتک ہونے چاہیے تھے۔وکیل عابد زبیری نے کہا کہ مائی لارڈ غلطی ہو گئی ، تاریخ 6 نومبر ہی بنتی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ آپ تیسری بار غلطی کر رہے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا ہے کہ انتخابات کیس کی فوری سماعت ہونی چاہیے تھی، اب تک تو فیصلہ ہوچکا ہوتا۔پی ٹی آئی وکیل سید علی ظفر نے کہا کہ ہمارا کیس 90 دنوں میں انتخابات کا ہے، آرٹیکل 48 صدرِ مملکت کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار دیتا ہے، 90 دنوں میں انتخابات کے آئینی مینڈیٹ کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا، صدرِ مملکت تاریخ نہیں دیں گے تو پھر تاریخ کون دے گا؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سوال کیا کہ پوری بات بتائیں، کیا صدرِ مملکت نے تاریخ دی؟ تحریک انصاف نے درخواست کس کے توسط سے دائر کی؟وکیل علی ظفر نے بتایا کہ عمر ایوب خان کے ذریعے درخواست دائر کی گئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمر ایوب عدالت میں موجود ہیں؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ دیگر رہنمائوں کی طرح عمر ایوب بھی گرفتاری کے ڈر سے روپوش ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ عمر ایوب کے دادا کون تھے؟وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ عمر ایوب، ایوب خان کے پوتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا ایوب خان آمر تھے یا جمہوری رہنما تھے، ایوب خان نے اپنے11سالہ دور میں کتنی مرتبہ انتخابات کرائے ؟ ایوب خان نے 1956 کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی تھی، کیا عمر ایوب اپنے دادا کے اقدام کی مذمت کریں گے یا جمہوری ہوچکے ہیں؟ چلیں ابھی ان باتوں کو رہنے دیں، بعد میں کبھی پوچھیں گے۔جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیں؟درخواست گزار کے وکلا نے کہا کہ جی بالکل الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیں۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ نظریہ ضرورت کے تحت انتحابات وقت پر کرانے کے اقدامات کرنے چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ علی ظفر صاحب کی بات سے اتفاق نہیں، نظریہ ضرورت کچھ نہیں ہوتا، جس جس نے آئینی ذمے داری پوری نہیں کی نتائج کا سامنا کرنا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو بلائیں یا پھر صدرِ مملکت کو؟ صدر کو تو ہم بلا نہیں سکتے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزاروں کے مطابق الیکشن کمیشن نے مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں شروع کردیں، بتایا گیا کہ حلقہ بندیوں کا عمل 14 دسمبر تک مکمل ہوگا، درخواست گزار مردم شماری کے عمل، منظوری اور حلقہ بندیوں کے عمل سے مطمئن نہیں، درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ سارا عمل انتخابات کی تاخیر کا بہانہ ہے، درخواست گزاروں نے کہا کہ الیکشن 90 دنوں میں کرانا آئینی تقاضہ ہے، درخواست گزاروں کے مطابق حلقہ بندیوں اورمردم شماری کے بعد 90 دنوں میں الیکشن ممکن نہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب ایک آئینی ادارہ اپنا کام نہ کرے تو دوسروں پر معاملہ ڈال دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب ہم صدر پاکستان کی ٹویٹ کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے، ہم صدر کی ٹویٹ پڑھ لیتے ہیںپتا ہیں ٹویٹ ان کی ہے بھی یا نہیں۔ اگر 90روز میں انتخابات کروانے کے حکم پر عملدآمد نہیں ہو رہا تو پھر توہین عدالت کی درخواست دائر کریں، آدھی بات کیوں کرتے ہیں۔یا توکہہ دیں کہ ہم انتخابات نہیں چاہتے ، جن لوگوں نے انتخابات میں تاخیر کی یاتوان کا نام لیں۔ اگر آئین کی کوئی خلاف ورزی کررہا ہے تو پھر توآرٹیکل 6آئے گا۔ ZS

#/S