• سپریم کورٹ کا حکم تھا پھر بھی سی سی پی او لاہور تبدیل کیوں کیا گیا؟ اتنی جلدی کیا تھی؟جسٹس اعجازالاحسن
  •  عدالت حکم دے تو تبادلے روک دینگے ، الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی،چیف الیکشن کمشنر
  • آرمی سے سکیورٹی مانگی تو انکار کردیا گیا،عدلیہ سے آراوز مانگے تو انہوں نے انکار کردیا،چیف الیکشن کمشنر

اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف  الیکشن کمشنر کو انتخابات کے راستے میں حائل رکاوٹوں کی تفصیلات آج (جمعہ کو) پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ جمعرات کو سپریم کورٹ نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سے متعلق کیس پر سماعت کی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کاحکم تھا پھر بھی سی سی پی او تبدیل کیوں کیا گیا؟ غلام محمود ڈوگر کو ٹرانسفر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟۔پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے انہیں دوسری بار تبدیل کیا گیا۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ آئین کے تحت نگراں حکومت آنے کے بعد 90 دن میں انتخابات ہونے ہیں، نگراں حکومت کی وجہ سے الیکشن کمیشن سے اجازت لی گئی۔جسٹس مظاہرعلی اکبر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا کردار انتخابات کے اعلان کے بعد ہوتا ہے، آدھے پنجاب کو ٹرانسفر کر دیا، پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں ٹرانسفر نہ ہوا ہو؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کوسپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں تھا؟ الیکشن کمیشن اپنے کام کے علاوہ باقی سارے کام کر رہا ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگرکے ٹرانسفر کیس میں طلب کرنے پر چیف الیکشن کمشنرڈاکٹر سکندر سلطان راجہ سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت حکم دے تو تبادلے روک دینگے ، الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا پھر بھی سی سی پی او لاہور تبدیل کیوں کیا گیا؟ اتنی جلدی کیا تھی؟سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر سے آج (جمعہ) تک تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔عدالت نے پنجاب میں نگران حکومت کے دور میں ہونے والے تبادلوں کا تمام ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ عدالت نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی اور خود مختارادارہ ہے، آپ نے کسی کے احکامات پر عمل نہیں کرنا اورخودفیصلہ کرنا ہے، الیکشن کمیشن کا بنیادی کام شفاف انتخابات کرانا ہے اوراگراسمبلی تحلیل ہوجائے تو90روز کے اندر انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن اس کی ضرور پابندی کرے اور اگر الیکشن کمیشن ایسا نہیں کرتا تویہ آئین کے آٹیکل کی خلاف ورزی ہو گی۔عدالت نے قراردیا ہے کہ تمام ادارے آئین پر عملدرآمد کرنے اور انتخابات کے معاملہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کرنے کے پابند ہیں۔ عدالت نے چیف الیکشن کمشنر کو آج  (جمعہ)کے روز صبح ساڑھے 9بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل دورکنی بینچ نے عدالتی حکم کے باوجود سابق سی سی پی اولاہور غلام محمود وگر کا تبادلہ کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین ہر صورت 90روز میں انتخابات کروانے کا پابند کرتا ہے، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تویہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی، نگران حکومت تقرریاں اور تبادلے نہیں کرسکتی، الیکشن کمیشن آئین کے ہر ایک لفظ پر عمل کرنے کا پابند ہے ، نگران حکومت کے کہنے پر نہیں چلنا نگران حکومت کو جو اختیار آئین نہیں دیتا آپ کیسے دے سکتے ہیں ،اگر 90 روز میں انتخابات نہیں کراتے تو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔چیف الیکشن کمشنرڈاکٹر سکندر سلطان راجہ نے عدالت میں مئوقف اپنایا کہ مجھے اپنے اختیارات اور آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدلیہ ریٹرننگ افسران نہیں دے رہی، حکومت بجٹ نہیں دے رہی اور آرمی کو سیکیورٹی کا کہتے ہیں وہاں سے انکار کردیا جاتا ہے، ایسے میں صاف، شفاف انتخابات کس انداز میں کروائیں گے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کیا یہ معاملات حکومت کے ساتھ اٹھائے گئے ہیں۔ اس پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ حکومت کے نوٹس میں تمام معاملات کو لا چکا ہوں لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ اس پرعدالت نے چیف الیکشن کمشنر سے حکومت اوراداروں کے ساتھ ہونے والی تمام خط وکتابت کا ریکارڈ (آج)طلب کر لیاہے۔ عدالت نے چیف الیکشن کمشنر سے کہا ہے کہ وہ آج دوبارہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ انہیں بخار ہے ان کے لئے آنا مشکل ہو گا، سیکرٹری یاکوئی دوسرا افسر آکر ان کی نمائندگی کر لے۔ اس پر عدالت نے ان کی استدعامسترد کردی اور کہا کہ آج(جمعہ کو) صبح ساڑھے 9بجے سب سے پہلے اسی کیس کی سماعت ہو گی ، آپ چونکہ ادارے کے سربراہ ہیں اس لئے آپ کا موجود ہونا ہر صورت لازمی ہے، کل آپ نے ہر صورت دوبارہ پیش ہونا ہے۔  اس پر چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ سابق سی سی پی اولاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلہ کے حوالے سے پنجاب حکومت کی جانب سے درخواست آئی تھی جس کے بعد ان کا تبادلہ کیا گیا۔ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نگران حکومت کو بڑے پیمانے پر تبادلوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی، نہ ہی آئین اس کی اجازت دیتا ہے، آپ ان کو وہ اختیارات نہ دیں جو آئین بھی ان کو نہیں دیتا،الیکشن کمیشن وہ اختیارات نہیں دے سکتا۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم انتخابات کے حوالے سے انتظامات کررہے ہیں، جائزہ لے رہے ہیں اور مشاورت کررہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین بڑا واضح ہے کہ اگر اسمبلی تحلیل ہو جائے تو90روز کے اندر، اندر الیکشن کمیشن پابند ہے کہ وہ انتخابات کرائے۔ اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم نے ضمنی انتخابات کو بھی دیکھنا ہے اور عام انتخابات کو بھی دیکھنا ہے اور ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ اگر آپ 90روز کے اندر انتخابات نہیں کرائیں گے تویہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔اس پر چیف الیکشن کمشنر  نے کہا کہ ہم آئین کے ایک آرٹیکل کی پابندی کرتے ہیں تودوسرے کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے، ہم نے تمام حالات کو دیکھنا ہے۔ عدالت کا ٹرانسفر پوسٹنگ کے حوالے سے نگران حکومت کو کسی بھی طرح مکمل اختیارات حاصل نہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر تقرر اورتبادلے کرے، الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے خودآزادانہ طریقہ سے فیصلہ کرنا ہے اور اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہے اس کے بعد ہی اگر کوئی ضروری تقرروتبادلے مقصو دہوں اورضروری ہوں تووہ کرنے ہیں، ایسا نہیں کیا جاسکتا کہ بڑے پیمانے پر نگران حکومت ٹرانسفر پوسٹنگز کرتی جائے اورالیکشن کمیشن اس کودیکھے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج (جمعہ)تک ملتوی کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

  • پنجاب میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیلئے چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔

سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس میں سپریم کورٹ نے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی، آئین کے تحت 90 دن میں انتخابات ہونا لازمی ہیں، ابھی تک پنجاب میں صوبائی عام انتخابات کیلئے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، صوبائی عام انتخابات تاخیر کا شکار ہونے کا خطرہ موجود ہے۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات کا معاملہ براہ راست بنچ کے سامنے نہیں، براہ راست کیس نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات کے حوالے سے کوئی حکم جاری نہیں کر سکتے، عام انتخابات کا معاملہ سنجیدہ نوعیت اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا ہے، آئین کا دفاع کرنا عدالت کا قانونی آئینی اور اخلاقی فرض ہے۔

حکم نامے کے مطابق پنجاب میں تقرر و تبادلوں کا معاملہ انتخابات سے جڑا ہوا ہے، وفاقی حکومت کے مطابق غلام محمود ڈوگر کا تبادلے سے کوئی تعلق نہیں، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تبادلہ گورنر پنجاب کی جانب سے کیا گیا ہے۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا چیف الیکشن کمشنر نے انتخابات کی تاریخ دینے سے معذوری ظاہر کی، انہوں نے بتایا آئین کے تحت تاریخ مقرر کرنا گورنر کا اختیار ہے، چیف الیکشن کمشنر نے بتایا گورنر نے انتخابات کی تاریخ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ بھی نہیں دوں گا۔

سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبائی انتخابات 90 دن میں نہ ہوئے تو آئین کی کھلی خلاف ورزی ہوگی، پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ سوموٹو کیلئے بہترین کیس ہے، چیف جسٹس مناسب سمجھیں تو نوٹس لیکر سماعت کیلئے بنچ تشکیل دیں۔