پریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدر پاکستان کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس کو کالعدم قراردے د دیا
جسٹس قاضی فائز عیسی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف اپیل منظور
سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسی کو جاری کیا گیا شوکاز نوٹس بھی کالعدم
عدالت کی معاملہ ایف بی آر کو بھجواتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو ایک ہفتے میں تمام جائیدادوں سے متعلق الگ الگ نوٹس بھجوا نے کی ہدایت
ایف بی آر معاملے پر60روز میں فیصلہ کرے گا۔فیصلہ کرنے کے بعد چیئر مین ایف بی آر کی دستخط شدہ رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائی جائے گی۔ عدالتی فیصلے سے کسی فریق کا حق اپیل متاثر نہیں ہو گا ۔سپریم کورٹ کا دس صفحات پر مشتمل مختصر
عدالت عظمی کے تین ججزجسٹس مقبول باقر، جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی نے فیصلہ میں اضافی نوٹ بھی لکھا
جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس قاضی فائزعیسی کی درخواست کو ناقابل سماعت قراردیا
اسلام آباد(صباح نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدر پاکستان کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس کوکالعدم قراردے د دیا،جسٹس عمر عطابندیال نے دس صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ پڑھ کرسنایا ہے جس میں عدالت عظمی نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسی کو جاری کئے گئے شوکاز نوٹس بھی کالعدم قراردیئے ہیں ۔عدالت نے معاملہ ایف بی آر کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو ایک ہفتے میں تمام جائیدادوں سے متعلق الگ الگ نوٹس بھجوائے جائیں عدالت نے ہدایت کی ہے کہ ایف بی آر نوٹس جسٹس قاضی فائز عیسی کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر بھجوائے اور معاملے پر ایف بی آر کسی قسم کا التوا نہ دے۔ ایف بی آر کے نوٹس میں فاضل جج کے بچے اور بیوی فریق ہونگے اور ایف بی آر اس معاملے پر60روز میں فیصلہ کرے گا۔فیصلہ کرنے کے بعد چیئر مین ایف بی آر کی دستخط شدہ رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائی جائے گی۔ عدالتی فیصلے سے کسی فریق کا حق اپیل متاثر نہیں ہو گا ۔ عدالت عظمی کے تین ججزجسٹس مقبول باقر، جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی نے فیصلہ میں اضافی نوٹ بھی لکھا ہے ۔ جسٹس یحیی آفریدی نے جسٹس قاضی فائزعیسی کی درخواست کو ناقابل سماعت قراردیا ہے ۔ فیصلے میں عدالت نے قراردیا ہے کہ اعلی عدلیہ کے ججز قابل احتساب ہیں ۔سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر 44 ویں سماعت کے بعد محفوظ فیصلہ سنایا ہے۔ جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے ایف بی آر کے دستاویز سر بمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرائے تو جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی اس پر کوئی آرڈر پاس کرینگے۔معزز جج کی بیگم صاحبہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیںآپ اس کی تصدیق کروائیں۔۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہھم ابھی درخواست گزار کے وکیل منیر ملک کو سنتے ہیں۔اس دوران ایف بی آر نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ سر بمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرادیا اور درخواست گزارجسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر ملک نے بھی سر بمہر لفافے میں دستاویز عدالت میں پیش کر دیں۔منیر ملک نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ افتخارچوھدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے۔سپریم۔جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا۔۔توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنی پڑے گی۔آج ساڑھے دس بجے تک دلائل مکمل کرلوں گا۔منیر ملک نے کہاکہسمجھ نہیں آرہی حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا۔ فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے,برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور انکی برطرفی کا حوالہ دیا گیا,جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کیساتھ منسلک کیا تھا ج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں,۔الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی,بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی,ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی,۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا اور ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔۔سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔ منیر ملک کا کہنا تھا کہ دلائل میں حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ افتخار چوہدری کیس میں شوکاز نوٹس جاری نہیں ہوا تھا,اول تو آرٹیکل 209 میں شوکاز نوٹس کا ذکر ہی نہیں,لیکن سپریم جوڈیشل کونسل نے افتخار چوہدری کو طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا,سپریم جوڈیشل کونسل صدر کے کنڈکٹ اور بدنیتی کا جائزہ نہیں لے سکتی سپریم جوڈیشل کونسل کا کام صرف حقائق کا تعین کرنا ہے,۔جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہشوکاز نوٹس کے بعد جوڈیشل کونسل کو آئینی تحفظ کا سوال بہت اہم ہے,وزیر اعظم کو کوئی نیا ادارہ یا ایجسنی بنانے کا اختیار نہیں,اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کیلئے رولز میں ترمیم ضروری تھی,منیر اے ملک نے دعوی کیاکہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے ٹی او آرز قانون کیخلاف ہیں۔ باضابطہ قانون سازی کے بغیر اثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جاسکتا, جسٹس یحیی آفریدی کا کہنا تھا کہشوکاز نوٹس کے جواب کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا گیا, منیر ملک نے کہاکہ جو ریلیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو چاہیے وہ جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی۔منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ویب سائیٹ لندن جائیدادوں کی تلاش کیلئے 192.com کو استعمال کیا گیا،192.comپر سرچ کرنے کیلئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے، آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ بندے کو ای میل کرتی ہے،ضیا المصطفی نے ہائی کمشن کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں اورجن سیاسی شخصیات کی سرچ کیں اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیںحکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائیگا کہ جائیدادیں کس نے سرچ کیں۔ وحید ڈوگر نے ایک جائیداد کا بتایا تھا۔اگر سرچ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کیں تو رسیدیں دے ۔ جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ اے آر یو نے بظاھر صرف سھولت کاری کا کام کیا ہے۔منیر ملک کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ دھرنا فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججز کے خلاف لیتے۔حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ھٹانا چاھتی ہے۔اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسی نے منی ٹریل سے متعلق دستاویز جمع کرادیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول بھی جمع کرادیں۔۔ منیر ملک کا کہنا تھا کہسپریم کورٹ نے پاکستان سے باھر گئے پئسے کو واپس لانے کے لئے کمیٹی بنائی تھی۔سپریم کورٹ کی کمیٹی نے تجویز کیا تھا کہ آمدن اور اثاثوں کے فارم کئی ابھام ہیں۔ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جبکہ عدالتی کمیٹی کہتی ہے غیر ملکی اثاثے ظاھر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابھام ہے۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ آپ کا موقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں۔ گذشتہ کل کی سماعت کے بعد آپ کے موقف کو تقویت ملتی ہے۔ منیر ملک نے سوال اٹھیا کہ کیا ھم ایسا قانون چاھتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے۔؟جسٹس یحیی آفریدی کا کہنا تھا کہجج کے بنیادی حقوق زیادہ اھم ہیں،یا ان کا لیا گیا حلف ؟مین ملک نے جواب دیا کہ عدالت درخو است کو انفرادی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے ۔جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک کے جواب الجواب پر دلائل مکمل ہوئے توسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہاکہاسلام ھر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔،حامد خان نے اس ضمن میں دوران دلائل سورہ النسا کا حوالہ بھی دیا ۔سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہوئے توسندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے دلائل میں موقف اپنایا کہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو لیگل فورس ہے۔ حکومت کے مطابق وزیر اعظم ادارہ بنا سکتے ہیںوزیر اعظم وزارت یا ڈویزن بنا سکتے ہیں۔ رضاربانی کا کہنا تھا کہقوائد میں جن ایجنسیوں کا زکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہجتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں ان کو قانون کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ رضا ربانی نے کہاکہاے آر یو یونٹ کو لامحدود اختیارات دیئے گئے۔نوٹیفیکیشن کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے لیکناے آر یو یونٹ کے لئے قانون سازی نہیں کی گئی۔ رضا ربانی کے دلائل مکمل ہوئے تو کے پی بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہکے پی کے کے بیس ھزار وکلا کی نمائندگی کررہا ہوں۔اس مقدمے میں انتیس درخواستیں مختلف بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز نے دائر کی ہیں۔یہ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسی کے رشتہ دار نہیں۔یہ درخواست گزار عدالتی نظام کا حصہ ہیں۔حکومتی ریفرنس بے بنیاد اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔عدالت سے درخواست ہے کہ آئین کا تحفظ کریں۔ملک کی وکلا برادری عدالت عظمی کے سامنے کھڑی ہے۔آئین کے تحفظ اور بحالی کے لئے آمروں کے دور میں جیل جانا پڑا۔ یہ برابری کا مقدمہ بھی ہے۔ ہماری بہن اور بیٹی کو عدالت آنا پڑا۔ اگرچہانہیں بلایا نہیں گیا وہ خود اپنا موقف دینے آئیں۔افتخار گیلانی کا کہنا تھا کہ بار کونسل یا بار ایسو سی ایشن کا کوئی زاتی مفاد نہیں۔وکلا تنظیموں کا مفاد آئین کا تحفظ اور عدلیہ کی آزادی ہے۔یہ بھول جائیں کہ یہ کسی جج کا مقدمہ ہے۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ کیا صدارتی ریفرنس مکمل خارج کردیں؟ھمارے لئے یہ بڑا اھم معاملہ ہے۔بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز کا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے عدالت کودونوں جانب سے بھرپور معاونت ملی ، افتخار گیلانی کا کہنا تھا کہہمیں اپنے گریبان میں بھی جھناکنا چاہیے ،جسٹس عمر عطا بندیال نے وکلا سے کہاکہ بینچ کہ طرف سے آپکا بہت بہت شکریہ، جسٹس عمر عطا بندیال نے وکلا کا نام لے کر انکی معاونت پر شکریہ ادا کیا۔ یہ مقدمہ لکھنے کے لیے بڑا اہم تھا۔ جسٹس عمر کا کہنا تھا کہ مقدمے کے پہلوں پر مشاورت کریں گے