اسلام آباد(ویب ڈیسک)
خواتین صحافیوں نے آن لائن ہراساں کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں کوئی خاموش نہیں کراسکتا،سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان میں خاتون صحافیوں اور کمینٹیٹرز کو لگاتار ذاتی حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، جس کی وجہ سے انہیں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے،حراساں کرنے کے منظم مہم میں خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی ذاتی معلومات کو پھیلایا جاتا ہے ، حکومت فوری طور اپنے اراکین کو میڈیا میں موجود خواتین کو ٹارگٹ کرنے سے روکے۔پاکستانی میڈیا میں خواتین صحافیوں پر حملے کے حوالے سے مشترکہ بیان میں محمل سرفراز، عالیہ چغتائی،بے نظیر شاہ،ریما عمر،عنبر شمسی،نذرانہ یوسفزئی، زیب انسا برکی،تنزیلہ مظہر،رمشا جہانگیر،منیزے جہانگیر ،عاصمہ شیرازی،فرحت جاوید، عائشہ بخش،آئمہ کھوسہ،غریدہ فاروقی اور علینہ فاروق نے کہاکہ ان حملوں کا نشانہ وہ خواتین ہیں جو اپنے خیالات کے اظہار یا رپورٹنگ کے دوران پاکستان تحریک انصاف پر تنقید کرتی ہیں ، خاص طور پر حالیہ کروناوائرس کی وبا پر حکومتی کاکردگی پر سوال اٹھاتی ہیں۔ اکثر ان حملوں کا آغاز حکومتی عہدیداروں سے ہوتا ہے جس کے بعد تحریک انصاف سے وابستہ ٹوئٹر صارفین کی بڑی تعداد ان کے پیغامات کووائرل کرتی ہے ۔اس منظم مہم میں خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی ذاتی معلومات کو پھیلایا جاتا ہے ، ہمیں ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کیلئے ہم پر جھوٹی خبریں پھیلانے ، عوامی دشمنی اور رشوت لینے یا لفافہ صحافی جیسے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اکثر ہماری تصاویر اور ویڈیوز کو ایڈیٹ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے کام کے علاوہ ہماری صنف کی وجہ سے ہمیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہماری سوشل میڈیا ٹائم لائنز کو عورتوں کے لئے مخصوص گالیوں سے بھرا جاتا ہے، ہمیں جسمانی و جنسی تشدد کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان میں ہمارے خلاف کسی بھی جرم کو اکسانے کی صلاحیت ہوتی ہے اور ہمارا وجود ہر وقت خطرے میں رہتا ہے۔حال ہی میں ، خاتون رپورٹرز اور تجزیہ کاروں کے سوشل میڈیا اکانٹس کو ہیک کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ، نیز معلومات تک ہماری رسائی محدود کردی گئی ہے۔ کچھ معاملات میں ، ہیکنگ کی کوششوں کے نتیجے میں صحافیوں کو ان کے سوشل میڈیا اکانٹس کی رسائی سے محروم کر دیا گیا ہے۔میڈیا میں خواتین کیلئے خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر موجود خواتین کو ان پلیٹ فارمز کو آزادانہ طور پر استعمال کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ بہت سی خاتون صحافیوں نے سوشل میڈیا پر معلومات کے تبادلے سمیت کسی بھی قسم کے تبادلہ خیال سے خود کو باز رکھنا شروع کردیا ہے۔ ان مسلسل حملوں کے باعث صحافت سے عوام کا اعتماد اٹھنے لگا ہے جو کہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ درست اور قابل اعتماد معلومات تک رسائی عوام کا حق ہے ، خاص طور پر ہیلتھ ایمرجنسی کے دوران۔ہمیں آزادی رائے دہی کا حق استعمال کرنے اور عوامی مباحثے میں حصہ لینے سے روکا جارہا ہے۔ جب ہم خود ساختہ سنسر شپ اختیار کرتے ہیں تو ، دوسروں کو اپنے خیالات کی تشکیل اور معلومات حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا ، جو انسانی حقوق کے آرٹیکل I9-A کی خلاف ورزی ہے۔خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو وہ قانونی سہولت نہیں ملتی جس کی ضمانت آئین کی شق چار میں دی گئی ہے۔ یہ ان لوگوں کی وجہ سے ہے جو براہ راست پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں۔گزشتہ جولائی کے دوران وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صحافیوں کو دھمکیاں دینے والوں کے خلاف ایکشن لیں گی اور دھمکیوں، زیادتیوں، جبر اور خوف سے پاک ماحول بنائیں گی۔ محترمہ شیریں مزاری صاحبہ ہم انتظار کر رہے ہیں۔خواتین صحافیوں نے حکومت سے مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور اپنے اراکین کو میڈیا میں موجود خواتین کو ٹارگٹ کرنے سے روکے۔حکومت اپنے اراکین، پارٹی کے چاہنے والوں کو واضح پیغام دے کہ وہ خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے سے باز رہیں۔ حکومت ان کارروائیوں میں ملوث افراد کا احتساب یقینی بنائے اور ان کے خلاف کارروائی کرے۔ہم دونوں ایوانوں کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حکومت کا احتساب کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت خواتین صحافیوں کی شکایت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ حرکتیں بند کرے، اسے ٹھیک کرے اور اس حوالے سے معافی مانگے اور کمیٹی اس خوف کی فضا کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام کرے۔