سینیٹ میں اپوزیشن کی سخت مخالفت پر بین الاقوامی مالیاتی ٹاسک فورس کے  دونوں بلز کثرت رائے سے مسترد

 قائد ایوان  سینیٹر وسیم شہزاد کا اپوزیشن جماعتوں کی قیادت پر منی لانڈرنگ کے الزامات  کے حوالے سے  بیان پر معذرت کرنے سے انکار

حکومت کو کورم کے معاملے پر چار بار شرمندگی کا سامنا

بار ایوان بالا کی کارروائی معطل ہوتی رہی، بڑی مشکل سے  حکومت 26ارکان کو جمع کرسکی

سینیٹر وسیم شہزاد اور پیپلزپارٹی کے اسلام الدین شیخ کے درمیان تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا

دونوں ایک دوسرے کو مارنے کیلئے  ایک دوسرے کی جانب لپکے  ایوان  بالا کی کارروائی انتہائی ہنگامہ خیز رہی

مسلم لیگ ن کے رہنما  سینیٹر مشاہد اللہ خان نے  قائد ایوان کیخلاف سخت تقریر کرڈالی

 ایوان بالا بلز کی تحریک کے قوائد و ضوابط کی تشریح میں پھنس گیا، ڈھائی گھنٹے تک دونوں اطراف سے دلائل دئیے  جاتے رہے

تحریک کی منظوری کے بغیر بل پیش نہیں ہوسکتا

چیئرمین سینیٹ کا صوابدیدی اختیار ہے ، وزراء کا موقف

 تحریک پر رائے شماری کے نتیجے کا چیئرمین سینیٹ نے اعلان بھی نہیں کیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک ) سینیٹ میں اپوزیشن کی  سخت مخالفت پر بین الاقوامی مالیاتی ٹاسک فورس کے حوالے سے  دونوں بلز کثرت رائے کی بنیاد پر مسترد ہوگئے، قائد ایوان  سینیٹر وسیم  شہزاد نے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت پر منی لانڈرنگ کے الزامات  کے حوالے سے  بیان پر معذرت کرنے سے انکار کردیا، حکومت کو کورم کے معاملے پر چار بار  شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ، بار بار ایوان بالا کی کارروائی معطل ہوتی رہی، بڑی مشکل سے  حکومت 26ارکان کو جمع کرسکی،سینیٹر وسیم شہزاد اور پیپلزپارٹی کے اسلام الدین شیخ کے درمیان تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا، دونوں ایک دوسرے کو مارنے کیلئے  ایک دوسرے کی جانب لپکے، مسلم لیگ ن کے رہنما  سینیٹر مشاہد اللہ خان نے  قائد ایوان کیخلاف سخت تقریر کرڈالی اور کہاکہ اگر وہ غلطی سے  قائد ایوان بن گئے ہیں تو اس کی لاج رکھیں  ورنہ  وہ اس  ایوان کی سب سے پچھلی نشست پر بیٹھنے کے قابل ہیں، ہمارے درمیان بھی  لڑنے والے لوگ موجود ہیں ، جو آنکھیں اپوزیشن کی طرف دیکھی جائیں گی انہیں نکال دیں گے۔ ایوان بالا بلز کی تحریک کے قوائد و ضوابط کی تشریح میں پھنس گیا، ڈھائی گھنٹے تک دونوں اطراف سے دلائل دئیے  جاتے رہے ،تحریک کی منظوری کے بغیر بل پیش نہیں ہوسکتا، وزراء نے موقف اختیار کیا کہ چیئرمین سینیٹ کا صوابدیدی اختیار ہے۔ تحریک پر رائے شماری کے نتیجے کا چیئرمین  سینیٹ نے اعلان بھی نہیں کیا۔ منگل کو ایوان  بالا کی کارروائی انتہائی ہنگامہ خیز رہی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے  وقفہ سوالات نہ ہونے اور اسے معطل کرنے سے متعلق تحریک پر شدید اعتراض اور احتجاج کیا۔ قائد ایوان کی طرف سے  تحریک پیش کرنے پر اپوزیشن جماعتیں واک آئوٹ کرگئیں۔ شیری رحمان نے  کورم کی نشاندہی کردی۔19ارکان کی موجودگی پر چیئرمین سینیٹ نے  اجلاس کی کارروائی روک دی۔ دوبارہ گنتی کروائی گئی 24 ارکان تھے پھر کارروائی معطل کردی گئی، گھنٹیاں بجانے کے باوجود مزید حکومتی ارکان ایوان میں نہ پہنچ سکے۔ جس پر وزراء نے فوری طورپر پارلیمنٹ سے باہر ارکان سینیٹ سے رابطہ کیا۔ پندرہ منٹ کے بعد دوبارہ اجلاس شروع ہوا، دوبارہ گنتی ہوئی  پھر 24ارکان تھے۔ دوبارہ ٹیلی فون کیے گئے  ارکان  کے پہنچنے کیلئے منت سماجت کی گئی۔ چیئرمین سینیٹ ایوان میں آئے ، گنتی کروائی گئی26ارکان ہوگئے۔ ایجنڈے کے مطابق کارروائی چلائی گئی۔ مجالس قائمہ کی رپورٹس لی گئیں۔ مشیر پارلیمانی امور نے فیٹف کے حوالے سے بلز متعارف کروانے کی تحریک پیش کی۔ yesاور no کروایا گیا اکثریت نے تحریک کی مخالفت کی۔ چیئرمین سینیٹ نے تاہم نتیجے کا اعلان نہیں کیا اور اپوزیشن  سے کہا کہ  بیشک بل مسترد کردیں مگر بل تو پیش کرنے دیں۔ مشیر پارلیمانی امور نے کہاکہ تحریک کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس طرح دو دن کے  نوٹس کے حوالے سے  چیئرمین  سینیٹ کا اختیار ہے اسی طرح براہ راست بلز بھی لئے جاسکتے ہیں اس معاملے پر وزیر قانون فروغ نسیم، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر، رضا ربانی نے دلائل دئیے  جو ڈھائی گھنٹے تک جاری رہے۔ چیئرمین سینیٹ نے  تحریک کے بغیر براہ راست بل پیش کرنے کی اجازت دیدی۔ مشیر پارلیمانی امور نے وقف املاک کے مناسب انتظام اور دوسرا ترمیمی اینٹی منی لانڈرنگ بلز پیش کیے، اپوزیشن نے مخالفت کی، اپوزیشن کی برتری پر دونوں بل مسترد کردئیے گئے۔ چیئرمین  سینیٹ نے اس حوالے سے  رولنگ جاری کی کہ بلز مسترد کیے جاتے ہیں۔ قبل ازیں مصطفی نواز کھوکھر نے کہاکہ قائد ایوان  نے گزشتہ دنوں آصف علی زرداری اور شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے، پہلے وہ معافی مانگیں ،اپنے الفاظ واپس لیں ، قومی مفاد میں تعاون کیلئے تیار ہیں، ان ذمہ داران کا تعین کیا جائے  جن کی وجہ سے  اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت پاکستان  قانون سازی کررہا ہے حال ہی میں اقوام متحدہ نے 75 تنظیموں کو کالعدم قراردیا ہے۔ شہزاد وسیم نے کہاکہ میں نے منی لانڈرنگ کے معاملے پر بات کی تھی مگر کسی شخصیت کا نام نہیں لیا تھا۔ اسلام الدین شیخ بھڑک اٹھے اور  کہاکہ نام لئے گئے تھے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس دوران ان کی  وسیم شہزاد سے تلخ کلامی ہوگئی،وسیم شہزاد قائد ایوان کی نشست چھوڑ کر اسلام الدین شیخ کی جانب بڑھے، دونوں میں تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا، اس پر اپوزیشن  میں مزید اشتعال پھیل گیا مشاہد اللہ خان نے کہاکہ اب بھی کابینہ میں مشرف کی باقیات بیٹھی ہیں۔  جنرل مشرف دبئی میں ایڑھیاں رگڑ رہا ہے ان کا بھی یہ حال ہوسکتا ہے۔ دھمکیاں نہ دیں یہ تو مارنے کیلئے دوڑ رہے ہیں کیا قائد ایوان ایسا ہوتا ہے  ، غلطی سے بن گئے ہیں تو اہلیت دکھائیں ورنہ پچھلی نشست پر بیٹھنے کے قابل ہیں۔ ہمیں آنکھیں نہ دکھائیں  یہ آنکھیں نکال لی جائیں گی۔ جنرل پرویز مشرف کا دور نہیں ہے کسی کی اسٹک اور خواہش پر سینیٹ نہیں چل سکتا۔ اسٹک کو ان کے سر پر دے ماریں گے ہم نے  بڑے بڑے مارشل لاء دیکھے ۔ قائد ایوان وسیم شہزاد نے کہاکہ مجھے  براہ راست  دھمکی دی گئی ہے اسے ریکارڈ پر لایا جائے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ پاکستان کی سلامتی پر سمجھوتے کیلئے  مالیاتی ٹاسک فورس کے دبائو پر قانون سازی کی جارہی ہے ، پاکستان کو گروی رکھا جارہا ہے  یہ قومی سلامتی کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کو آئی ایم ایف ،فیٹف کے  حوالے کرنے کے مترادف ہے جو اپوزیشن جماعتیں  قومی مفاد اور قومی سلامتی کی بات کررہی ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ، اپنی پوزیشن واضح کریں حکومت سے کہنا چاہتا ہوں کہ کیا کبھی چینی مافیا، آٹا مافیا، کرپٹ مافیا کیخلاف بھی  اپوزیشن سے  تعاون مانگا ہے، ہم بلز کو مسترد کرتے ہیں ، مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ اگر اپوزیشن جماعتوں  نے اتفا ق کرلیا تو مطلب واضح ہے کہ یہ  ان کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے  تجویز دی تھی کہ  قائد ایوان اپنے الفاظ واپس لے  لیں اور معذرت کرلیں اور انہوں نے کہاکہ آج جس طرح ماحول خراب ہوا ہے سینیٹ کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا قائد ایوان کو صبر و تحمل دکھانا ہوتا ہے ، برداشت کرنی پڑتی ہے۔ سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے واضح کیا کہ ہماری قیادت کو ذلیل  بھی کریں ،بدنام بھی کریں اور ہم سے تعاون بھی مانگیں ایسا نہیں ہوسکتا،  قومی اسمبلی سے  گزشتہ روز بلز کی منظوری   کے پندرہ منٹ کے بعد ہی ایک مسخرے  نے کھڑے ہوکر  ہماری قیادت پر الزام تراشی کی۔ ہم ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں مگر ہمیں  قومی مفاد عزیز ہے۔ یہ خود معاملات کو متنازع بنارہے ہیں۔ ایوان کا ماحول انتہائی کشیدہ تھا ۔ شیریں رحمان نے بھی  واضح کردیا کہ معافی مانگنے تک کوئی تعاون نہیں ہوگا۔ بعض ارکان کی طرف سے  فیصل جاوید کو بے بی قراردینے پر فیصل جاوید اپنی نشست سے  اٹھے اور کہاکہ بلاول مجھ سے دس سال چھوٹا ہے اصل بے بی تو وہ ہے ۔بابر اعوان نے واضح کردیا ہے کہ بھارت اور اس کی لابی پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈلوانا چاہتی ہے ایسا ہوگیا تو پاکستان پر پابندیاں لگ سکتی ہیں ، معاشی ترقی رک سکتی ہے اور کرونا کے بعد بحالی کا جو سفر شروع ہوا وہ کھوٹہ ہوسکتا ہے۔ ہم ممکنہ  اقدامات کے ذریعے پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم ذمہ دار ملک ہیں۔ ایوان بالا میں حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے پوری قوم دیکھ رہی  ہے۔