اسلام آباد (ویب ڈیسک)

کمیٹی کا پائلٹس کے مشکوک لائسنس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ طلب کرنے پر ڈی جی سول ایوی ایشن  کا  پیش کرنے سے معذرت

لائسنس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پبلک کیوں نہیں کی جا رہی؟،۔چیئرمین کمیٹی

 تحقیقاتی رپورٹ پبلک کرنے سے سوشل میڈیا پر نیا تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے، سیکرٹری ایوی ایشن

پائلٹس لائسنس کی فارنزک تحقیقات میں دونوں پائلٹس کے لائسنس مشکوک قرار دئیے گئے، پالپا نمائندے

سپریم کورٹ کے حکم پر پائلٹس کی ڈگریوں کی چھان بین کی گئی، جعلی لائسنس سے متعلق فارنزک آڈٹ مکمل کرلیا گیا ہے، سیکریٹری سول ایوی ایشن

 لائسنس میں شہید پائلٹس کے ناموں کی فہرست میں موجودگی افسوس ناک ہے، تحقیقاتی رپورٹ سے قبل اس طرح ان کا نام شامل کرنامناسب نہیں،کیپٹن وقاص

ایوی ایشن کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں حویلیاں طیارے حادثے میں جاں بحق دونوں پائلٹس کے لائسنس بھی جعلی ہونے کا انکشاف ہوا ہے،تحقیقات میں پائلٹس کا موقف نہ سننے پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حیران کن بات ہے کہ پائلٹس کو سنا تک نہیں گیا،کمیٹی کی جانب سے  پائلٹس کے مشکوک لائسنس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ طلب کرنے پر ڈی جی سول ایوی ایشن  کا  پیش کرنے سے  معذرت کر لی۔ایوی ایشن کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت ہوا، جس میں سول ایوی ایشن، پالپا اور پی آئی اے حکام نے شرکت کی۔سیکریٹری سول ایوی ایشن نے پائلٹس کے مشکوک لائسنس کے معاملے پر کمیٹی کو بریفنگ دی اور بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پائلٹس کی ڈگریوں کی چھان بین کی گئی، جعلی لائسنس سے متعلق فارنزک آڈٹ مکمل کرلیا گیا ہے، تحقیقات کے دوران پائلٹس کو ذاتی حیثیت میں بھی طلب کیا گیا۔اجلاس میں حویلیاں طیارے حادثے میں جاں بحق دونوں پائلٹس کے لائسنس بھی جعلی ہونے کا انکشاف ہوا۔ پالپا نمائندوں نے کمیٹی کو بتایا کہ پائلٹس لائسنس کی فارنزک تحقیقات میں حویلیاں حادثے میں شہید ہونے والے دونوں پائلٹس کے لائسنس مشکوک قرار دیئے گئے۔ کیپٹن وقاص نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ لائسنس میں شہید پائلٹس کے ناموں کی فہرست میں موجودگی افسوس ناک ہے،  تحقیقاتی رپورٹ سے قبل اس طرح ان کا نام شامل کرنامناسب نہیں، حویلیاں طیارہ حادثہ تکنیکی نوعیت کا تھا۔کیپٹن وقاص کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں 141پائلٹس کے لائسنسز کو جعلی قرار دے دیا گیا، ان میں سے جن 15 پائلٹس کے لائسنس کو جعلی قرار دیا گیا وہ کب کے ریٹائر ہو چکے ہیں، جبکہ 20پائلٹس کبھی پی آئی اے کا حصہ رہے ہی نہیں، 25لوگوں کو غلط معلومات کے مطابق گرائونڈ کردیا گیا، 45 پائلٹس وہ تھے جن کے لائسنس کو امتحان کی تاریخ سے متعلق غلط فہمی کی بنیاد پر جعلی قرار دیا گیا۔تحقیقات میں پائلٹس کا موقف نہ سننے پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حیران کن بات ہے کہ پائلٹس کو سنا تک نہیں گیا۔کمیٹی نے پائلٹس کے مشکوک لائسنس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ طلب کیں تو ڈی جی سول ایوی ایشن نے تحقیقاتی رپورٹ کمیٹی کو پیش کرنے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پائلٹس لائسنس کی تحقیقاتی رپورٹ تاحال کسی سطح پر پیش نہیں کی گئی۔چیئرمین کمیٹی نے پوچھا کہ لائسنس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پبلک کیوں نہیں کی جا رہی؟۔  جس پر سیکرٹری ایوی ایشن نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ پبلک کرنے سے سوشل میڈیا پر نیا تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے۔یاد رہے کہ دسمبر 2016میں پی آئی اے کا طیارہ چترال سے اسلام آباد جاتے ہوئے حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگیا تھا جس میں سوار تمام 48افراد ہلاک ہوگئے تھے۔